Pages

ہفتہ، 19 مارچ، 2016

نوکری یا کاروبار؟

نوکری یا کاروبار؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے کبھی ہوٹل میں کھانا تو ضرور کھایا ہوگا۔ اگر نہیں کھایا تو آج کھا کر دیکھ لیں۔ لیکن ایک کام ضرور کریں۔ ہاتھ دھوکر کونے میں رکھےکسی ٹیبل پر بیٹھ جائیں۔ ارے ارے ارے ۔ بھائی کیا کر رہے ہیں؟ میرا مقصد تھا کہ ٹیبل کے ساتھ رکھی کسی کرسی پر بیٹھ جائیں۔ پھر آپ ،اپنے بعد ہوٹل میں داخل ہونے والے ہر فرد کو بغور دیکھیں۔ آ پ ایک چیز نوٹ کریں گے کہ ہوٹل میں داخل ہونے والا ہر نیا فرد جیسے ہی اندر داخل ہوتا ہے وہ ہر ٹیبل پر بیٹھے فرد کے کھانے پر ضرور نگاہ ڈالتا ہے کہ وہ کیا کھا رہا ہے۔ وہ صرف مرغی کی ٹانگ اور سیخ کباب کھانے والوں ہی کو نہیں تاڑتا بلکہ دال سبزی کھانے والوں کو بھی نہیں بخشتا۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ چلیں، مل کر جواب ڈھونڈتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ آدمی کے ایک ہاتھ میں سونا ہو، دوسرے میں چاندی ہو اور منہ میں سونے کا چمچہ ہو تب بھی اس کی نگاہ ساتھ بیٹھے شخص کے ہاتھ میں موجود مٹی کے ڈھیلے پرضرور رہے گی۔ کہ انسان کی سرشت میں یہ چیز شامل ہے۔
نوکری یا کاروبار؟ یہ وہ سوال ہے جس کی چکی کے دو پاٹوں میں آدم کی بیٹا ہر وقت پستا رہتا ہے۔ جو نوکری کرتا ہے وہ سوچتا ہے کہ کاروبار والے مزے میں ہیں اور جو کاروبار والے ہیں وہ اونچے عہدے والوں کا ٹاٹھ باٹھ دیکھ کر اپنے چمکتے سرپر ہاتھ پھیرتے نظر آتے ہیں۔ وقت گذرتا رہتا ہے اور یہ سوال انسان کو ہردم بے کل رکھتا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کے دیے ہوئے رزق پر راضی رہتے ہیں۔ [اسی کو قرآن نے کہا ہے: قلیلا ما تشکرون ۔ بہت تھوڑے لوگ شکرگذار ہوتے ہیں]
آپ کہیں گے کہ اس کا مطلب ہے کہ آدمی کچھ نیا سوچے ہی نہ۔ جواب یہ ہے کہ ضرور سوچے لیکن زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے۔جو لوگ نوکری کر رہے ہیں اور خاص طور پر پاکستان میں سرکاری نوکری کررہے ہیں ان کو تو چاہیے کہ کاروبار کی نیت سے جاب چھوڑنے سے پہلے ایک سو مرتبہ ضرورسوچ بیچار کرلیں۔ میں نے ایسے کئی حضرات دیکھے ہیں جو اچھی بھلی نوکری صرف اس وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں کہ ان کے سر پر دبئی، یورپ اور کینیڈا وغیرہ جانے کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کی یہ آرزو بارآور ہوتی ہے لیکن اگر کوئی چلا بھی جائے تو کچھ ہی دنوں میں نشہ ہرن ہوجاتا ہے اور لگ پتہ جاتا ہے۔
میں ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں جو خود بھی اچھی بھلی سرکاری جاب پر تھے، بیوی بھی سرکاری اسکول میں ٹیچر لگی ہوئی تھیں۔ آنافانا، دونوں میاں بیوی نے نوکری چھوڑی، آبائی پراپرٹی بیچی اور ہزاروں میل دور ایک برفانی ملک میں جا بسے۔ کس طرح ان کے پیچھے والدین بلکتے رہے اور والد اولاد کی یاد میں رو تے رہے اور بالاخرفوت ہوگئے۔ یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن جو بات کرنے کی ہے وہ یہ کہ اعلیٰ ڈگری (اصلی والی) اور تعلیم ہونے کے باوجود انہوں نے وہاں جا کر مزدوری ہی کی اور آج تک مزدوری ہی کر رہے ہیں۔ صرف نیشنلٹی کی قیمت پر۔
