Pages

اتوار، 4 اکتوبر، 2015

عقیدہ رسالت

عقيدہ رسالت
سوال نمبر 1:رسالت کا لغوي معنیٰ لکھيں
جواب:رسالت کے لغوي معنیٰ   پيغام پہنچانا ہے  اور پيغام پہنچانے والے کو رسول کہا جاتا ھے
سوال نمبر 2:رسالت کا اصطلاحي معنیٰ کيا ہے؟
جواب: شريعت  کي اصطلاح ميں رسول اس ہستی کو کہا جاتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ  اپنے احکامات اور تعليمات کو  اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے منتخب فرمائيں"
سوال نمبر3:رسول اور نبي ميں کيا فرق ہے
رسول اس پيغمبر کو کہتے ہيں جس کو نئي کتاب اور شريعت دي گئي ہو جبکہ نبي  عام ہيں چاہے  اسے نئي کتاب اور شريعت دي گئي ہو يا نہيں
سوال نمبر 4:وحي کے لغوي اور اصطلاحي معني بيان کريں
جواب: وحي کے لغوي معني ہيں  دل ميں چپکے سے کوئي بات ڈالنا 2 اشارہ کرنا
اور وحي کے اصطلاحي معني : اللہ تعالیٰ کا وہ پيغام جو وہ  اپنے کسي فرشتے کے ذريعے کسي رسول کي طرف نازل کرے ، يا براہ راست اس کے دل ميں ڈال دے 
يا کسي پردے کے پيچھے سے سنوادے
سوال نمبر 5: نزول وحي کے کتنے اور کون کون سے طريقے ہيں 
جواب:نزول وحي کے مشہور 5 طريقے ہيں
1: حضرت جبرائيل اپني اصل شکل ميں تشريف لاتے ايسا صرف  آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي زندگي ميں 3بار ہوا
2:وحی کی دوسري شکل يہ تھي کي جبرائيل امين کسي انساني شکل ميں آتے عموما  حضرت دحيہ کلبي کي شکل ميں تشريف لاتےتھے 
3:وحی کی تيسري صورت يہ تھي کہ آپ کو نزول قرآن سے قبل سچے خواب نظر آيا کرتے تھےجو کچھ خواب ميں ديکھتے بيداري ميں ويسا ہي ہوجاتا
4:وحی کی چھوتی شکل يہ تھي آپکو گھنٹيوں کي سي آواز سنائي ديتي
5: وحي  کي پانچويں صورت يہ تھي کہ حضرت جبرئيل عليہ السلام کسي بھي صورت ميں سامنے آئے بغير آپ کے قلب مبارک ميں کوئي بات القاء فرماديتے تھے
سوال نمبر 6: وحي کي اقسام بيان کريں
جواب: متلو وغير متلو
متلو:قرآن کريم 
غير متلو: صحيح احاديث
سوال نمبر 7:رسول کسے کہتے ہيں
جواب: شريعت  کي اصطلاح ميں رسول اس ہستي کو کہا جاتا ہے جس کو اللہ تعالي  اپنے احکامات اور تعليمات کو  اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے منتخب فرمائيں"
سوال نمبر 8:نبي کے معني اور مفہوم بيان کريں 
جواب:نبي کے معنی ہے خبر  دينے والا چونکہ نبی لوگوں کو اللہ کے پيغام کي خبر ديتا ہے اس لئے اسے نبی کہتے ہيں 
سوال نمبر 9:رسول کی ضرورت کيوں پيش آتي ہے؟
جواب؛ تاکہ  رسول اللہ تعالی کے پيغام کو واضح انداز ميں لوگوں تک پہنچا ديں  2اللہ تعالیٰ کے احکامات پر خود عمل کر کے عملی نمونہ پيش کريں 
سوال نمبر 10:تکميل دين والی آيت بمع ترجمہ تحرير کريں
“اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا” (المائدہ) ترجمہ:” آ ج کے دن ميں نے تمہارے لئے تمہارا دين کا مل کر ديا ،اور تم پر ميں نے اپنا احسان پورا کر ديا، اور پسند کيا ميں نے تمہارے لئے اسلام کو دين”
سوال نمبر 11:انبياء کی پانچ خصوصيات بيان کريں
ج:1 بشريت 2 امانت داري 3اللہ تعالی کے احکامات کي تبليغ 4معصوميت 5واجب اطاعت (ان کي اطاعت کرنا ضروری ہوتا ہے )
سوال نمبر 12:قرآن کريم ميں نام ليکر کتنے انبياء کا زکر کيا گيا
جواب:قرآن کريم ميں اللہ تعالی نے 25  انبياء کا نام لیکر ذکر فرمايا
سوال: 13 روايات ميں کتنے انبياء کا ذکر ملتا ہے
جواب: ايک لاکھ 24 ہزار
سوال:14ختم نبوت کا مفہوم واضح کريں
جواب:ختم نبوت سے مراد يہ ہے کہ حضور نبی  اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اللہ تعالیٰ  نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو اس جہاں ميں بھيج کر بعثت انبياء کا سلسلہ ختم فرما ديا ہے،اب آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہيں ہوگا
سوال نمبر 15:شريعت سے کيا مراد ہے
جواب:’’بندوں کے لئے زندگی گزارنے کا وہ طريقہ جسے اللہ تعالیٰ نے تجويز کيا اور بندوں کو اس پر چلنے کا حکم ديا(جيسے نماز، روزہ، حج، زکوہ اور جملہ اعمال صالحہ)‘‘
سوال نمبر 16:حضور عليہ السلام نے اپنے آخری   نبی ہونے کي مثال کس چيز سے دی؟
حضور نے فرمايا ميری اور مجھ سے پہلے  گزرے ہوئے انبياء کی مثال  ايسے ہے جيسے کسی شخص نے اک عمارت بنائی ور خوب حسين وجميل بنا     ئی مگر ايک کنارے ميں اک اينٹ کي جگہ خالی چھوڑ دی اور وہ اينٹ ميں ہوں 

