Pages

اتوار، 10 مئی، 2015

دنیا میں تبدیلی لانے والے حیرت انگیز بچے


مکمل تحریر >>

غیر ممالک کے ایسے مقامات جو زندگی میں اک بار ضرور دیکھنے چاہیئں

مکمل تحریر >>

مفتی ہوں کوئی دہشت گرد تو نہیں



سپریم کورٹ نے مفتی عبدالقیوم کو بے قصور قرار دیتے ہوئے 11 سال بعد باعزت بری کر دیا

بھارتی ریاست گجرات کے اکشردھام مندر پر ہونے والے شدت پسند حملے کے الزام میں 11 سال تک جیل کی سزا کاٹنے کے بعد مفتی عبدالقیوم کو گذشتہ سال بری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ نے انھیں بے قصور قرار دیتے ہوئے باعزت بری کیا۔
مفتی عبدالقیوم بتاتے ہیں کہ ان 11 سالوں میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی اہلیہ نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔
گذشتہ دنوں دہلی میں مفتی قيوم کی کتاب ’11 سال سلاخوں کے پیچھے‘ کی تقریبِ رونمائی ہوئی اور اس موقعے پر بی بی سی کے اقبال احمد نے مفتی قيوم سے بات کی۔
مفتی عبدالقیوم نے کہا: ’اگر میری اس کتاب کے بعد کوئی ایک آدمی بھی ظلم کا شکار ہونے سے بچ جائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے سب کچھ مل گیا۔‘
’مجھے اللہ پر ہمیشہ ہی یقین اور ایمان رہا۔ سپریم کورٹ پر بھی مجھے اعتماد تھا۔ اس لیے میں نے پہلے سے ہی کئی چیزیں نوٹ کرکے رکھی تھیں۔‘


گذشتہ دنوں دہلی میں اس کتاب کا رسم اجرا ہوا جہاں سرکردہ مسلم شخصیات موجود تھیں

انھوں کہا کہ انھیں کئی بار ایسا بھی محسوس ہوا کہ انھیں مار دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار انھیں ’انکاؤنٹر‘ کے لیے بھی لے جایا گیا تھا۔
انھوں نے اپنے مقدمے کے بارے میں کہا: ’استغاثہ کے پاس اقتدار ہے طاقت ہے لیکن ان کا سارا کیس الجھا ہوا ہے۔۔۔ انھوں نے بار بار لکھا ہے۔۔۔اس کے کچھ دنوں بعد۔۔۔اس کے کچھ دنوں بعد۔۔۔کہیں کسی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن میں نے ساری باتیں تاریخ کے ساتھ لکھی ہیں۔‘
’میں نے ساری چیزیں تاریخوں کے حساب سے ذہن نشین رکھیں کہ اگر رہا‏ئی ملی تو میں حقیقت حال لکھوں گا اور اس تحریر کے پس پشت میرا ایک ہی مقصد تھا کہ آئندہ کسی کے ساتھ ایسا ظلم یا ناانصافی نہ ہو۔‘
پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’میرے ساتھ جانوروں سا سلوک کیا گیا اور ذہنی ٹارچر کیا گیا۔ میری بیوی نے خودکشی کی کوشش کی، میرے ذہن میں بھی کئی بار خودکشی کا خیال آيا۔‘


اکشردھام مندر کے بہت سے ملزمین کو سپریم کورٹ نے باعزت بری کیا جن میں یہ لوگ بھی شامل ہیں

ناانصافی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’سوراشٹر کا ایک غریب ہندو قیدی تھا، جسے ساڑھے چھ سو گرام اناج چوری کرنے کے جرم میں 10 سال کی سزا دی گئی تھی اور اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے انصاف کا مطالبہ کرے اور بری ہو جائے۔‘
ان کے مطابق گجرات میں ایک قبائلی کو صرف 50 روپے کی لوٹ کے لیے 38 سال تک جیل میں رہنا پڑا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ناانصافیوں کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی ہیں۔
’میرے معاملے میں تو سپریم کورٹ نے داخلہ سکریٹری اور حکومت کو پھٹکار بھی لگائی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ قیامت تک ایک مثال رہے گی۔‘
انھوں نے کہا: ’ہم نے پہلے بھی کوئی غلط کام نہیں کیا تھا، ہم تو گودھرا کانڈ کے بعد اجڑے ہوئے مسلمانوں کی امداد اور انھیں سہارا دینے کے لیے کام کر رہے تھے۔
’اس دوران بھی ہم نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور آگے بھی نہیں کریں گے۔ ہم مفتی ہیں کوئی دہشت گرد تو نہیں۔ ہم قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حق کی لڑائی لڑیں گے۔‘
مکمل تحریر >>