اقبال کے شاہین کے جہاں اور کرگس کے جہاں کی طرح ، نوکری اور کاربار کرنے والوں کا جہاں بھی ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔ جو لوگ نوکری یا کاروبارکرتے چلے آئے ہیں ان کی سوچ، مزاج، میلانات اور ذہنیت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ نوکری پیشہ افراد ایک روٹین کے اسیر بن جاتے ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ وہ ان کی زندگی کا ایک جزو بن جاتی ہے۔ جبکہ کاروباری حضرات اکثر کسی روٹین کے پابند نہیں رہتے۔ نوکری پیشہ افراد مقررہ اوقات ہی میں دل جمعی سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں جبکہ کاروباری لوگوں کی دنیا ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ وہ صرف اتنا ہی کام نہیں کرتے جتنا آپ کونظر آرہا ہوتا ہے بلکہ ان کا اصل کام پردے کے پیچھے ہوتا ہے جس پر کہ کاروبار چل رہا ہوتا ہے۔ کاروباری حضرات پابندیوں اور معمولات کو پاوٗں کی زنجیر سمجحتے ہیں جبکہ نوکری پیشہ افراد کو یہی چیز لطف دیتی ہے۔ غرض یہ کہ کاروباری اور نوکری پیشہ ، دونوں حضرات کی ایک الگ ذہنیت (مینٹلٹی) ہوتی ہے جس کو چھیڑنے سے نقصان ہوتا ہے۔
کاروبار یا نوکری میں سےکس چیز کا انتخاب کیا جائے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ فردافردا دیکھنے کا ہے۔ اس کے لیے کوئی ایک لگا بندھا اصول نہیں ہے لیکن ذیل میں کچھ موٹے اصول بیان کیے جاتے ہیں۔
۱۔ کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے پاس چار چیزیں لازمی ہوں۔
اول: سرمایہ،
دوئم: تجربہ یا معلومات،
سوئم: وقت یا مہلت اور
چہارم: صحت۔
دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی اگر غیرموجود ہے تو کاروبار نہیں چلتا ، چاہے اس پر کتنا ہی زور لگایا جائے۔ لوگوں کے پاس تجربہ، وقت اور صحت ہوتی ہے لیکن سرمایہ نہیں ہوتا تو کام نہیں چلتا۔ اسی طرح سرمایہ ہو، تجربہ ہو، صحت بھی ہو لیکن لیکن وقت نہ ہو تو بھی کام نہیں بنتا۔ علی ہذالقیاس، سرمایہ، تجربہ، وقت ہو لیکن صحت اس قابل نہ ہو کہ آدمی کاروبار کے بکھیڑوں کو منہ دے سکے تو بھی کاروبار نہیں چلے گے۔پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہر کام کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے۔ ایسا نہں ہے کہ آپ کے پاس کچھ پونجی جمع ہوگئی ہے تو بہرصورت کاروبار شروع کردیا جائے۔ کاروبار کے لیے سرمایہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن سرمایہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ میں ایک ایسے صاحب سے بات کر رہا تھا جن کو میں ہر لحاظ ایک کامیاب انسان تصور کرتا ہوں اور وہ ہیں بھی ایک کامیاب انسان۔ میں نے انہیں کسی کام کا مشورہ دیا۔ انہوں نے جو بات کی وہ مجھے آج پندرہ سال بعد بھی یاد ہے۔ انہوں نے کہا ابومصعب، ہر کام کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے۔ میری عمر اس وقت پچاس سال ہے اب اگر میں آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے زندگی میں ایک نیا پروجیکٹ لانچ کروں تو کون اس کو سنبھالے گا، یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ میں کوئی کام شروع کروں اور وہ ادھورا رہ جائے۔ میں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا اور دل نے کہا کہ یہی بات حق ہے۔