مکمل تحریر >>

پیر، 14 ستمبر، 2015

مدارس بار ے اعلی سطحی اجلاس کی تفصیلی روداد

مدارس بار ے اعلی سطحی اجلاس کی تفصیلی روداد
(مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان )
7ستمبر بروز پیر وزیراعظم ہاوس اسلام آباد میں دینی مدارس کے بارے میں ایک اہم ،منفردا ورتاریخی اجلاس ہوا ۔اس اجلاس اور اس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں اندرون وبیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں غیر معمولی دلچسپی دیکھنے میں آئی ۔ مسلسل فون کالوں کا تانتا بندھا ہوا ہے اور ہر کوئی اس اجلاس کی تفصیلات جاننے کے لیے بے تاب ہے ۔آج 8ستمبر کے اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں اس اجلاس کی جس انداز سے رپورٹنگ ہوئی اس میں بعض چیزیں حقائق کے منافی ہیں اور ان کی وجہ سے کچھ منفی تاثر سامنے آیا ہے جس نے پاکستان اور دینی مدارس سے محبت رکھنے والوں کی بے چینی اور سوالات میں اضافہ کر دیاہے اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اجلا س کی مکمل تفصیلات من وعن پیش کردی جائیں تاکہ ریکارڈ درست رہے اور لوگوں کے ابہام وتذبذب اور سوالات کا بھی خاتمہ ہو سکے۔
آج کے اخبارات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اجلاس کے بارے میں کیا کچھ گھڑا اور چھاپا گیااور کتنی ہی ایسی چیزیں رپورٹ ہوئیں جن کا اجلاس میں سرے سے تذکرہ تک نہیں ہوا۔مثال کے طور پر اس بات کی رپورٹنگ کی گئی کہ مدارس کا نصاب تبدیل کیا جائے گا اور مدارس میں اے لیول اور او لیول کی تعلیم لازمی طورپردی جائے گی یادرہے کہ مدارس عصری تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے سے انکاری نہیں لیکن اس طرح کی کوئی بات اجلاس میں سرے سے ہوئی ہی نہیں ۔اسی طرح کسی کو بلاوجہ کافر کہنے ،قتل پر اکسانے اور شرانگیز تقاریروغیرہ سب قابل مذمت ہیں لیکن اجلاس میں ان کا اس طرح ذکرنہیں آیاجس طرح اخبارات اور میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے ۔اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ مدارس کے لین دین کے تمام معاملات آئندہ بینکوں کے ذریعے ہوں گے حالانکہ صرف یہ ذکر آیا کہ بعض علاقوں میں بینک جملہ ضروری دستاویزات جمع کروانے کے باوجود مدارس کے اکاو نٹ کھولنے میں لیت ولعل سے کام لیتے ہیں ، تنگ کرتے ہیں اور بلاجواز رکاوٹ ڈالتے ہیں ۔اسی طرح یہ بات چھپی کہ بیرونی امداد کے لیے قانون سازی ہوگی اجلاس میں اس بات کا ذکر تک نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ مدارس کسی قسم کی بیرونی امداد لیتے ہی نہیں اس لیے اگر حکومت اس بارے میں قانون سازی کرے تو ہمیں اعتراض نہ ہوگا تاہم حکومت قانون سازی سب کے لیے یکساں طورپر کرے وہ قانون سازی مدارس کے بارے میں امتیازی نہ ہو۔ان چند مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح اپنی خواہش کو خبر بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور کس طرح ”میزکہانیاں“ تخلیق کرکے معاملات کو بگاڑا جاتا ہے ۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ جب بھی معاملات صحیح رخ پر چلنے لگتے ہیں ،پاکستان کے بہتر مستقبل کے کسی سفر کا آغاز ہوتا ہے ،کوئی کامیاب اجلاس ہوتا ہے تو کئی منفی قوتیں اور سازشی عناصر کامیاب اجلاس کو ناکام بنانے کی کوشش میں جُت جاتے ہیں اس لیے حکومت اور ارباب مدارس کو ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔ 
یہ اجلاس پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم اور منفرد اجلاس تھا ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی اور عسکری قیادت نے کھلے دل سے مدارس سے متعلق جملہ امور کو سنا ، پانچوں وفاقوں اور تمام مکاتبِ فکر کے قائدین نے کھل کر دینی مدار س کے بارے میں جملہ امور پر اظہارِ خیال کیا ۔اجلاس انتہائی خوشگوار اور افہام وتفہیم کے ماحول میں ہوا ۔ اجلاس کے بعد دونوں طرف کے ذمہ داران ن مکمل تسلی اور اعتماد واطمینان کا اظہار کیا،بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا۔اجلاس میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ،چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر ،وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ، وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف ، وزیر تعلیم میاں بلیغ الرحمن شریک ہوئے جبکہ دینی مدار س کی طرف سے راقم الحروف کے علاوہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی،مولانا مفتی منیب الرحمن ،پروفیسر ساجد میر ،مولانا عبدالمالک ،علامہ ریاض حسین نقوی ،مولانا ڈاکٹر یاسین ظفر ،صاحبزادہ عبدالمصطفے ٰ ہزاروی ،مولانا ڈاکٹر عطاءالرحمن اورعلامہ محمد نجفی شریک ہوئے ۔
اجلاس کی دونشستیں ہوئیں پہلی نشست وفاقی وزیرداخلہ کی صدارت میں ہوئی جس میں دینی مدارس کی قیادت کے علاوہ وزارت داخلہ ،وزارت تعلیم اور وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری صاحبان شریک ہوئے یہ نشست دو گھنٹے جاری رہی پھر مختصر وقفے کے بعد دوسری نشست وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی صدارت میں ہوئی جو دوگھنٹے تک جاری رہی یوں مجموعی طور پراجلاس چار گھنٹے جاری رہا ۔وزیر اعظم ،چیف آف آرمی اسٹاف اور دیگر تمام ذمہ داران نے اجلاس کو خصوصی اہمیت دی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک موقع پر جب یہ کہا گیا کہ اجلاس کو مختصر کیا جائے کیوں چیف آف آرمی اسٹاف کی کوئی اور مصروفیت ہے تو چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا اجلاس جب تک جاری رہے گا میں اس وقت تک موجود رہوں گا اجلاس کو ہرگز مختصر نہ کیا جائے۔
اجلاس کے موقع پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ وطنِ عزیز پاکستان کے استحکام کے لیے ،پاکستان میں امن وامان کے قیام کے لیے ،پاکستان سے دہشت گردی،انتہاپسندی اور تشدد کے خاتمے کے لیے حکومتی ،عسکری اور دینی قیادت مل کر کردار اداکرے گی ۔اس موقع پر اس عز م کا اعادہ کیا گیا کہ ملک وملت کی تعمیر وترقی کے لیے کسی قسم کی سیاسی وابستگی ،کسی قسم کی مفادپرستی یا دباوکو آڑے نہیں آنے دیا جائے گا ۔اسی طرح یہ بھی طے پایا کہ مدارس کے بارے میں جملہ امور بات چیت اور افہام وتفہیم سے طے کیے جائیں گے اورمدارس دینیہ حکومتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین رابطوں کو مزید بڑھایاجائے گا۔دینی مدارس سے متعلقہ جملہ طے شدہ معاہدوں پر عملدرآمد کے لیے چودھری نثار علی خان کی سربراہی میں رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ 
اس اہم ترین اجلاس کے انعقاد کے لیے سب سے اہم اور فعال کردار وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی ذاتی دلچسپی اور سنجیدگی کا تھا جس پر وہ بجا طورپر شکریہ کے مستحق ہیں۔اجلاس کے آغاز میں وفاقی وزیر داخلہ نے اجلاس کے انعقاد کا پس منظر ،اس کے مقاصد اور ایجنڈے کا تفصیل سے تذکرہ کیا ۔ اس کے بعد اجلاس میں درج ذیل امور زیرِ غور آئے ۔
اجلاس کی ابتداءمیں شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ دہشت گردی کے ساتھ مدرسہ کا تذکرہ کرنا ،ہر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد دینی مدارس کو ہدف بنا لینا انتہائی افسوسناک امر ہے۔ خاص طور پر نیشل ایکشن پلان جو بنیادی طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا اس میں مدارس کے تذکرے نے دینی مدارس کے بارے میں عمومی تاثر پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ۔دہشت گردی کے ساتھ مدارس کے تذکرے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے ڈانڈے مدارس سے ملتے ہیں اور دینی مدارس دہشت گردی کا منبع ہیں حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے ۔اس پر تمام حکومتی اور عسکری ذمہ داران نے فرداً فردا ًکہا کہ ہم دینی مدارس کے کردار وخدمات کی دل سے قدر کرتے ہیں اور دینی مدارس کو اپنا ملی اثاثہ او رقومی سرمایہ تصور کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ۔اس موقع پر یہ با ت بھی آئی کہ جس طرح نیشنل ایکشن پلان میں دینی مدارس کا تذکرہ بے محل ہوا اس سے کہیں بڑھ کر اکیسویں آئینی ترمیم میں دہشت گردی کو مذہب کے ساتھ نتھی کر کے اس قانون کو امتیازی اور متنازعہ بنایا گیا ۔ہماری نظر میں دہشت گردی کو مذہب سے نتھی کرنا ناانصافی ہے دہشت گردی دہشت گردی ہے وہ لسانی ،علاقائی یا سیاسی کسی بھی بنیاد پر ہو اس کی روک تھام ہونی چاہیے اس لیے اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ اکیسویں ترمیم کے بعدبائیسویں ترمیم لا کر اس تاریخ غلطی کا ازالہ کیا جائے ۔اس پر اصولی اتفاق کیا گیا لیکن اس پر عملد رآمد کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا ۔
چونکہ راقم الحروف کو مدارس کا مقدمہ پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اس لیے میں نے دینی مدارس سے متعلقہ معاملات کو ترتیب وار پیش کیا اور اجلاس کو بتایا کہ 
٭دینی مدارس کے بارے میں اس وقت عمومی تاثر یہ ہے کہ مدارس رجسٹریشن سے انکاری ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔مدارس نے کبھی بھی رجسٹریشن سے انکار نہیں کیالیکن رجسٹریشن کے عمل کی پیچیدگی اور حکومتی اہلکاروں کا طرز عمل رجسٹریشن کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور حال ہی میں جو پیچیدہ اور طویل رجسٹریشن فارم تیار کیا گیا وہ بھی رجسٹریشن کے عمل کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث ہے ۔اس لیے یہ بات طے کی گئی کہ مدارس کی رجسٹریشن کا عمل سہل اور آسان بنایا جائے گا ۔2005ءکے معاہدے اور طریقہ کارکی روشنی میں رجسٹریشن کا طریقہ کار اور رجسٹریشن فارم تیار کیا جائے گا ۔
٭....دینی مدارس کے کوائف کے بارے میں اجلاس کو بتایا کہ دینی مدارس حکومتی اداروں کو کوائف فراہم کرنے سے نہ تو انکاری ہیں اور نہ ہی کبھی بھی لیت ولعل سے کام لیتے ہیں لیکن کوائف طلبی کا طریقہ کار انتہائی افسوسناک اور توہین آمیز ہے ۔اس وقت ملک بھر میں بیسیوں قسم کے سروے فارم گردش کر رہے ہیں ۔ہر ایس ایچ او اور ڈی پی او نے اپنا الگ فارم تیار کر رکھا ہے ،بعض جگہوں پر مدارس کے اساتذہ وطلباءکی بہنوں اور بیٹیوں کے نام اور فون نمبر تک طلب کیے گئے“ اس بات پر چیف آف آرمی اسٹاف نے برہمی کا اظہار کیا اور اپنے اسٹاف کو ہدایات جاری کیں کہ اس بات کا سراغ لگایا جائے کہ اس قسم کی نادانی کا مظاہرہ کس کی طرف سے اور کیوں کیا گیا ؟”اسی طرح کوائف کے معاملے میں سب سے ناقابل فہم عمل یہ ہے کہ ہر دوسرے دن کسی الگ ادارے کے اہلکار کوائف کے حصول کے لیے دینی مدارس میں آتے ہیں اور مدارس کی انتظامیہ کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں“ اس لیے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کوائف کے لیے ایک ہی ڈیٹا فارم تیار کیا جائے گااور سال میں ایک یا دو دفعہ کوائف حاصل کرلیے جائیں گے اور بار بار مدارس کو پریشان نہیں کیا جائے گا بلکہ جس ادارے کو مدارس کے کوائف مطلوب ہو ں گے وہ براہِ راست اہل مدارس کو پریشان کرنے کی بجائے متعلقہ ادارے سے رجوع کرے گا ۔
٭....اس موقع پر دینی مدار س کے خلاف جاری کریک ڈاون ،چھاپوں اور مدارس کے طلباءکو ہراساں کرنے کے حوالے سے صورت حال سے اجلاس کو تفصیل سے آگاہ کیا ۔شرکائِ اجلاس کو بتایاکہ کس طرح رات کی تاریکی میں مدارس پر لشکر کشی کی جاتی ہے ،بیسیوں گاڑیوں اورسینکڑوں اہلکاروں کے ساتھ مدارس پر اس طرح یلغار ہوتی ہے جیسے شاید کشمیر میں انڈین آرمی کی طرف سے بھی نہ ہوتی ہو ۔مدارس کے کمسن بچے سہم جاتے ہیں ،اساتذہ کی اپنے طلباءکے سامنے بے توقیری کی جاتی ہے ،مدارس کی اپنے علاقے میں جو ساکھ ہوتی ہے اسے لمحوں میں تہس نہس کر دیا جاتا ہے ۔گزشتہ دس ماہ سے یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید ہی کوئی چھوٹا بڑا مدرسہ ایسا ہو جس پر چھاپہ نہ مارا گیا ہو ان مدارس سے نہ کوئی مشکوک شخص برآمد ہوا اور نہ ہی کسی قسم کا اسلحہ یا کوئی اور ممنوعہ چیز پکڑی گئی لیکن اس کے باوجود چھاپے مارے جارہے ہیں اس بارے میں پہلے سے یہ بات طے چلی آرہی ہے کہ مدارس کے بارے میں اگر ٹھوس ثبوت ہوں گے تو متعلقہ وفاق کو اعتماد میں لے کر ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی لیکن اب ثبوت تو کجا بلاجواز چھاپے مارے جارہے ہیں ،جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں ،علماءِ کرام کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال دئیے جاتے ہیں اس کی فوری تلافی ہونی چاہیے ۔ خاص طور پر بعض مقامی پولیس اہلکارمسلکی یا ذاتی تعصب یا شخصی مفاد کی بنیاد پر کارروائیاں کرتے ہیں ان کی روک تھام کی جانی چاہیے۔اس پر فیصلہ ہواکہ آئندہ کسی مدرسہ پر بلاجواز چھاپہ نہیں مارا جائے گا اگر کسی ادارے کے خلاف ٹھوس ثبوت ہوئے تو متعلقہ وفاق کو اعتماد میں لے کر اس کے خلاف کارروائی ہو گی ۔اسی طرح ایسے مدار س جن پر بلاجواز چھاپے مارے گئے یا جن علماءکرام کو بلاوجہ گرفتار کیا گیا ۔ جن کے نام کسی عناد کی وجہ سے فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ان معاملات کا کیس ٹو کیس جائزہ لیا جائے گا اور کسی قسم کی زیادتی کے مرتکب اہلکاروں اور افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی ۔
٭....یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ مدارس کے بارے میںامتیازی طور پر بار بار اصلاحات اور ریفارمز کی بات کی جاتی ہے حالانکہ ہمارے ہاں تو ہر شعبہ زندگی میں اصلاحات کی ضرورت ہے اس لیے صرف مدارس کو ہدف بنانا درست نہیں۔ اس پر اجلاس میں شریک ایک اہم ذمہ دار کی تجویز پر یہ طے پایا کہ مدرسہ ریفارمز کے بجائے ایجوکیشن ریفارمز کی بات کی جائے گی اور عمومی طورپر ایجوکیشن ریفارمز پر کام کیا جائے گا ۔
٭....اجلاس کے دوران دینی مدارس کے تعلیمی مسائل بھی زیر بحث آئے ۔ہم نے شرکاءاجلاس کو بتایا کہ دینی مدارس کے بارے میں یہ جو تاثر کہ مدارس میں عصری تعلیم کی کوئی گنجائش نہیں اور مدارس عصری مضامین کی تعلیم وتدریس کی مخالفت کرتے ہیں یہ تاثر بالکل درست نہیں مدارس نے از خود عصری تعلیم کو شامل نصاب کر رکھا ہے ۔دینی مدارس اگرچہ بنیادی طور پر دینی تعلیم کے ادارے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک حد تک عصری مضامین کو ہم دینی ضرورت سمجھتے ہیں البتہ ہمیں مشکل یہ پیش آتی ہے کہ طلباءکو امتحان کیسے دلوایا جائے اور ہماری اسناد کی حیثیت کیا ہو ؟ اس سے بھی زیادہ عجیب امر یہ ہے کہ ہماری عالمیہ کی سند کو تو ایم اے کے مساوی تسلیم کیا گیا ہے لیکن تحتانی اسناد کو میٹرک ،ایف اے اور بی اے کے برابر تسلیم نہیں کیا گیا اس حوالے سے 2010ءمیں اس وقت کی حکومت سے ہمارا یہ معاہدہ طے پاگیا تھا کہ دینی مدارس کی پانچوں نمائندہ تنظیمات کو خود مختار امتحانی بورڈ کا درجہ دیا جائے گا لیکن تاحال اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ہم نے یہ بھی تجویز کیا کہ اگر پانچوں وفاقوں کو خود مختار امتحانی بورڈ کا درجہ دینا ممکن نہ ہو تو کم از کم اتنا تو کر لیا جائے کہ جس طرح مدارس کی عالمیہ کی سندایم اے کے مساوی ہے اسی طرح تحتانی اسناد کو میٹرک ،ایف اے اور بی اے کے مساوی تسلیم کیا جائے ۔اس پر وزیر تعلیم میاں بلیغ الرحمن کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل پائی جو مدارس کو خود مختار امتحانی بورڈ یا مدارس کی اسناد کی مساوی حیثیت اور اس سے متعلق دیگر امور اور جملہ تجاویز کا جائزہ لے کر اپنی تجاویز پیش کرے گی بعد ازاں اس حوالے سے مزید پیش رفت ہو گی ۔
اسی طرح غیر ملکی طلباءکا مسئلہ بھی زیر بحث آیاکہ دینی مدارس میں اس وقت اگرچہ غیرملکی طلبہ بہت تھوڑی تعداد میں ہیں لیکن انہیں بھی کافی مشکلات کا سامنا ہے ان کے ویزوں میں توسیع نہیں کی جاتی ،حالانکہ انہوں نے قانون کے مطابق درخواستیں جمع کروا رکھی ہیں لیکن انہیں بلاوجہ پریشان کیا جاتا ہے اور ان کے بارے میں ان کے اداروں کی انتظامیہ سے کہا جاتا ہے کہ انہیں ڈی پورٹ کردیا جائے گا ان کے بارے میں ہماری درخواست یہ ہے کہ ان کے ویزوں میں توسیع کی جائے اور انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے دی جائے۔ اسی طرح دنیا بھر کے ایسے طلباءجو پاکستان دینی تعلیم کے حصول کے لیے آنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کے سفیر کا کردار اداکرتے ہیں لیکن ہم نے ان کے لیے اپنے دروازے بند کررکھے ہیں اور انہیں انڈیاسمیت دیگر ممالک اپنے ویزے دے کر پاکستان کی بدنامی کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ہمیں تو اس بات کو اپنا اعزاز سمجھنا چاہیے کہ دنیا بھر سے محض دینی تعلیم کے لیے تشنگان علوم پاکستان کا رخ کرتے ہیں ورنہ تو پاکستانی طلباءغیر ملکی یونیورسٹیز میں ڈگریوں اور عصری تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں لیکن کوئی غیر ملکی طالبعلم ہماری یونیورسٹیز کی طرف رخ بھی نہیں کرتا ۔
اسی طرح شرکاءاجلاس کی توجہ مدارس کے بینک اکاونٹس کی طرف بھی مبذول کروائی گئی کہ مدارس کے نئے اکاونٹ کھلوانے کے حوالے سے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تدارک کیا جائے اور مدارس کی قیادت کی گورنر اسٹیٹ بینک سے ملاقات کروا کر مدارس کے اکاو ¿نٹس کھولنے کا طریقہ کار،مطلوبہ دستاویزات اور ٹائم فریم طے کیا جا ئے تاکہ مدارس کا بروقت آڈٹ بھی ہو سکے اور مدارس بارے پروپیگنڈہ بھی بند ہو ۔
علامہ پروفیسر ساجد میر نے بطور خاص اس بات کا تذکرہ کیا کہ ہمارے ہاں جو لوگوں کو بلاجواز لاپتہ کر دیا جاتا ہے یہ پاکستان کی بدنامی اور ان کے خاندانوں کے لیے اذیت کا باعث ہے اس لیے تفتیش کو مہینوں اور سالوں تک نہ پھیلایا جائے بلکہ فی الفور تفتیش مکمل کر کے ان کے خلاف قانونی اور عدالتی کارروائی کی جائے ۔
مولانا مفتی منیب الرحمن نے بڑی تاکید کے ساتھ یہ نکتہ اٹھایا کہ دینی قیادت کی میڈیا مالکان سے جلد از جلد ایک ملاقات کروائی جائے ۔جس میں یہ بات طے کی جائے کہ میڈیا پر مذہب کے بارے میں کیا بات زیر بحث لانی ہے اور کیا نہیں لانی ؟ اور اسی طرح ہماری مذہبی اور مشرقی روایات کا کس قدر پاس رکھنے کی ضرورت ہے ؟مولانا مفتی منیب الرحمن نے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے وزیر اعظم سے گلہ کیا کہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا مدارس بارے جو بیان سامنے آیا اس پر ہمیں دلی دکھ ہوا اور اس سے زیادہ اس بات کا افسوس ہوا کہ وزیر اعظم نے اس بیان اور اس پر آنے والے شدید رعمل کانوٹس نہیں لیا اس پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اس بیان کا کوئی جواز نہیں تھا اور اس کا ہمارے پاس کوئی جواب بھی نہیں ہے اس لیے ہم اس پر معذرت کرتے ہیں ۔
آخر میں ہم سب نے یہ بات زور دے کر کہی کہ حکومت آج کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے کیوں کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ عملدرآمد کا ہے ۔اسی طرح دونوں طرف سے ان خواہشات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ پاکستان کے مفاد کے لیے ہمیں مل جل کر کوشش کرنا ہوگی اور پاکستان کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنانا ہوگا خاص طورپر ان قوتوں کو ناکام بنانا ہو گا جو کبھی لسانیت ،کبھی سیاست اور کبھی مذہب کی آڑ لے کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔
دینی مدارس کے بارے میں ہونے والا یہ اجلاس میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے علی الرغم انتہائی مفید ،موثر ،مثبت اور نتیجہ خیز رہا اللہ کرے کہ اس سے وابستہ امید یں حقیقت میں تبدیل ہوں ۔
💎جاری کردہ :مرکزی میڈیاسنٹر وفاق المدارس العربیہ پاکستان