بگرام کی اذیت کے زخم نہیں بھرتے

  • 13 جنوری 2015
بگرام کے قیدی
نیاز گل اور سردار خان پوچھتے ہیں کہ ان پر اذیت کا کون ذمہ دار ہے
دسمبر میں امریکی سینیٹ نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی طرف سے مختلف حراستی مراکز میں تفتیش کے دوران القاعدہ کے مشتبہ قیدیوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت دینے کے طریقے استعمال کرنے کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ ان مراکز میں سے ایک افغانستان میں بگرام ایئر بیس بھی تھا۔ بی بی سی کے سنجوئے مجمدر نے بگرام کے دو سابق قیدیوں سے بات کی ہے۔
میں نیاز گل اور سردار خان سے کابل کے نواحی علاقے وزیر اکبر خان کے ایک پارک میں سردیوں کی ایک صبح ملا۔ یہ ایک خاموش، الگ تھلگ سا علاقہ ہے اور یہاں دور دور تک کوئی نہیں ہے۔
یہ لوگ مشرقی صوبے کنڑ سے رات بھر سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں۔ ان دونوں کا تعلق بھی کنڑ سے ہی ہے۔ دونوں کی عمریں 35 کے قریب ہیں لیکن یہ اس سے کہیں بوڑھے نظر آئے۔ انھیں چار سال قبل کابل کے شمال میں واقع بگرام جیل سے رہا کیا گیا تھا۔
سبز چائے پیتے ہوئے انھوں نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔
نیاز گل نے کہا کہ ’میں سو رہا تھا۔ آدھی رات گزر چکی تھی جب امریکی فوجیوں کا ایک گروہ میرے گھر میں داخل ہوا۔‘
انھیں اپنے والد اور بھائی کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔
’ہمارے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دیے گئے اور ہمیں باہر کھڑی ایک گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ ہمیں ایک فوجی کیمپ لے گئے جہاں سے بگرام کے اڈے پر جہاز میں لے جایا گیا۔‘
سردار خان کو بھی امریکی فوجیوں نے رات گئے ان کے گھر سے اٹھایا تھا۔
انھوں نے اپنا ماتھا دکھاتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے میرا سر دیوار کے ساتھ مار دیا۔ مجھے جب گاڑی میں دھکیلا گیا تو میرا خون نکل رہا تھا۔‘

الزامات ثابت نہیں ہوئے

کنڑ صوبہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہے جہاں طالبان اور القاعدہ کے جنگجو بہت متحرک ہیں اور یہاں اتحادی فوج اور باغیوں کے درمیان اکثر لڑائی ہوتی رہتی ہے۔
سردار کہتے ہیں کہ ’انھوں نے مجھ پر نیٹو فوجیوں پر فائرنگ کرنے کا الزام لگایا۔ وہ درست نہیں تھا اور غلط اطلاع پر مبنی تھا۔‘
بگرام
بگرام کا حراستی مرکز امریکی فوجیوں کے کنٹرول میں افغانستان کا سب سے بڑا حراستی مرکز تھا
انھیں بگرام کے اڈے پر لے جایا گیا جہاں انھوں نے اگلے 18 ماہ گزارے۔
’وہ مجھ پر کبھی بھی الزامات ثابت نہیں کر سکے سو آخر کار مجھے رہا کرنا پڑا۔‘
کابل کے شمال میں واقع بگرام کا ہوائی اڈہ کچھ عرصے تک امریکی فوجیوں کا اڈہ تھا جہاں انھوں نے افغانستان کا سب سے بڑا حراستی مرکز بنایا تھا۔
بگرام کے دوسرے قیدیوں کی طرح ان دونوں کو بھی کبھی کبھار چھوٹے الگ تھلگ کمروں میں رکھا جاتا اور کبھی ان کو دوسرے قیدیوں سے بھرے لوہے کے پنجروں میں رکھا جاتا۔
سردار کہتے ہیں کہ ان سے کئی مرتبہ تفتیش کی گئی۔
نیاز کہتے ہیں کہ ’جب ہم سونا چاہتے تو وہ اونچی آواز میں موسیقی لگا دیتے۔ انھوں نے ہمیں آرام کرنے نہیں دیا۔‘
’ہمیں ایک چھوٹی سی جگہ پر رکھا گیا تھا۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ اب دن ہے کہ رات۔ وہ ہمیں ٹوائلٹ بھی استعمال نہیں کرنے دیتے تھے اور بہت سے قیدی اپنے کپڑوں میں ہی پیشاب کر دیتے تھے۔‘
کبھی کبھار قیدیوں کو بہت گرم یا بہت ٹھنڈے پانی میں غسل کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا۔

ذہنی اذیت

نیاز کہتے ہیں کہ ’ہمیں سزا دینے کے لیے وہ ہمیں ایک کمرے میں بند کرنے کے بعد ایئر کنڈیشنر چلا دیتے اور کمبل لے جاتے۔ ہم ٹھنڈ میں جم جاتے۔‘
نیاز گل نے بگرام میں 22 مہینے گزارے جس کے بعد انھیں معصوم قرار دے کر رہا کر دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد ان کے لیے زندگی آسان نہ ہو سکی۔ دونوں کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی اذیت میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کو اکثر سر میں درد رہتا ہے۔
نیاز کہتے ہیں کہ ’اب مجھے بڑی آسانی کے ساتھ خاندان کے افراد اور دوسرے لوگوں پر غصہ آ جاتا ہے۔ میری پوری زندگی اتھل پتھل ہو چکی ہے۔‘
میرے ساتھ گفتگو کے بعد نیاز اور سردار نے میرے ساتھ مصاحفہ کیا اور افغان روایت کے مطابق گلے لگایا۔ اس کے بعد وہ چلے گئے۔
دونوں نے تقریباً دو دو سال قید میں گزارے ہیں۔ اب وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا اور ان پر کیے گئے مظالم کا کون ذمہ دار ہے۔

http://www.bbc.com/urdu/regional/2015/01/150113_bagram_detainees_as
مکمل تحریر >>