تو وہ لوگ جو نوکری کر رہے ہیں اور کاروبار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اس کی ابھی سے منصوبہ بندی کریں۔ وہ ٹائم مارجن [مہلت] لے کر میدان میں اتریں۔ جو لوگ اپنی زندگی کے تیس اور چالیس سالوں کے پیٹے میں ہیں اور کاروبار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس کے لیے سرمایہ بھی مہیا کرسکتے ہیں ان کے لیے یہی وقت بہترین ہے۔ انہیں چاہیے کہ اس کے لیے ابھی سے خاکہ بنائیں اور پھر اس میں رنگ بھرنا شروع کریں۔ یہ عمر ہوتی ہے جس میں پنہچ کر انسان دنیا کو دیکھ بھال چکا ہوتا ہے، گرم سرد ، اچھے برے اور دوست دشمن کا تجربہ رکھتا ہے۔ تیس سے پینتیس سال کی عمر تک کاروبار کے لیے وسائل مہیا کریں اور پینتیس سے چالیس سال کے دوران جب دیکھیں کہ نوکری کو خیرباد کہ دینے سے دال روٹی چلتی رہے گی تو آہستہ آہستہ نوکری سے کاروبار کی طرف منتقل ہوما شروع ہوں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی بھی کاروبار اول روز ہی سے منافعہ اگلنا شروع نہیں کردیتا اس لیے اگر آپ شروع میں اپنے گھر کے خرچے کا سارا بار نوزائیدہ کاروبار پر ڈال دیں گے تو آپ کا کاروبار شروع ہی میں بیمار پڑ جائے گا اور یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ابتدائی کمزوری کے اثرات سے بچنا کافی مشکل ہوتا ہے اس لیے نوکری سے کاروبار کی طرف منتقلی کا عمل بتدریج اور مرحلہ وار ہو۔ جو لوگ پچاس سال سے اوپر کے ہو چکے ہیں ان کو چاہیے کہ اب بڑے بڑے منصوبے بنانا بند کردیں اور کوئی نیا پروجیکٹ لانچ نہ کریں اور نہ ہی کوئی نیا کاروبار اپنی پنشن اور گریجیوٹی کی حاصل شدہ رقم سے شروع کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ ان کےلیے سرمایہ کاری کا بہترین آپشن کوئی مکان ، زمین یا پلاٹ خرید لینا ہے۔ اگر دال روٹی کا کوئی دوسرا بندوبست ہے۔ ورنہ دیگر راستے ہیں جن پر بعد میں کبھی بات ہوگی۔ میرے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ لوگوں کو ریٹائر ہونے پر لاکھوں روپے ملے، سال بھر تو وہ یہی سوچتے رہے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں، اس دوران گھر کا خرچہ بھی اسی جمع پونجی سے چلتا رہا، ڈیڑہ دو سال یوں ضایع کرنے کے بعد جب کسی کاروبار میں ہاتھ ڈالا تو تجربہ تھا نہیں اور عمر تھی باسٹھ اور تریسٹھ سال۔ زیادہ ہل جل بھی نہیں کر سکتے تھے، لہاذا نتیجہ یہ کہ اپنی رہی سہی پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
کچھ لوگ رٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم کو بینک میں فکس کروالیتے ہیں اور کیلکیولیٹر لے کر حساب لگانا شروع کردیتے ہیں کہ اتنے لاکھ جمع کراوئیں گے تو اتنے ملیں گے، میں نے ایسے لوگوں کے بچوں کو ٹھوکریں کھاتا دیکھا ہے۔ سچ کہا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے کہ سود کی رقم گھٹتی ہے اور صدقہ کرنے سے رقم بڑھتی ہی، چاہے دونوں چیزیں آپ کو الٹ ہی نظر کیوں نہ آئیں۔
[
جاری ہے]