مکمل تحریر >>

سود

يہاں اردو لکھيں حاصل مطالعہ (سود)
ڈاکٹر وقار مسعود کے بعد جدہ سے آئے ہوئے ایک پاکستانی انجینئر عبدالودود خان نے اس دعویٰ کے ساتھ اپنی معروضات پیش کیں کہ اگر ان کے فارمولے پر عمل کیا جائے تو ایک رات میں سودی نظام کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور موجودہ بنکاری نظام میں بھی کسی انقلابی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی تحریر کردہ ایک کمپیوٹرائزڈ کتاب بھی عدالت کے حوالے کی۔ عبدالودود خان نے سود ختم کرنے کا جو فارمولا پیش کیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ اگر کوئی شخص ایک سال کے لئے بنک سے ایک لاکھ روپیہ قرض لینا چاہے تو وہ دس ہزار دس سال کے لئے بنک کے پاس جمع کروا دے۔ اس کے عوض بنک شخص موصوف کو ایک سال کے لئے ایک لاکھ روپیہ ادا کردے۔ ان دونوں کھاتوں کا ایک دوسرے سے نہ تو کوئی تعلق ہو اور نہ ہی ایک دوسرے سے مشروط ہوں۔ معزز عدالت نے اس تجویز پر کہاکہ اوّل تو یہ تجویز کوئی نئی نہیں ہے۔ شیخ محمود احمد مرحوم عرصہ تک اس سکیم کے داعی کی حیثیت سے سرگرم رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ سکیم سودی نظام کے ایک بہت معمولی حصے پر لاگو کی جاسکتی ہے وہ بھی بہت محدود پیمانے پر... لہٰذا اس تجویز کو پورے سودی نظام کا اسلامی متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
(نوٹ اس بارے میں مفتی ریاض صاحب سے فتوٰی لینا ہے)

2:
ممتاز قانو ن دان خالد اسحق نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ قرآن و سنت سودی لین دین کو حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس امر کا فیصلہ کرنا اشد ضروری ہے کہ دراصل سود کی تعریف کیا ہے ؟ مزید یہ کہ اس حکمت کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے جس کی وجہ سے سود کو ناپسندیدہ اور حرام قرار دیا گیا ہے۔ خالد اسحق نے ظلم اور ضرر کے فلسفے کو تفصیل سے بیان کیا اور موقف اختیار کیا کہ سودی لین دین میں مقرر مدت اور رقم میں اضافے کے ساتھ ساتھ ظلم اور زیادتی کا عنصر شامل ہونا بھی ضروری ہے جبکہ موجودہ بنکاری نظام میں یہ عنصر عام طور پر موجود نہیں ہوتا۔ اس لئے سارے بنکاری نظام کو سودی قرار دے کر بیک قلم ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا۔
3:
معاشیاتِ اسلامی کے پروفیسر خورشید احمد صاحب سود کے مقدمے کی سماعت کے دوران لندن سے پاکستان تشریف لائے اور نہایت مختصر نوٹس پر انہوں نے معزز عدالت کے سامنے اپنی معروضات پیش کیں۔ پروفیسر صاحب نے عالمی معاشیات کے جدید ترین تجزیہ جات کا حوالہ دیتے ہوئے تازہ ترین معاشی کتب سے ثابت کیا کہ پوری دنیا میں سودی نظامِ زر کا جہاز آہستہ آہستہ غرقاب ہو رہا ہے اور خود سودی نظام چلانے والے ایک نئے عالمی معاشی نظام کو متعارف کروانے کے بارے میں سنجیدگی سے سو چ رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی رائے یہ تھی کہ موجودہ سودی نظامِ زر آئندہ نصف صدی کے اندر اندر پوری دنیا میں ناکام ہوجائے گا۔ لہٰذا ماہرین ابھی سے ایک نئے معاشی اور مالیاتی سسٹم کا خاکہ وضع کرنے کے کام پر لگ گئے ہیں اور اس سلسلے میں خاصی پیش رفت ہوچکی ہے۔ پروفیسر صاحب نے یہ خوش کن انکشاف کیا کہ عالمی ماہرین جس نئے مالیاتی نظام پر متفق ہو رہے ہیںوہ اسلامی نظامِ زر سے بہت قریبی اور حیرت انگیز مماثلت رکھتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ وہ غیر سودی بنیاد پر کام کرنے والے ایک مکمل اور جدید بنک کا خاکہ تیار کرکے حکومت ِپاکستان کو پہلے ہی پیش کرچکے ہیں۔ لہٰذا یہ مو قف کہ سود کے بغیر کسی بنک کا کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں، بالکل غلط ہے۔ معزز عدالت کے ایک سوال کے جواب میں پروفیسر خورشید احمد نے رائے دی کہ جہاں تک سود کی بنیاد پر حاصل کئے جانے بیرونی قرضہ جات کا سوال ہے تو حکومت ان کی ادائیگی کی پابند ہے۔ جس کے لئے حکومت کو دس سال تک کا یا کوئی بھی مناسب وقت دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پروفیسر صاحب نے رائے ظاہر کی کہ ملک کے اندر بھی سودی نظام کے بیک جنبش قلم خاتمے کے بجائے تدریج کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور ایک سے تین سال کے اندر ملکی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔
مکمل تحریر >>

ادب السؤال

ادب السؤال
اگر ہم سوال کرنا یعنی بات پوچھنا سیکھ جائیں تو ہمیں بآسانی مختصر اورجامع جواب مل سکتے ہیں ۔
سوال کا تجزیہ کر کے اسے منقح کر لیں کہ اس کے کتنے اجزا ہیں جن کا آپ کو جواب در کار ھے 
انکے جوابات پہلے خود تلاش کریں اس طرح ممکن ھے تمام اجزا کے جوابات آپ کو مل جائیں اور آپ کی تجزیہ کاری کی صلاحیت کو جلا ملے 
اگر کسی جز و کا جواب نہ مل پائے تو اسی کے بارے میں سوال کریں اور دوسرے اجزا کے جوابات تائید یا رہنمائ کے لئے پیش کر دیں 
اس طرح خود کو Develop کریں تاکہ دست سوال کم از کم دراز کرنا پڑے ۔
مکمل تحریر >>

جمعہ، 11 ستمبر، 2015

(( حادثة الحرم ))

اللهم اجبر مصاب ذوي الموتى واربط على قلوبهم
وعوضهم بذلك خيري الدنيا والآخرة،
ومما وصلني قصيدة رثى فيها بعض الأفاضل من مات
في هذه الحادثة، فقال جزاه الله خيرا :
*سقطت لترفعهم!!....
___________
نزلوا بمكةَ والقلوبُ مليئةٌ
بالشوقِ تنثرُ في الدُّنا إسعادا
لَبُّوا الإلهَ مخلِّفين وراءهم
من أجله الأموالَ والأولادا
وأووا إلى الْبَيْتِ العتيقِ فصافحتْ
آجالُهم في مكة الميعادا
أرواحهم فاضت بأطهر بقعةٍ
والسُّحبُ أمست تغسل الأجسادا
نالوا الشهادة في رِياضِ عبادةٍ
خطواتهم نحو الهدى تتهادى
طوبى لهم أمسوا ضيوف إلههم
وإليه كان رحيلُهم ميلادا
فتقبّلِ اللَّهُمَّ ضيفًا حلّ في
حرمٍ يفيضُ هدايةً ورشادا
رحمهم الله ورفع درجتهم في عليين
مکمل تحریر >>

" اگر یہی عدم ہے تو وجود کیا ہوگا

دہلی کے ایک ہند و پاک مشاعرے میں عبد الحمید عدم ، پنڈت ہری چند اختر کو دیکھتے ہی ان سے لپٹ گئے اور پوچھنے لگے: " پنڈت جی مجھے پہچانا؟ میں عدم ہوں۔
اختر نے عدم کا موٹا تازہ جسم دیکھتے ہوئے مسکرا کر اپنے مخصوص انداز میں کہا:
" اگر یہی عدم ہے تو وجود کیا ہوگا۔"
مکمل تحریر >>