نوکری یا کاروبار؟ [حصہ دوئم]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل ہم اس بات پر بحث کرچکے کہ نوکری اور کاروبار کرنے والوں کے اندر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ اپنا کام چھوڑ کر دوسرے میدان میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نوکری کرنے والوں کا رجحان کاروبار کرنے کی طرف زیادہ ہوتا ہے، بنسبت اس کے کہ کاروبار کرنے والے نوکری کی طرف متوجہ ہوں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ نیچے ہم نوکری چھوڑ کر کاروبار کی طرف راغب ہونے والوں کے اس عمل کی کچھ وجوہات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں:

اول: ذہنیت یا مائنڈسیٹ کا مسئلہ:
جیسا کہ پہلی قسط میں بیان کیا جا چکا ہے کہ کاروبار اور نوکری پیشہ افراد اپنی اپنی فیلڈ کا انتخاب اپنے طبعی رجحان یا مائنڈسیٹ کی وجہ سے کرتے ہیں۔ جس فرد کا کاروباری مزاج ہے ہی نہیں، اسے آپ لاکھوں روپے لگا کر کوئی بزنس کھول کر دیں اس سے نہیں چلے گا۔ اور یہ چیز انسان کی فطرت میں ہوتی ہے۔ والدین کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ اس کا کون سا بچہ کاروباری ذہن کا ہے اور کون سا پڑھنے پڑھانے اور کھیل کود میں دلچسپی رکھنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کاروباری ذہن والا بندہ کسی جگہ نوکری میں پھنس جاتا ہے تو وہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا اور جلد یا بدیر فارغ ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص ٹوپیاں، تسبح اور مسواک بیچ لے گا لیکن نوکری نہیں کرے گا۔ چھابڑی اور ٹھیلا لگا لے گا لیکن نوکری نہیں کرے گا۔

دوئم؛ نعمتوں سے اکتا جانے کی انسانی فطرت:
انسان کی فطرت ہے کہ جو چیز اس کو حاصل ہوجائے رفتہ رفتہ نگاہوں میں اس کی قدروقیمت کم ہوتی جاتی ہے۔ ہم آٗے دن اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، نئی گاڑی، نئے جوتے، نئے کپڑے، نیا گھر، نیا شہر غرض یہ کہ ہر نئی چیز میں اللہ نے فطری طور پر انسان کے لیے کشش رکھی ہے۔ جنت کی نعمتوں میں ایک نعمت یہ بھی ہوگی کہ ہر بار منظر نیا ہوگا، لذات، لباس، گھر، بییویاں، نئے قالب کے ساتھ انسان کے سامنے جلوہ افروز ہونگے۔ اسی لیے عربی کا مقولہ ہے: کل جدید لذیذ۔ یعنی ہر نئی چیز میں لطف ہے۔ نوکری کا بھی یہی معاملہ ہے کہ بے تحاشہ پاپڑ بیلنے کے بعد جب آدمی کو جاب مل جاتی ہے تو پہلی پہلی تنخواہ کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے، اس کے بعد یہ لطف کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور وہ رقم جو تنخواہ کے عنوان سے ہر ماہ اسے باقاعدگی سے ملتی رہتی ہے، حقیر لگنے لگتی ہے۔ کیوں کہ بندے نے اپنا معیار زندگی بھی تنخواہ کے حساب سے بڑھا لیا ہوتا ہے۔

سوئم: پونجی کا بھرم:
آدمی کے پاس جب کچھ رقم جمع ہوجاتی ہے یا کہیں سے دستیاب ہوجاتی ہے تو وہ اسے نوکری سے بے نیاز بنا دیتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ خالی جیب اور زیرو بینک بیلنس والے انسان کا رویہ ایک طرح کا ہوتا ہے اور بھرے پیٹ انسان کا رویہ دوسری طرح کا۔ جو لوگ اپنی کمپنی اور مالک سے بے نیاز ہوجائیں وہ ہر وقت مالک یا باس سے ٹکرا جانے کے کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ من کے اندر کی یہ مستی خواہ مخواہ ہی پیدا نہیں ہوجاتی۔ یہ سب دولت کا اور بینک بیلنس کا کمال ہوتا ہے۔ ایک ضرورتمند اور مجبور انسان کبھی بھی اس رویے کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ ایسا آدمی نوکری چھوڑنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہوتا ہے تاکہ اس کے دماغ میں جمع شدہ پونجی نے جو خمار بھر دیا ہے اس سے لطف اندوز ہوسکے۔

چہارم: کمپنی کی آمدن کا خود کو سب سے بڑا اور اھم ذریعہ سمجھ لینا:
لوگوں پر اعتماد کرتے ہوئے بعض کمپنیاں ان کو ایسی ذمہ داریاں دے دیتی ہیں جن سے ان ملازمین پر کمپنی کے تمام کاروباری راز افشاء ہوجاتے ہیں۔ مثلأ: چیزیں کہاں سے اور کتنے کی خریدی جاتی ہیں، کہاں اور کتنے کی بیچی جاتی ہیں۔ یا اگر کوئی ایسا بزنس ہے جس میں کسی چیز کی تیاری میں کوئی فارمولا استعمال ہوتا ہے وہ فارمولا ملازمین کو معلوم پڑ گیا۔ اب بندہ یہ سوچتا ہے کہ اچھا؟ اگر میں کمپنی کو پچاس ہزار کما کر دے رہا ہوں تو کیوں نہ اپنا کاروبار کھول لوں، فلاں اور فلاں تو اپنے پکے کسٹمر بن جائیں گے۔ اس طرح آدمی نوکری چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کرنے کا سوچتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک نہایت غلط اپروچ ہے۔ اس میں نہ صرف اخلاقی قباحت ہے کہ جس کمپنی نے بندے پر اعتبار کیا، اپنے سارے بھید اس کے حوالے  کیے، اس کی ٹریننگ اور تربیت کی، اس کو مارکیٹ میں متعارف کروایا، اب یہ بندہ اسی کو میاوءں کہہ کہ کھانے کی کوشش میں ہے۔  اس میں بندے کے اندازے کا ایک نقص بھی ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ اس کی وساطت سے کمپنی کو مل رہا ہے اس میں سوفیصد کمال اسی کی محنت اور کوشش کا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ کوئی سیلزمین اگر کسی کمپنی کو پچاس ہزار ماہوار کا بزنس لا کر دے رہا ہے تو وہ ایک ٹیم ورک کا نیتجہ ہوتا ہے جس میں کمپنی کا نام، اس کی ساکھ، اس کا سرمایہ، اس کے دیگر ممبران کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ آپ نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہونگے جو بہت اچھی کمپنی اور جاب کو لات مار کر اپنا چھوٹا سا سیٹ اپ بنالیتے ہیں اور چند ہی ماہ میں لٹیا ڈبو کر، دوبارہ نوکری کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس شخص نے کمپنی میں اپنے کردار کو خلاف حق زیادہ اہم اور بڑا سمجھ لیا تھا۔


نوکری یا کاروبار؟ [حصہ سوئم]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلی قسط میں، لوگوں کا نوکری چھوڑ کر کاروبار کرنے کے رجحان کے اسباب پر بات ہوئی تھی۔ میری اب تک کی گفتگو سے کوئی ہرگز یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ میں کاروبار کرنے کے حق میں نہیں اور اس حوالے سے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے حلال اور مناسب ذریعہ معاش دیا ہوا ہے وہ محض اس وجہ سے نوکری کو لات نہ ماریں کہ کچھ رقم جمع ہوگئی ہے جس سے کہ کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ کاروبار کے لیے سرمایہ ضرور ایک لازمی اور اہم عنصر ہے لیکن صرف سرمایہ ہی کافی نہیں بلکہ کچھ دیگر لوازمات اور اسباب کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ سرمایہ۔ اس پر بھی پہلے بات ہوئی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہوگی۔