بینکاری

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ اسلامی بینکاری حلال اور درست ہے اور اس کی اساس (BASE) کیا ہے؟ جواب دے کر مشکور ہوں۔جزاکم اللہ خیرا
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مروجہ اسلامی بینکاری کے جواز وعدم جواز کے حوالے سے اہل علم کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے،بعض جواز کے قائل ہیں تو بعض عدم جواز کےقائل ہیں۔ جواز کا فتوی دینے والوں میں مولانا تقی عثمانی صاحب پیش پیش ہیں تو عدم جواز کا فتوی دینے والوں میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب سب سے مقدم ہیں۔ لیکن فریقین کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری اسلام کے اصول تجارت کے منافی ہے اور اسے اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
اسلام کی طرف منسوب ”بینکاری نظام“ کو ہم خالص غیر اسلامی نظام سمجھتے ہیں، بلکہ بعض حیثیتوں سے اس نظام کو روایتی بینکاری نظام سے زیادہ خطرناک اور ناجائز سمجھتے ہیں ،اس نظام کو غیر اسلامی کہنے کی دو بنیادی وجہیں ہیں:
۱…مروجہ اسلامی بینک مجوزہ اسلامی طریقہ ٴ کار پر کار بند نہیں۔
۲…جو مجوزہ طریقہٴ کار برائے تمویل طے پایا تھا ،وہ طریقہ بھی شرعی اعتبار سے کئی نقائص کا حامل ہے۔ تفصیل ملاحظہ ہو:
پہلی وجہ
مروجہ اسلامی بینکاری کے مجوِّزین نے جو فقہی بنیادیں، مروجہ اسلامی بینکاری کے لئے مسلم بینکاروں کو فراہم کی تھیں اور جن شرائط کے ساتھ فراہم کی گئی تھیں‘ عملی طور پر مروجہ بینکاری نظام فراہم کردہ بنیادوں پر نہیں چل رہا، بلکہ ان اسلامی بنیادوں کو ان کے مطلوبہ معیارات پر بھی استعمال نہیں کیا جارہا، جس کے نتیجہ میں مروجہ اسلامی بینکاری، روایتی بینکاری سے اپنا جداگانہ اسلامی تشخص قائم کرنے میں شروع سے ناکام چلی آرہی ہے اور ایسے نازک طریقوں پر پیش قدمی کررہی ہے کہ جن طریقوں پر چلتے ہوئے اسلامی بینکاری روایتی بینکاری سے قطعاً ممتاز نہیں ہوسکتی ،جس کی وجہ سے آخری نتیجہ مادی طور پر سودی معاملات سے مختلف نہیں ہو رہا۔ اس پر تین ناقابل تردید شہادتیں ملاحظہ ہوں:
پہلی شہادت
مروجہ اسلامی بینکوں کے مجوزین علماء کرام اورمروجہ اسلامی بینکاری سے وابستہ حضرات یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی بینکاری کی حقیقی اور اصلی بنیادیں ”شرکت اورمضاربت “ہیں اورمروجہ ”مرابحہ واجارہ“ محض حیلے ہیں، جنہیں محدود وقت اور عبوری دور کے لئے مشروط طور پر جائز اور قابل عمل قرار دیا گیا تھا، مروجہ ”مرابحہ واجارہ“ بالاتفاق اسلامی بینکاری کی مستقل مثالی بنیادیں ہرگز نہیں ہیں، بلکہ انہیں مستقل بنیادبنانا بھی سودی حیلہ ہونے کی بناء پر ناجائز اور خلاف شرع ہے، مگر اس کے باوجود ہمارے بینکار حضرات ”شرکت ومضاربت“ کی بجائے مروجہ ”اجارہ ومرابحہ“ پر جم کر بیٹھ چکے ہیں اور ان کے خطرناک ہونے اور سودی حیلہ ہونے اور روایتی معیارات کے فریم ورک میں استعمال ہونے‘ نیز مادی طور پر سودی معاملہ ہونے کے باوجود ان حیلوں کو ترک کرنے کے لئے آمادہ نہیں، کیونکہ مروجہ” اجارہ ومرابحہ“ کو روایتی معیارات کے فریم ورک میں استعمال کرنے سے بعینہ روایتی بینکاری کی شکل و صورت اور خاصیت وافادیت کا نتیجہ برآمد ہوتاہے‘ جو ہر بینکار کے لئے قابل قبول ہے‘ اس کے مقابلہ میں ”شرکت ومضاربت“ کا عنصر اسلامی بینکوں میں قلیل کالمعدوم کے درجہ میں ہے اور نفع و نقصان میں شرکت کے اسلامی اصولوں کی وجہ سے شرکت ومضاربت مروجہ بینکوں کے لئے کسی قسم کی دلچسپی کا ذریعہ نہیں ہیں‘ اس لئے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری اپنی فراہم کردہ اصل بنیادوں سے ایسی ہٹی ہوئی ہے کہ اس کا اصل بنیادوں کی طرف بڑھنا” محال“ کے درجہ میں صاف نظر آرہاہے۔ کیونکہ اسلامی بینک کی حقیقی بنیادیں ایک طرف جب کہ مروجہ اسلامی بینکاری کا رُخ مخالف سمت میں ہے۔
دوسری شہادت:
یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے پشتیباں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب جن کے فتویٰ اورشخصیت پر اس سلسلہ میں اعتماد کیا جاتا ہے وہ اس بینکاری نظام سے سخت نالاں اور مایوس ہیں جس کا اظہار انہوں نے مختلف تحریروں اور بیانات میں فرمایا ہے، انہی مایوسیوں کے نتیجہ میں وہ اس نظام سے رفتہ رفتہ دور ہونے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں اور برملا یہ ارشاد بھی فرما چکے ہیں کہ” مروجہ اسلامی بینکاری کا پہیہ اب الٹا چلنے لگا ہے“۔
مولانا کے اس بیان کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں بیان کیا جاسکتا کہ مروجہ اسلامی بینکاری کو شروع سے غیر اسلامی کہنے والے حضرات کے خدشات اور اندیشے تو بالکل درست ہی ہیں‘ اس پر مستزاد یہ کہ جو حضرات ان بینکوں کی بہتری اور اسلام سے ہم آہنگ ہونے کی توقع کررہے تھے اور اسلامی بینکاری سے نیک خواہشات وابستہ کئے ہوئے تھے، وہ بھی اس کی بہتری اور اسلام سے ہم آہنگی کا تصور اب محض ایک ادھورا خواب سمجھنے پر مجبور ہورہے ہیں، اگر مروجہ اسلامی بینک اپنے مجوزہ مطلوبہ شرعی معیار پر کام کر رہے ہوتے تو ہمارے ان بزرگوں کو مایوسیوں کا سامنا ہوتا ،نہ ہمارے بینکار حضرات کو ان کے شکوے سننے پڑتے۔
تیسری شہادت :
ان لا تعداد عوام الناس اور دانشوروں کی ہے جنہوں نے روایتی اور مروجہ اسلامی دونوں بینکوں سے اپنے معاملات رکھے ،مگر وہ کسی بھی طور پر دونوں کے درمیان کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ فرق بھی تلاش بسیار کے باوجود محسوس نہیں کرپائے‘ حالانکہ اس طبقہ میں ایک عام اکاؤنٹ ہولڈر سے لے کر بڑے سے بڑے اقتصادی ماہرین اور نامور بینکار حضرات تک بھی شامل ہیں ‘ جن کے بارے میں بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بینکاری نظام، اس کی باریکیوں اور اکائیوں سے اتنی گہرائی اور گیرائی کا تعلق رکھتے ہیں کہ اس میدان میں ان کی معلومات کا پہلا زینہ ہمارے جدید اسلامی بینکاروں کی آخری منزل کے بعد شروع ہوتاہے، ان ماہرین نے بینکاری نظام، صرف رسائل وجرائد یا اسباق ودروس کے ذریعہ نہیں سیکھا، بلکہ ان کی زندگی کا کارآمد عرصہ ان بینکوں میں گذرا ہے‘ اس کے باوجود انہیں روایتی اور اسلامی بینکوں کے درمیان چند اسلامی اصطلاحوں کے علاوہ کوئی فرق محسوس نہیں ہوسکا، جو اس بات پر شہادت ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری کا عملی طریقہ کار‘ فراہم کردہ اسلامی بنیادوں کی بجائے روایتی بینکوں کے سرمایہ کاری کے طریقوں پر چل رہا ہے‘ اس لئے روایتی اور اسلامی بینکوں میں صرف چند اصطلاحوں کا لفظی فرق ہے ،عملی طریقہ کار اور اہداف واغراض میں دونوں یکساں ہیں۔
دوسری وجہ:
مروجہ اسلامی بینکاری کو خلاف اسلام کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری کے لئے فراہم کردہ بنیادیں بھی بایں طور سقم سے خالی نہیں کہ ان بنیادوں کی تطبیق، تشریح ، تعبیر، استدلال اور طرز استدلال میں مروجہ بینکاری کے مجوزین حضرات نے شرعی اعتبار سے خطرناک قسم کی ٹھوکر یں کھائی ہیں۔مثلاً:
۱…ان حضرات کے استدلال اور طرز استدلال میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ بینکاری کے لئے مفید تجارتی شکلوں کو اسلامائز کرنے کے لئے کئی فقہی اصطلاحوں میں قطع وبرید کی گئی ہے، خلاف ضابطہ ضعیف اور مرجوح اقوال پر اعتمادد وانحصار کیا گیا ہے، ایک ہی معاملہ میں شرعی تقاضے پورے کئے بغیر مذہب غیر کی طرف جانے کی روش کو مباح سمجھا گیا ،جوکہ تمام مذاہب کے ہاں تلفیق محرّم(مختلف اقوال کو ملانے کی حرمت) ہوکر بالاجماع باطل ہے، اسی طرح حسبِ منشاء کسی تجارتی شکل کواسلامی شکل ثابت کرنے کے لئے اور اسلامی لبادہ پہنانے کیلئے صحیح ،صریح اور واضح شرعی احکام سے عمداً صرف نظر کرتے ہوئے ،دور ازکار تاویل در تاویل کا طریقہ کار اختیار فرمایا گیا ۔جسے علماء شریعت نے،شریعت کی توہین،تعطیل اور شرعی احکام کا مذاق قرار دیاہے‘ کیونکہ یہ طرز عمل تاویل فاسد کے زمرے میں آتا ہے۔
۲…بینکوں میں رائج کردہ ”مرابحہ و اجارہ“ محض حیلے ہیں، یہ اسلامی تمویلی طریقے بالاتفاق نہیں‘ اس کے باوجود ان حیلوں کو مستقل نظام بنانا‘ ناجائز ہے۔ ایسے حیلوں کے ذریعے انجام پانے والا معاملہ بھی ناجائز ہی کہلاتا ہے۔جیسے امام محمدﷺ کے ہاں ”بیع عینہ“ کا حیلہ ناجائز ہے‘ اسی طرح مروجہ ”مرابحہ و اجارہ“ کے حیلے اور ان کو ذریعہ تمویل بنانا بھی ناجائز ہے۔اسلامی بینکاری کے مجوزین نے اس طرح کے واضح احکام کو تأویل در تأویل کے ذریعے نظر انداز فرمایا‘ جبکہ دوسری طرف اسلامی بینکوں کے مالی جرمانہ کے جواز کے لئے ابن دینار مالکی رحمہ اللہ کے مرجوح متروک کالمعدوم قول پر اعتمادکیا گیا‘ حالانکہ اس قول پر عمل کرنا شرعا ًو اصولاًجائز بھی نہیں تھا،مگر اسلامی بینکاری کے مجوزین نے ان شرعی اصولی نزاکتوں سے قصداً چشم پوشی فرمائی ہے‘ ورنہ یہ واضح احکام ان سے ہر گز پوشیدہ نہیں تھے۔
۳…مروجہ اسلامی بینکوں میں رائج ”مرابحہ“ او ر”مرابحہ فقہیہ“ میں کوئی مماثلت نہیں،مرابحہ فقہیہ میں ابتدا سے قیمت و ثمن کا متعین ہو کر ذمے میں آنا اور لاگت کا یقینی علم اوروجود ضروری ہے‘ جبکہ بنکوں میں رائج مرابحہ میں بینک ثمن کی ادائیگی پہلے نہیں کرتا یا لاگت کا وجودہی نہیں ہو تا۔ اس لئے مرابحہ بنوکیہ، اصطلاحی مرابحہ تو درکنار، عام کسی بیع کے تحت بھی نہیں آ تا ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے معاملہ کو ”مرابحہ“ کا نام دینا شرعاً خیانت کہلاتا ہے اور ناجائز شمار ہو تا ہے ،مگر مروجہ اسلامی بینکاری میں اسی خیانت کو مرابحہ کے نام سے رواج دیا گیا ہے۔
۴…مروجہ اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ میں بینک کا کاغذی معاہد ہ جس پر پیشگی دستخط ہو چکے ہیں وہی اصل ہے اس کے بعد وکالت کے مختلف مراحل شرعی اعتبار سے وکالت ہرگز نہیں بن سکتے بلکہ لین دین کی ذمہ داری ایک شخص کے گرد گھومنے کی وجہ سے صراحتًا وکالت فاسدہ ہے۔ اس لئے وکالت کا یہ طریقہ کار شرعا محض کاغذوں کی لکیریں اور لفظی ہیراپھیری ہے۔ حقیقت میں ایک ہی فرد بائع اور مشتری بن رہا ہے جو کہ صراحتاً خلاف شرع ہے۔ اس مرابحہ کا شرعی اصطلاحی مرابحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس مرابحہ بنوکیہ خالصتاً سودی حیلہ ہے۔اور ان بینکوں کا نفع ”ربح“ نہیں ”ربوٰ“ ہے۔
۵…مروجہ” اجارہ“ میں عاقدین کا بنیادی مقصد” اجارہ“ کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ خریداری کا معاملہ کرنا مقصود ہو تا ہے۔ قاعدہ و قانون کی رو سے حکم، اصل مقصد (بیع) پر ہی لگے گا نہ کہ الفاظ(اجارہ)پر‘اس سے اس معاملہ کو اگر بیع کہا جائے تو یہ بیع مشروط بالاجارہ ہے جوکہ خلاف شریعت ہے۔
۶…مروجہ اجارہ میں اجرت کی شرح کی تعیین اور تناسب کے لئے روایتی سود کی شرح کو معیار بنانا ہی بنیادی طور پر غلط ہے ۔ کیونکہ یہ سودی معاملات کے ساتھ اولاً مشابہت ،ثانیاً اشتباہ بھی ہے۔ دوسرے یہ کہ روایتی سود کی شرح مختلف اوقات میں بدلتی رہتی ہے یا افراط زر کی وجہ سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ایسا اجارہ جس میں اُجرت کی شرح و تناسب یقینی طور پر پیشگی معلوم نہ ہو‘ وہ ناجائز ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اسلامی بینکار حسب عادت یہاں بھی اصل احکام کو چھوڑ کر خلاف شریعت طریقوں کو شرعی جواز فراہم کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔
۷…اسی طرح مروجہ اجارہ یا کسی بھی عقد میں قسطوں کی ادائیگی یا تاخیر کی صورت میں گاہک سے اجباری صدقہ کر وانااور لینا دونوں شرعاً ،عرفاً ،قانوناً اور عقلاً صدقہ نہیں بلکہ جرمانہ ہے جوکہ بلاشبہ ناجائز ہے اورخالص سودی ہے، بلکہ جس فقہی عبارت سے بعض اہل علم نے اس کا جواز ثابت فرمایا ہے خو د اسی عبارت سے اس جرمانے کا صریح سود ہو نا ثابت ہو تا ہے۔کیونکہ یہ صدقہ بینک کے مقاصد کے لئے بینک کی شرائط اور ترجیحات کی لازمی رعایت کے ساتھ اس کے مجبور کرنے پر گاہک کوبینک کے لئے ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے میں بھی مروجہ اسلامی بینکاری کے مجوزین کو سہواً یا عمداً بہت بڑا مغالطہ لگا ہے کہ انہوں نے بینک کی ایک غیر شرعی ضرورت کو شرعی ثابت فرمانے کے لئے بہت دور کی بات بہت دور سے ثابت فرمانے کی کوشش فرمائی ہے جس کی بالکل گنجائش نہیں تھی ،حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ جہاں جبر ہو وہ صدقہ نہیں۔ جہاں اصطلاحی صدقہ ہو‘ وہاں جبر نہیں ہو سکتا ۔
۸…اسی طرح اجارہ اورمروجہ بینکوں کے دیگر عقود میں ”سیکورٹی ڈپازٹ“کی قانونِ شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اصطلاحی شرکة و مضاربة ،اجارہ ، مرابحہ وغیرہ یہ سب امانات کے قبیل سے ہیں نہ کہ ضمانات کے قبیل سے،جبکہ سیکورٹی (رہن ) صرف ضمانات پہ لی جاسکتی ہے‘ وہ بھی سیکورٹی (رہن)کے احکام کے مطابق۔ جبکہ ہمارے اسلامی بینکوں میں رائج سیکورٹی نہ رہن ہے نہ قرض ہے نہ امانت ہے ۔بلکہ دوسرے کے مال سے فائدہ اُٹھانے کے لئے خلاف شرع حیلہ اور بہانہ اور تلفیق بھی ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے ۔
۹…مروجہ اسلامی بینک” شرکت و مضاربت“ کو اصلی حقیقی بنیادیں تسلیم کرلینے کے باوجود وہ بھی ان اصلی بنیادوں پر سرمایہ کاری بھی نہیں کررہے ۔یہی وجہ ہے کہ شرکت و مضاربت کا تناسب، اجارہ و مرابحہ کے مقابلے میں ایک سروے اور محتاط اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ صرف پندرہ سے بیس فیصد ہے ،بالفرض اگر پچاس فیصد بھی مان لیا جائے تو ”مااجتمع حلال و حرام الا غلب الحرام الحلال“ (حلال و حرام جب بھی جمع ہوئے حرام حلال پر غالب رہا)کے پیش نظر‘نیز احوال واقعی کے مطابق سرمایہ کاری کے حلال طریقے قلیل کالمعدوم ہوں ،اور غیر شرعی طریقوں کا عنصر زیادہ ہو تو ایسا ملغوبہ طریقہٴ تمویل غیر شرعی ہی کہلا تا ہے۔ اس لئے مروجہ اسلامی بینکوں کے طریقہٴ تمویل کو شرعاً جائز کہنے کی کوئی اصولی گنجائش موجود نہیں‘ اس کے باوجود اسے جائز کہا جاتا ہے اور اس کا جواز جتلایا بھی جاتا ہے۔
۱۰…مروجہ مشارکہ و مضاربہ میں خلاف شرع معاہدات طے ہوتے ہیں ،مثلاً ایک اسلامی بینک میں اکاونٹ کھلوانے والے کو جو فارم پُر کرنا پڑتا ہے اس میں بینک کی شرائط ،پالیسی اور بینک سے متعلق وہ سارے قوانین و اعلانات بلا تفصیل ماننے ہوں گے جو بینک کرے گا۔ نیز جو قواعد اور اعلانات ”بینک دو لت آف پاکستان“ جاری کرے‘ اس کی پابندی کا عہد بھی لیا جاتاہے۔حالانکہ اسلامی بینک کے اعلانات اور پالیسیاں بدلتے رہتے ہیں ،یکساں نہیں ہوتے۔ ایسے مجہول اور غیرمعلوم اعلانات کا گاہک کو پیشگی معاہدے کے ذریعہ پابندبنانا شرعاً جائز نہیں اور مجہول و غیر معلوم شرائط اور ذمہ داریوں والا معاملہ شرعاً فاسد کہلاتا ہے نہ کہ صحیح اور جائز۔
۱۱…اسی طرح مسلما ن گاہک کو ”بینک دولت آف پاکستان“ کے اعلانات اور پالیسیوں کا پابند بنانا بھی بالکل ناجائز ہے‘ کیونکہ اسٹیٹ بینک کا غیراسلامی مزاج اور شرعی احکام کی خلاف ورزی کا معاملہ سورج کی طرح واضح ہے۔
فائدہ:
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ” بینک دولت آف پاکستان“ نے اسلامی بینکوں کو اپنی پالیسیاں، اسلام کے مطابق بنانے اور سرمایہ کاری کرنے کے لئے تحریری اور قانونی طور پر کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کے غیراسلامی مزاج سے قطع نظر ہم ان حضرات کی اس بات کو تسلیم کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمارے مروجہ اسلامی بینک اپنی اصلی اور حقیقی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرنے کے لئے عملاً و قانوناً آزاد ہونے کے باوجوداسلامی بینکاری کی اصلی بنیادوں یعنی ”مشارکہ و مضاربہ“ کی بنیاد پر سرمایہ کاری کو قصداً و عمداً وُسعت نہیں دے رہے۔ اگر ”بینک دو لت آف پاکستان“ کی طرف سے رکاوٹ بننے کا عذر ہو تا تو بھی کسی حد تک اسلامی بینکاروں کو مجبورتسلیم کرنے کی گنجائش ہو سکتی تھی، جیسا کہ اب تک بعض علمائے امت اس مجبوری کے پیش نظرخاموش انتظار کرتے رہے ہیں۔
۱۲…مضاربہ میں کھاتہ دار ”رب المال“ اور بینک ”مضارِب“ ہوتا ہے ،مال مضاربت میں بینک کا حصہ شرعاً صرف اور صرف حاصل شدہ نفع کی طے شدہ شرح ہے، اس کے علاوہ بینک کے لئے شرعاًاپنے ذاتی انتظامی اخراجات کی مد میں رقم لینا ، اسی طرح مختلف فیسیں لینایاکسی قسم کا معاوضہ اور الاوٴنس، مال مضاربت سے منہا کرنا ناجائز ہے۔ مگر اسلامی بینک مضاربہ فیس وغیرہ وصول کرتے ہیں۔اس کے باوجود مروجہ بینکوں کو اسلامی کہا جاتا ہے جو کہ خلافِ اسلام کو اسلام کہنے کے مترادف ہے۔
۱۳…شرکت و مضاربت میں منافع کی تقسیم کا مجوزہ طریقہٴ کا ربھی ، اسلامی تقاضے پورے نہیں کرتا ‘بلکہ منافع کی حقیقی شرح کے بجائے روزانہ پیداوار کی بنیاد پر یا” وزن “ دینے کے نام سے فرضی اور تخمینی شرح طے اور ادا کی جاتی ہے جو کہ شرکت و مضاربت کے اساسی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔
۱۴…شرکت متناقصہ شرعی اعتبار سے ممنوع مکاسب اور ناجائز بیوع کے زمرے میں داخل ہے۔اس عقد میں صفقة فی صفقہ (معاملہ در معاملہ)”بیع و شرط“اور ” بیع ثنیا“ جیسی متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں‘اس لئے ناجائز ہے۔مگر اس کے باوجو د ان نصوص شرعیہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شرکتِ متناقصہ کا جواز بیان فرمایا گیا اور اسلامی بینکوں نے اسے ذریعہٴ تمویل کا اہم ستون بنایا ہواہے۔ شرکت متناقصہ کو اسلامی استقرائی طریقہٴ تمویل کہنے کی بجائے خلاف اسلام کہنا علماء کا فرض منصبی تھا ،مگر بعض لوگوں نے اپنے اس فرض سے قصداً غفلت برتی ہے۔
واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ اور فقہ اسلامی کے ماہرین کی امانت دیانت اور تدین و تقویٰ اس بات پر ”گواہ“ ہے کہ فقہ اسلامی کے ذکر کردہ واضح احکام ایسے ہیں کہ ان کو رد کرنے کے لئے کو شش کرنا یا کسی قسم کی تاویل کرنا ، تاویل فاسد کے زمرے میں آتا ہے ،بلکہ یہ نصوص شرعیہ کے ساتھ کھیل اور مذاق ہے۔
۱۵…مروجہ اسلامی بینکوں میں شخص قانونی(Juristic Person)اور اس کی محدود ذمہ داری کا ظالمانہ، غیرمنصفانہ، اور استحصالی تصوربھی کار فرما ہے ،بلکہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جبکہ شخص قانونی اوراس کی محدود ذمہ داری کا تصور، بینک (شخص قانونی)اور اس کے اعضاء و جوارح کو غیر محدود نفع پہنچانے اور نقصان کی بھاری ذمہ داریوں سے بچانے کے لئے ناروا اور خلاف شرع تصور ہے،اس تصور میں شخص قانونی کے اعضاء و جوارح کے لئے بہترین فائدہ اور دائنین کا بدترین استحصال پایا جاتا ہے۔کیونکہ جب تک منافع کی ریل پیل ہو، بے جان” شخص قانونی“ حقیقی انسان سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور جب نقصان اُٹھانے کی نوبت آجائے تو شخص قانونی محدود ذمہ دار ی کا کفن پہن کر موت کے کنویں میں اُترجاتاہے۔ اس تصور کے خلافِ اسلام ہونے کے علاوہ اس میں انسانیت کی تو ہین بھی ہے۔ کیونکہ یہاں حقیقی انسان کو فرضی انسان کا نوکر چاکر بنانالازم آتا ہے۔ اس کے باوجود اس غیر اسلامی تصور کو اسلامی ثابت فرمانے کے لئے بے پناہ” علمی بچتیں“ صرف فرمائی گئی ہیں اور اس رائے پر ایسے استدلالات کیے گئے ہیں جن کی اصولاً گنجائش ہر گز نہیں تھی۔
۱۶…مروجہ اسلامی بینکاری کے مجوزین اور وابستہ گان خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ مروجہ اسلامی بینکوں کے معاملات خالص غیر سودی حلال اور جائز نہیں ہیں‘ بلکہ بعض معاملات جائز اوربعض ناجائز بھی ہیں۔ ایسے معاملات کم از کم مشتبہ تو ضرور ہوتے ہیں۔ایسے معاملات پر اصول شریعت کے مطابق بالاتفاق جواز اور حلت کے بجائے ،عدم جواز اور عدم حلت کا حکم لگایا جاتا ہے ،یعنی اگر بالفرض مروجہ اسلامی بینکوں کے بعض معاملات کو جائز تسلیم کر لیا جائے تو بھی مطلق جواز بیان کرنے کی گنجائش نہیں نکل سکتی ،چنانچہ ایسے معاملات کے بارے میں مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا ایک فتویٰ بطور نمونہ ملاحظہ ہو جو انہوں نے” غیر سودی کاونٹروں“کے حکم کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے۔ ”اس تجزیے سے یہ بات واضح ہوئی کہ فی الحال ان ”غیر سُودی کاونٹروں“کا کاروبار جائز اور ناجائز معاملات سے مخلوط ہے ،اور اس کا کچھ حصہ مشتبہ ہے۔ لہٰذا جب تک ان خامیوں کی اصلاح نہ ہو، اس سے حاصل ہونے والے منافع کو کلی طور پر حلال نہیں کہا جاسکتا ،اور مسلمانوں کو ایسے کا روبار میں حصہ لینا درست نہیں۔“
(فقہی مقالات :۲/۲۶۴ ط: میمن پبلیشرز)
اس فتویٰ کی رو سے یہ معلوم ہوا کہ ایسے معاملات کو جواز کے محدود عنصر پر مشتمل ہونے کے باوجود جائز کہنے یا جائز بتانے اور معمول بنانے کی گنجائش شرعاً نہیں ہوا کرتی ،اور مسلمانوں کے لئے ایسے معاملات میں حصہ لینا جائز نہیں ہوتا‘ مگر مروجہ اسلامی بینکوں کے معاملات کو اس کے باوجود جائز کہا اور جتلایا جاتا ہے۔
حاصل یہ کہ مروجہ اسلامی بینکاری کے جو تخیلاتی خاکے”اسلامی بینکینگ “ کے مجوزین علماء کرام نے وضع کئے ہیں وہ خاکے بھی خلاف شرع ہیں ان خاکوں میں اسلامی رنگ کی بجائے روایتی بینکاری کا رنگ ہی نمایاں ہے ،اوران خاکوں میں کئی شرعی نقائص بھی پائے جاتے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے ان بینکوں کا عملی طریقہٴ کار ان فرضی تخیلاتی خاکوں کے مطابق بھی نہیں ہے ،اس لئے ان مروجہ اسلامی بینکوں کو اسلامی بینک کہنا بھی جائز نہیں، کیونکہ زیادہ سے زیادہ مروجہ اجارہ و مرابحہ کے حیلوں کی وجہ سے ”حیلہ بینک“ کہہ سکتے ہیں،اور حیلہ الگ چیز ہے اور حقیقت اسلام الگ چیز ہے۔
چنانچہ انہی وجوہات کی بناء پر مروجہ اسلامی بینکاری کی بابت ملک کے جمہور علمائے کرام اور مفتیان کرام کا متفقہ فتویٰ یہ ہے:
”گذشتہ چند سالوں سے بعض اسلامی شرعی اصطلاحات کے نام سے رائج ہونے والی بینکاری کے معاملات کا قرآن و سنت کی روشنی میں ایک عرصے سے جائزہ لیا جارہا تھا اور ان بینکوں کے کاغذات ،فارم اور اصولوں پر غور و خوص کے ساتھ ساتھ اکابر فقہاء کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا جاتا رہا ۔بالاخر اس سلسلے میں حتمی فیصلے کے لئے چاروں صوبوں کے علمائے کرام کا ایک اجلاس موٴرخہ ۲۸اگست ۲۰۰۸ء بمطابق ۲۵ شعبان المعظم ۱۴۲۹ ھ بروز جمعرات شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے زیر صدارت جامعہ فاروقیہ کراچی میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں شریک مفتیانِ عظام نے متفقہ طورپر فتویٰ دیا کہ اسلام کی طرف منسوب مروجہ بینکاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے ،لہٰذا ان بینکوں کے ساتھ اسلامی یا شرعی سمجھ کر جو معاملات کئے جاتے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہیں ۔ ․․․․اور ان کا حکم دیگر سودی بینکوں کی طرح ہے ۔“
بایں معنیٰ اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو چکی کہ مروجہ اسلامی بینکاری درحقیقت غیر اسلامی بینکاری ہے اور لوگ اسے اسلامی بینکاری سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ معاملات کررہے ہیں ،اس لئے علماء امت مروجہ اسلامی بینکاری کو روایتی بینکاری کے مقابلے میں مسلمانوں کے حق میں زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ناجائز اور خلاف شرع معاملے کو ناجائز سمجھتے ہوئے کرنا کم درجہ کا جرم ہے اور اسے جائز سمجھتے ہوئے کرنا بڑے درجے کا جرم ہے ،روایتی بینکار، سودی معاملات کرتے ہیں مگر سودی معاملات سمجھتے ہوئے، جبکہ مروجہ سلامی بینکار انہی جیسے سودی معاملات اور خلاف شرع معاملات کو غیر سودی اور شرعی سمجھتے ہوئے کررہے ہوتے ہیں،اور یہ پہلے کی بنسبت ایمان اور آخرت کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہے ،کیونکہ روایتی بینکار مسلمان خود کو شرعی مجرم اور گنہگار سمجھتے ہوئے اپنے ناجائز اور سودی معاملات کی معافی کے لئے تو بہ کے دروازے تک پہنچ سکتا ہے، اسے تو بہ کی توفیق مل سکتی ہے‘ جبکہ مروجہ اسلامی بینکاری میں اپنے خلاف شرع معاملات پر نہ تو بہ کا داعیہ پیدا ہو گا ،اور نہ ہی توبہ کی توفیق میسر آسکتی ہے ،کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا ،اللہ تعالیٰ تو بہ اور مغفرت سے اسی کو نوازتے ہیں جو محتاج بن کر اللہ کی طرف متوجہ ہو ،
اس لئے مسلمانوں پر واجب اور لازم ہے کہ دیگر حرام اور خلاف شرع امور کی طرح اسلام کی طرف منسوب مروجہ اسلامی بینکاری سے بچنے کا بھی بھر پور اہتمام کریں ۔اور اپنے سابقہ معاملات پر توبہ و استغفار کریں۔ بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی

محدث فتوی
مکمل تحریر >>

بھینس کے آگے بین بجانا

بھینس کے آگے بین بجانا:
بعض علمائے دین آلات موسیقی اور ڈانس کو جائز ثابت کرنے کے لیے "بین" بجانے لگ جاتے ہیں۔ اور جب شرع محمدی کا کوئی سچا پیروکار ان کی اس "بین بجائی" پر کان نہیں دھرتا تو وہ مایوسی اور غصے میں سب کو "بھینس"کا خطاب دے ڈالتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

ایلان کی موت کے بعد بھی ظلم نہیں رکے گا!

عابد محمود عزام
(روزنامہ ایکسپریس: جمعہ 11 ستمبر 2015)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تین سالہ ایلان کی دل دہلا دینے والی موت نے ہر دل کو دکھی اور ہر آنکھ کو اشکبارکردیا ہے۔ ترکی کے ساحلی علاقے پر پڑے بے جان بچے نے محفوظ زندگی کی تلاش میں سرگرداں بے بس مہاجروں کو درپیش مصائب کی تلخ حقیقت کو ساری دنیا پرعیاں کردیا اورکروڑوں انسانوں کے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایک تصویر نہیں، بلکہ انسانی المیے کا ایک ننھا شکار تھا، جومسلم ممالک کو بدامنی کی جہنم بنانے والے ممالک کی پشتی بان عالمی برادری کی ہٹ دھرمی، اناپرستی اور انسان دشمنی کا منہ بولتا ثبوت اور اس کے بھیانک چہرے پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ ایلان کی دل سوز موت کے بعد عالمی حکمران بھی اظہار افسوس کر رہے ہیں اور یورپین ممالک میں شامی مہاجرین کے لیے بے تحاشہ عطیات جمع کیے جارہے ہیں، ان کے تمام وقتی جذبات قابل قدر ہیں، لیکن اس حقیقت سے انکارکی گنجائش نہیں ہے کہ ایلان کی موت کی ذمے دار عالمی برادری ہے۔
معصوم ایلان کی موت اسی خانہ جنگی کا نتیجہ ہے، جو عالمی برادری کے مفادات کی وجہ سے چھڑی ہوئی ہے۔ امریکا و دیگر عالمی طاقتوں نے ”لڑاو ¿ اور حکومت کرو“ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پہلے شام میں بغاوت کو ابھارا اور پھر غارت گری کرتے فریقین کو ہرطرح کا تعاون فراہم کیا، جس سے شام کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور موت زندگی سے ارزاں اور بدامنی، امن پر غالب ہوگئی۔ ان حالات میں ایلان کو اپنے والدین کے ساتھ زندگی کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنا پڑا اور سمندر کے ساحل پر موت کی آغوش میں پناہ لے لی اور ساحل سمندر پر پڑی ایلان کی لاش چیخ چیخ کر عالمی برادری کو اپنی موت کا ذمے دار قرار دیتی رہی ہے۔ آج عالمی برادری ایلان کی موت پر اظہارافسوس اور شامی مہاجروں کے لیے امداد کا اعلان کررہی ہے، لیکن اس اظہارافسوس کو مگرمچھ کے آنسو کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر معاملہ صرف ایک ایلان کا ہوتا تو شاید ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جاتا، لیکن معاملہ مسلم ممالک کے بہت سے”ایلان“ کا ہے۔ یہاں تو مذہب اسلام کے باسیوں کا ہر دوسرا ملک عالمی برادری کی سفاکیت کی ایک طویل داستان سنا رہا ہے، جہاں روز کئی ایلان عالمی برادری کی شہہ پانے والے عالمی دہشتگردوں کی درندگی کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ عالمی برادری نے ہمیشہ اپنے مفاد کی خاطرمسلم ممالک کو آگ کی بھٹی میں جھونکے رکھا ہے۔
اس کی بے جا مداخلت اور اپنی پسندکے حکمرانوں کو مسند اقتدار پر فائزکرنے کی تگ ودو کے باعث تمام مسلم ممالک میں قتل و قتال کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے، جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ صرف شام ہی نہیں، بلکہ مسلم ممالک میں روزانہ سیکڑوں معصوم بچے انتشار، بدامنی ، دہشت گردی ، جنگوں اور عالمی برادری کی سفاکیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ شام، عراق، افغانستان، فلسطین، کشمیر، وزیرستان اور دیگر کتنی جگہوں پر امریکا سمیت عالمی برادری کی وحشت کا راج ہے۔ جس مسلم ملک کی طرف بھی نگاہ اٹھا کر دیکھا جائے تو ایلان کا لاشہ دکھائی دیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مرنے والے کا ملک بدل جاتا ہے، جب کہ مذہب وہی اسلام ہی ہوتا ہے۔ افغانستان میں کتنے ہی ”ایلان“ امریکی درندگی کا نشانہ بن گئے ہیں۔ وزیرستان میں امریکی ڈرونز نے کتنے ”ایلان“ مارے دیے۔ فلسطین میں ظالم صیہونیوں نے کتنے ”ایلان“ کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ کشمیر میں بھارتی درندوں نے کتنے ”ایلان“ سے زندگی چھین لی ہے، برما میں کتنے ہی ”ایلان“ سفاک بودھوں کی سفاکیت کا نشانہ بنے، لیکن عالمی برادری گنگ۔ بلکہ خود ظالموں کی پشتی بان بن کر ظلم میں برابر کی شریک رہی۔
آج ایلان کی موت پر عالمی برادری منافقت کے چند آنسو بہا کر خود کو بے قصور ثابت کرنا چاہتی ہے۔ نہیں نہیں، عالمی برادری بے قصور نہیں ہے۔امریکا اور دیگر ممالک کسی بھی مسلم ملک میں جب اور جہاں چاہیں حملہ کرنے کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ کہیں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ڈرونز کے ذریعے حملے کیے جاتے ہیں۔ کہیں طیاروں سے بمباری کرکے اسکولوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور سیکڑوں بچوں کو بموں کے بارود میں جلا کر بھسم کردیا جاتا ہے۔ کہیں عالمی قوتوں کے پیدا کردہ دہشت گرد خود کش حملوں سے بچوں کی لاشوں کے چیتھڑے اڑا دیتے ہیں اور کہیں اسکولوں میں گھس کر بچوں کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔ متعدد مغربی ممالک کی سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے مسلم ممالک جہنم بنے ہوئے ہیں۔ عالمی برادری نے ہی دہشت گردی کو پروان چڑھا کر مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہے۔
امریکا اور اس کے حواری مغربی ممالک دنیا بھر میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ نسلی، مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے کر اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ ان ممالک نے اپنے ملکوں کو جنت بنا رکھا ہے، جب کہ مسلم ممالک کو جہنم بنا دیا ہے اور آج ان ممالک کی وجہ سے عالم اسلام مشکلات سے دوچارہے۔ امت مسلمہ کے افرادکی جان ساحل پر پڑے ریت کے ذروں سے بھی ارزاں معلوم ہوتی ہے۔ کہیں منظم سازش کے ذریعے فرقوں کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑوایا جاتا ہے اورکہیں براہ راست مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ ہر طرح سے مسلم ممالک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
آج ایلان کی موت پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والی عالمی برادری کی ہی پالیسیوں کی بدولت پاکستان میں ایک طویل عرصے سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، اس خونی کھیل میں خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور ڈرون حملوں سے اب تک پچاس ہزار سے زاید پاکستانی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ افغانستان میں بدامنی بھی انھیں کی پالیسیوں کی دین ہے۔ شاید ہی اس ملک کا کوئی گھر ایسا ہو جس سے خانہ جنگی نے جانیں نہ لی ہوں۔ برطانیہ، روس اور امریکا کی جارحیت میں لاکھوں افغانوں کو اپنی جانوں کے نذرانے دینا پڑے۔ خانہ جنگی کی دہکتی بھٹی میں جلتا مسلم ملک عراق بھی امریکا کے تاریخی ظلم اور اس کی سازشوں کی بدولت خونریزی کی دلدل میں بری طرح سے دھنسا ہوا ہے۔ امریکا نے یہاں خونریزی کی آگ جلائی اور اب قتل و قتال تازہ انگڑائی لے کر ایک بار پھر پورے ملک کو بدامنی کی چادر میں لپیٹ رہا ہے۔ امریکا کی پیدا کردہ ”آئی ایس آئی ایس“ کے کارکنان مار کاٹ کرتے ہوئے عراق میں ظلم کے تمام ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔
شام میں بھی انھیں کی پالیسیوں کی وجہ سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور آج شام تباہ وبرباد ہو چکا ہے اور دیگر کئی مسلم ممالک امریکا اور اس کے حواریوں کی سازشوں اور عسکری ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ اس وقت دنیا میں موجود اسلامی ممالک کو اپنی انگلی کے پوروں پر ایک ایک کرکے گنتے جائیے اور دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نظر دوڑایے، شاید ہی کوئی ایسا اسلامی ملک نظر آئے جو بدامنی و خونریزی سے پاک ہو، یہ سب عالمی برادری کی ظالمانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ صرف ایلان کی موت سے عالمی ضمیر جاگ جائے گا تو وہ انسان غلطی پر ہے۔ عالمی ضمیر مردہ تھا اور مردہ ہی رہے گا، کیونکہ ہزاروں ”ایلان“ سے زندگی چھیننے والے ممالک صرف ایک ایلان کی موت سے اپنی پالیسی ہرگز تبدیل نہیں کرنے والے، بلکہ وہ اسی طرح مسلم ممالک کو بدامنی کی بھٹی میں جھونکتے رہیں گے۔
مکمل تحریر >>

جمعرات، 10 ستمبر، 2015

مرثیہ ملا محمد عمر مجاہد نور اللہ مرقد

اک عرب شاعر کا ملا عمر حفظہ اللہ  کی شہادت پر مرثیہ
قالها أحدهم في رثاء الملا عمر رحمه الله ..
أبصِرْ! فقَدْنا الصارِمَ المصْقولا !
أنصِتْ! ستسْمعُ للجبالِ عَويلا !
أمسَتْ رُبى الأفغان تُخفي دمعهَا
حزَنًا، وأمسى جيشُها معلولا !
اليومَ فارسُها ترجّلَ تاركًا
سيفَ العِدى مِن خَلفِهِ مَفْلولا
اليومَ فارسُها استراحَ مِن السُّرى
وسَمَا لِيَحْمَدَ في السماء وصولا
اليومَ فارسُها أتَمَّ كتابَهُ
وأقام في التاريخِ يرسمُ جِيلا
رحلَ الذي للهِ أرْخَصَ نفْسَهُ
ونَضَا بحزمٍ سيفَهُ المسلولا
ورمى بِقِلَّةِ عَدِّهِ
وبِقوةٍ مِن صبْرِهِ
ومن اليقين مَهُولا !
رحلَ الذي يرِدُ النزالَ تَلَهُّفًا
عَطِشًا، كما يَرِدُ الغليلُ النِّيلا
رحلَ الذي عشِقَ الحروبَ، وجاءها
جَذِلاً ، كما يأتي الخليلُ خليلا
رحلَ الذي هَوِيَ الطِّعانَ، كأنّهُ
لمّا هواهُ يَخَالُهُ تقبيلا !
يا هادمَ الأوثانِ ، مِن "بوذا" إلى
"واشنطنٍ" أُمِّ العبيدِ الأولى !
ما زال رُمْحُكَ ناشِبًا في صدرها
وجوادُكَ المَشْكُولُ ضجّ صهيلا !
خلَّفْتَ يا عُمَرَ البطولةِ جذوةً
مِن عزةٍ تبقى عليك دليلا
خلَّفْتَ يا عُمَرَ الإباءِ عصابةً
يشْفون بالحرب العَوَانِ غليلا
طابَتْ منازلُكَ التي أُنْزِلْتَها
فاهنَأْ بها بعد العناء نزيلا !
مکمل تحریر >>