اس حوالے سے میں نے کچھ عرصہ پہلے بھی اپنے کسی مضمون میں ایک دوست کی مثال دی تھی جو کہ امارات میں مقیم ہیں۔ وہ کسی مجلس میں بیٹھے تھے کہ دوستوں میں سے کسی نے کہا کہ سب بھائی میرے لیے دعا کریں کہ میرے لیے اللہ، پاکستان میں حلال روزگار کا کوئی بندوبست کردے تاکہ میں اپنے ملک جا کر بقیہ زندگی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گذاروں۔ ایک صاحب نے کہا: اس میں مشکل کیا ہے کہ آپ دعا کے لیے درخواست کر رہے ہیں؟ یہ کونسا مشکل کام ہے۔ آج آپ اپنی نوکری سے استعیفیٰ دیں، ویزا کینسل کروائیں اور جائیں پاکستان! ان صاحب نے کہا۔ آپ اس چیز کو سمجھ نہیں رہے۔ دیکھیں اللہ نے میرے لیے یہاں(امارات) میں رزق کا دروازہ کھولا ہوا ہے۔ اس دروازے کو میں خود اپنے ہاتھ سے بند نہیں کرنا چاہتا تا آں کہ اللہ خود یہ میرے اوپر بند کردے۔  اگر میں اپنے ہاتھ سے یہ دروازہ بند کروں گا تو وہاں پاکستان میں مجھے ہی خود یہ دروازہ کھولنا پڑے  گا اور اگر یہ دروازہ اللہ کی طرف سے بند ہوا تو پھر مجھے کوئی فکر نہیں ہوگی کہ وہی میرے لیے وہاں بھی کوئی بندوبست کردے گا۔ دوست کہتے ہیں کہ اس سادہ سے آدمی کی اس بات اور منطق نے میرے فلسفہ روزگار کو اڑا کر رکھ دیا۔

ایک اور صاحب کو اللہ نے بڑا اچھا، حلال اور طیب رزق دے رکھا تھا۔  کمپنی بھی ملٹی نیشنل تھی اور گھر سے صرف پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر تھی، عہدہ بھی اعلیٰ تھا، تنخواہ بھی پاکستانی روپوں میں کوئی پانچ چھ لاکھ ماہانہ تھی۔ بس پھر وہی کاروبار کا بھوت سوار ہوا۔ کمپنی کو نوکری چھوڑنے کی دھمکی دی۔ تنخواہ بڑھا دی گئی، پھر کچھ عرصہ بعد دھمکی دی، پھر تنخواہ بڑھادی گئی۔ اس دوران وہ میرے رابطہ میں تھے، میں ان کو مسلسل سمجھاتا رہا کہ یہ ہرگز دانشمندی نہیں جو آپ کر رہے ہیں لیکن نہ مانے اور بالاخر نوکری چھوڑ دی۔ ذہن میں یہی تھا کہ جو کام کمپنی کے لیے کرہا رہا ہوں وہی میں خود کیوں نہ کروں۔ یوں اپنا کاروبار شروی کیا جو کہ نہ چلا۔ نوکری کے دوران وطن میں دو تین بنگلے بک کروائے تھے جو کہ تقریبا مکمل ہوچکے تھے اور حوالگی کی قریب تھے، پہلے ایک بیچا، پھر دوسرا بیچا۔ آج کیفیت یہ ہے کہ کاروبار بس گزارے لائک ہی چل رہا ہے اور اوسط آمدن نوکری سے حاصل ہونے والی تنخواہ کا نصف بھی نہیں۔ ہزاروں کا قرضہ اس کے علاوہ ہے۔

 میری زندگی کا یہ مشاہدہ ہے کہ اللہ واقعی خیر الرازقین ہے اور رزق کا ذمہ بھی اس نے خود لیا ہوا ہے لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ بندہ اس حوالے سے رب کو آزمانا شروع کردے، الٹی سیدھی حرکتیں کرے اور گھر میں پڑی روٹی کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دے اور پھر بولے کہ اللہ خیر الرازقین ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان جس جاب پر لگا ہوا ہے ہمیشہ وہی کرتا رہے چاہے جیسے حالات ہوں اور حالات کی تبدیلی کے لیے جدوجہد نہ کرے؟

اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ آدمی کو ہر وقت ترقی اور بہتری کے لیے نہ صرف سوچتے رہنا چاہیے بلکہ اس کے لیے منصوبہ بندی اور عملی جدوجھد بھی کرتے رہنا چاہیے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کے لیے کوئی ایسا لگابندھا فارمولا نہیں ہے کہ تمام انسانوں کے اوپر یکساں لاگو ہو۔ یہ منحصر ہے آدمی کی عمر، صحت، موجودہ نوکری کی نوعیت اور دستیاب وسائل اور حالات و موجودہ زمینی حقائق پر۔ آدمی کب تک جاب کرے، جاب کرے بھی کہ نہ کرے، کب چھوڑ کر کاروبار شروع کرے، کاروبار کے لیے کن چیزوں کا ہونا لازمی ہے۔ منصوبہ بندی کیسے ہوتی ہے اور اور کی گئی منصوبہ بندی کے خاکہ میں کس طرح رنگ بھرے جاتے ہیں۔ ان نکات پر انشاءاللہ آگے چل کر بات ہوگی۔[جاری]

نوٹ: طبعیت کی ناسازی کی وجہ سے آج کی قسط تھوڑی مختصر ہے کل انشاء اللہ اس حوالے سے مزید گذارشات عرض کروں گا۔






نوکری یا کاروبار؟ [حصہ چہارم]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھی زبان کی ایک قدیم اور مشہور کہاوت ہے:
اتم کھیتی، نیچ نوکری، ودھندڑ واپار (یعنی کھیتی باڑی، اعلیٰ کام ہے، نوکری ایک نیچ کام ہے اور بیوپار کے کیاکہنے، وہ تو سراسر بڑھوتری اور ترقی ہے)۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اگر کاروبار جم جائے تو اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ پھر اس میں یوں بھی برکت ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے بھی بیوپار یا کاروبار کیاہے۔ اللہ نے بھی قران میں مومنوں سے ان کی جانیں جنت کے بدلے خریدنے کا ذکر کیا ہے اور پھر فرمایا ہے کہ اس سودے پر خوشیاں مناؤ۔
دیکھا جائے تو آج کل کے صنعتی ترقی اور کارپوریٹ دؤر میں نوکری بھی اب پہلے جیسے چیز نہیں رہی۔ پہلے نوکری اور غلامی میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ آجکل، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ماہر اور تجربہ کار افرادکو بڑی بڑی کمپنیاں اتنے بڑے اور دلکش پیکج دیتی ہیں کہ گویا کہ وہ وہاں ملازم نہیں بلکہ حصہ دار ہیں۔ میرے ایک دوست جو پہلے دبئی میں تھے، پھر اسی کمپنی نے ان کو اپنی سعودی شاخ میں بھیج دیا پچھلے چوبیس پچیس سال سے اسی ایک کمپنی میں لگے ہوئے ہیں۔ بقول ان کے، کمپنی ملازمین کو اتنا کچھ دیتی ہے اور اتنا خوش رکھتی ہے کہ ملازمین کا کہیں اور جانے کو دل ہی نہیں کرتا۔
آپ نے یہ خبر بھی پڑھی ہوگی کہ چین کی ایک کاسمیٹک کمپنی نے اپنے پچیس ہزار ملازمین کو دبئی، تھائی لینڈ، بینکاک وغیرہ کے ٹور پر بھیجا ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے کئی ماہ سے جاری ہے۔ اس کے لیے کمپنی نے دبئی کے درجنوں ہوٹل کرائے پر لیے ہیں، چارٹرڈ فلائٹس بک کی ہیں، جن میں بیک وقت کئی سو ملازمین کو گھومنے پھرنے کے لیے بھیجا جا رہا ہے اور اس کا سارا خرچہ کمپنی کے ذمہ ہے۔ یہ دنیا کی تاریخ کی اب تک کی سب سے بڑی کارپوریٹ اسپانسرڈسیاحت ہے جو اس وقت بھی جاری ہے۔ محض اس لیے کہ ان کے ملازمین کمپنی سے خوش رہیں۔