اتوار، 6 ستمبر، 2015

ایلان کردی ۔۔۔۔۔۔۔ عرب شعراء کو بھی جگا گیا

شيخ حامد العلي کا مرثيہ


نبكيك بالشعر أم نبكي مفاخرنا
حتى نبذنا العلا والمجدوالقيَما
مذصار مَن همّهُ الأموال يحكمنا
في فرج عاهرة يستنزف الهمما 
----------------------------
ترجمہ :ميرے بچے

ميرے يہ شعر تيرا رونا ہے يا اپني فخر سے لبريز تاريخ کا مرثيہ؟
ہماري عزت، ہماري قدريں ہماري شان سب کچھ (تيرے ساتھ) دريابرد ہوا
(ميرے بچے يہ شرم کي بات تجھے کيسے بتاؤں)
جب سے دولت کے پجاري ہمارے حکمران ہوئے
ان کي تمام تر ہمت اور بہادري کي حد بس طوائف کي شرمگاہ ہي ہے


امام کعبہ سعود الشُرَيم حفظہ اللہ کا مرثيہ
(ولجتَ البحر في الليل البهيمِ
لتهرب مِــــــن زبانية الرجيمِ

وأنت اليـــوم مَيْت عند شطٍ
لتفضحَ كل خــــــــوان لئيمِ )
ترجمہ:ميرے بچے
ايسي اندھيري رات، جو تجھ ننھي جان کو سمندر ميں کود جانا پڑا
اس خبيث راندہ درگاہ کے جلادوں سے بھاگ کر!
اور اب تو ساحل پر مردہ پڑا
امت کے ہر خائن کمينے کو برہنہ کر رہا ہے!


    مکمل تحریر >>

    ہفتہ، 5 ستمبر، 2015

    پولی کلینک میں ہم پر کیا بیتی

    مارچ 2015 بہن کے ہرنیا کے آپریشن کے سلسلے میں پولی کلینک اسلام آباد سے واسطہ پڑا ،وہاں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بہت اختصار کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں
    ہم جب پہلی دفعہ ہسپتال گئے تو  ہم اس خوش فہمی میں تھے کہ شائید مختلف ٹیسٹوں کے بعد ہمیں اک دو ہفتے کے اندر آپریشن کی ڈیٹ مل جائے گی،کیونکہ ہسپتال اپنے وزیر اعظم صاحب کے پڑوس میں ہی واقعہ ہے ،شائید ہسپتال کی کارگردگی  یورپئین ممالک  کے برابر نہیں تو کم بھی نہیں ہوگی،لیکن ہسپتال جاکر اندازہ ہوا کہ ایسا تو کسی پسماندہ سے پسماندہ ملک کے ہسپتالوں میں بھی نہ ہوتا ہوگا جو یہاں ہو رہا ہے
    ڈاکٹر صاحب نے معائنہ فرمایا اور پھر مختلف ٹیسٹوں کی اک فہرست ہمیں تھمائی گئی ، خدا خدا کر کے وہ ٹیسٹ مکمل ہوئے  تو حکم مسیحا ہوا کہ اب آپ نے چیک اپ کیلئے ٹیسٹوں کے ہمراہ اگلے ہفتے حاضر ہونا ہے...اگلے ہفتے ہم بڑی بے تابی سے ڈاکٹر صاحب کے دربار میں حاضر ہوئے اور امید یہ لگائے بیٹھے تھے کہ اب بس آپریشن کی منزل دور نہیں لیکن یہ کیا  ڈاکٹر نے تو یہ کہہ کر ہماری جان ہی نکال دی  کہ 27 اگست تک تو کوئی ڈیٹ خالی نہیں آپ اگست میں تشریف لائیں( گزشتہ دنوں کشمیر سے آئی کسی خاتوں کو ڈاکٹر نے جب آپریشن کی ڈیٹ اک سال بعد کی دی تو وہ سنکر بے ہوش ہوگئی تھی)
    اس وقت ہم پر کیا گزری بس یہی سمجھیں کہ جیسے کسی بھوکے کوجب وہ بھوک سے بے حال ہوکہا جائے کہ روٹی تو کل ملے گی ، یا کسی یخ بستہ رات میں سردی میں ٹھٹرتے شخص کوکہا جائے کہ اب تو بستر نہیں آپ  کل دن کوتشریف لائیں
     لٹکے منہ ،تھکے ہارے جسم ،ٹوٹے دل کے ساتھ گھر کی جانب چل دیے، سوچا یہ وقت بھی گزر جائے گا،درمیان میں کئی دفعہ ہمشیرہ کے مرض نے شدت بھی اختیار کی،لیکن ہم کچھ کرنے سے بے بس تھے
    جب پرائیویٹ ہسپتالوں سے آپریشن کا خرچ معلوم کیا تو جو انہوں نے بتایا وہ کسی بھی غریب انسان کے بس سے باہر کی بات تھی، 27 اگست کی آس لگائے  بیٹھ گئے
    اللہ اللہ کر کے 27 اگست بھی آ گئی   ،اُدھر سورج نکل رہا تھا اِدھر ہم ہسپتال جا پہنچے
    آج پھر ہم اُسی ڈاکٹر کے دروازے پر کھڑے تھے ،تقریبا 3 گھنٹے کے انتظار کے بعد شرف باریابی ہوا ، ہاتھ میں نمبر کی پرچی تھامے کھڑے لوگوں کو کوئی پوچھتا نہ تھا ، جب کے عملے کا  کوئی آدمی نمبروں سے مستثنی لوگوں کو  دھڑا دھڑ اندر لیکر جا رہا تھا ، جب بھی کوئی آدمی صدائے احتجاج بلند کرتا تو دربان کہتا جناب آپریشن والوں کی فہرست تیار ہورہی ہیں ،نہ جانے 8 آدمیوں کے آپریشن کی فہرست تیار کرنے میں 3 گھنٹےکیسے لگ گئے
    3،4 گھنٹوں کی ذلت کے بعد ڈاکٹر صاحب نے یہ کہکر ہمیں چلتا کر دیا کہ ابھی تو بیڈ خالی نہیں آپ اگلی جمعرات کو تشریف لائیں
    (جبکہ حقیقت یہ تھی کہ نمبر والے مریضوں کو ٹرخا کر ڈاکٹر صاحب نے اپنے تعلق داروں اور سفارشیوں کو ان کی جگہ  ایڈمٹ کر لیا)
    ہماری یہ حالت تھی کہ کاٹوں تو لہو نہیں
    لیکن زخمی دل کو تسلی دی چلو جہاں اتنا انتظار کیا وہاں اک ہفتہ اور صحیح  جب اس گزشتہ جمعرات کو گئے تو ڈاکٹر صاحب نے ارشاد فرمایہ یہ سب ٹیسٹ تو پرانے ہو چکے ہیں آپکو یہ سب ٹیسٹ ازسر نو کرانے ہونگے،سب ٹیسٹ دوبارہ کرائے ،مریضہ کو ایڈمٹ کرایا اگلے دن جمعہ آپریشن تھا صبح صبح  گذشتہ روز کرائے گئے ٹیسٹوں کی رپورٹ لینی تھی ،جہاں سے وصول کرنی تھی ،،، وہ عملہ  تقریبا 9 کے قریب قریب آیا ( نہ جانے اسکو کوئی پوچھنے والا نہ تھا)
    جب یہ نوید سنائی گئی کہ آپکی ہمشیرہ کو آپریشن تھیٹڑ لے جایا گیا تو کچھ سکھ کا سانس لیا( نوید کا لفظ اس لیئے لکھا کیونکہ انتہائی ذلالت  کے بعد رسائی ملنے پر جو خوشی ملی اس نے ہمشیرہ کی تکلیف بھلا دی)
    ہم آپریشن تھیٹر کے باہر پوزیشنیں سنبھال کے کھڑے ہو گئے کہ ابھی آپریشن مکمل ہوگا تو ہم اسٹریچر پر ہمشیرہ کو وارڈ روم لیکر جائینگے
    انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی گئیں ، 5 گھنٹے بعد  کہا گیا اب ڈاکٹر ہڑتال پر جارہے ہیں ، آپکی مریضہ کو ہم واپس وارڈ میں بھیج رہے ہیں
    شائید ہمیں زلیل کرنے کو مزید کوئی کسر باقی تھی  1:15 بجے سے لیکر رات 7 بجے تک وہ کسر بھی نکالنے کے بعد کہا گیا کہ اب آپ اگلی جمعرات کو زلیل ہونے کو اک بار پھر حاضر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب اگلئ جمعرات کو کیا ہوتا ھے خدا جانے
    -----------------------------------------------------------------
    ایسا سلوک صرف ہم سے نہیں ہوا۔راولپنڈی کی تمام بڑی ہسپتالوں میں ہر روز کسی نہ کسی سے یہی سلوک کیا جاتا ھے ،ہزاروں لوگ دھکے کھا رہے ہیں لیکن کو پرسان حال نھیں
    سینکڑوں افراد پر مشتمل عملہ اپنے فرائض میں انتہا درجے کی خیانت کر کے اپنے بچوں کو حرام کھلا رہا ہے ، پورے ہسپتال میں صفائی کا کوئی انتظام نھیں ، لال بیگیں ،چڑیں اور بھی عجیب غریب حشرات الارض دندناتے پھرتے ہیں ،صفائی کا فنڈ وہاں کے مگر مچھوں کے پیٹ میں جاتا ہے
    دور دراز سے آئے شفا کی تلاش میں آئے مریضوں کو شفا کیا ملتی بلکہ وہ مزید بیمار ہو کر جاتے
    کاش میرے پاس کوئی ایسا آلہ ہوتا جس سے میں آپکو ہسپتال کے کچن سے آنے والئ بدبو سنگھا سکتا بے ہوش نہیں تو ابکائیاں ضرور آتیں آپکو
    عالمي ادارہ صحت کے مطابق ايک ڈاکٹر کا 20 سے 25 مريضوں کا معائنہ کرنا عالمي معيار کے مطابق ہے ليکن ہمارے ہاں ڈاکٹر اک  دن ميں 100 يا اس سے بھي زائد مريضوں کو نمٹا دیتا ہے
    ڈاکٹر آئے روز اس لئے ہڑتالیں کر رہے ہیں کہ ان کا 45 ہزار ماہانہ ہیلتھ الاؤنس گورنمنٹ نے ختم کر دیا(سوچنے کی بات ہے کہ جب ان ڈاکٹروں کا علاج فری ہیں تو 45 ہزار ہیلتھ الاؤنس کس بات کا)
    وہاں کی نرسوں کی عزتوں سے کھیلنے والے  سوروں کی خبریں کئی دفعہ میڈیا پر آچکی ہیں لیکن کوئی نہیں جو قوم کی ان بیٹیوں کیلئے آواز بلند کرے
    یہ حال ہےوزیر اعظم صاحب کی  آنکھو ں کے نیچے واقع ہسپتال کا۔۔۔ تو بلوچستان سرحد سندھ کے دور دراز کے علاقوں کی ہسپتالوں کا کیا حال ہوگا
    کوئی ہے جو ان ہسپتالوں کے اصلاح احوال کی کوشش کرے ،کوئی تو ہم جو تڑپتی بلکتی دھکے کھاتی عوام پر رحم کھائے 
    مکمل تحریر >>