اب ہم نوکری کی دنیا سے باہر نکل کر ذرا کاروبار کے متعلق بات کرتے ہیں ۔اب تک ہم نے جس چیز پہ زور دیا ہے وہ یہ کہ دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ لگی بندھی روزی کو قبل اس کے کہ کوئی دوسرا ذریعہ آمدن مہیا ہوجائے، چھوڑنا دانشمندی نہیں ہے۔ آپ نے بھی اپنی زندگی میں کئی ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو ایک لگی لگائی جاب چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے بعد دوسری جاب تلاش کرنا شروع کرتے ہیں۔ شاید اسی چیز کے لیے کہا گیا تھا: پانی سے پہلے کپڑے اتارنا۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ کون لوگ ہیں جو چاہے کاروبار کریں یا نہ کریں لیکن ان کو اپنی جاب ضرور تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
۱۔ ایسی کمپنی جہاں انسان کی کوئی تکریم یا عزت نہ ہو۔
۲۔ مضرصحت ماحول ہو اور زیادتی کی حد تک مقررہ اوقات سے زائد ڈیوٹی لی جاتی ہو
۳۔ ترقی کا کوئی امکان نہ ہو، جس جگہ بھرتی ہوئے تھے تین سال بعد بھی وہیں ہیں، نہ کوئی تنخواہ میں اضافہ کی امید اور نہ کوئی دوسرا مالی فائدہ حاصل ہونے کا امکان۔
۴۔ کچھ سیکھنے اور اپنی فیلڈ میں آگے بڑھنے کا موقع نہ ہو۔ اگر کوئی کسی کمپنی میں کلرک بھرتی ہوا ہے تو بس ہمیشہ ٹائپنگ کرنا اور آفس کا روٹین کام کرتے رہنا ہی مقدر ٹہرے۔
۵۔ کمپنی کی مالی حالت پتلی ہو، تنخواہ بھی مشکل سے نکلتی ہو۔ 
۶۔ کوئی اصول، قاعدہ اور قانون نہ ہو، بس سیٹھوں والا ماحول ہو جس میں انسان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہو کہ وہ اپنی کارکردگی کے علی الرغم سیٹھوں کو خوش کرنے کا ہنر جانتا ہو۔
یہ چند اشارے تھے ان لوگوں کے لیے جن کو مندرجہ بالا حالات کا سامنا ہے، وہ آج ہی سے کوئی دوسرا معقول ذریعہ روزگار تلاش کرنا شروع کردیں اور جیسے ہی انہیں کوئی راستہ نظر آئے اس طرف نکل جائیں۔
ایک انگریز ، جو ایک کمپنی میں ملازم تھا، نے کہا کہ میں کبھی ڈیوٹی پر نہیں جاتا۔ بلکہ تفریح کے لیے جاتا ہوں۔ ڈیوٹی تو اس کو کہتے ہیں کہ جہاں انسان ایک گھٹن اور بوریت محسوس کرے جبکہ میں تو اپنے کام کو انجوائے کرتا ہوں۔ یہ ہے وہ مطلوب ماحول جس میں واقعی انسان کام کرتے ہوئے ، کچھ سیکھے، کچھ لطف محسوس کرے۔
جو لوگ آج کسی کمپنی میں جاب کر رہے ہیں اور آئندہ بزنس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یا جن کواس سلسلہ مضمون میں آگے چل کر کاروبار کرنے کا مشورہ دیا جائے گا، ان کو چاہیے کہ کاروبار کے لیے لازما درکار درج ذیل چیزوں کا جائزہ لیں اور آج ہی دیکھ لیں کہ ان کے پاس کیا چیزیں موجود ہیں اور کون سی چیزیں ایسی ہیں جو تھوڑی توجہ سے سیکھی اور حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ مادی چیزیں ہیں اور کچھ کا تعلق انسانی صلاحیتوں اوراہلیت سے ہے۔
۱۔ کاروبار کے لیے سب سے اولین شرط طبعیت کا میلان، رجحان یا ارادہ ہے۔ 
۲۔ دوسری چیز سرمایہ ہے، جیسے کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے
۳۔تیسری چیز پراڈکٹ؍ہنر جس کی بنیاد پر کاروبار ہونا ہے
۴۔ موقعہ محل، عمر کا صائب ہونا بھی ضروری ہے (ستر سالہ شخص کاروبر کا نہیں سوچ سکتا)
۵۔ صحت بھی ایسی ہو جوکام سنبھال سکے
۶۔ وقت کی قربانی بھی دینی ہوگی اور وقت کی منصوبہ بندی بھی کرنی ہوگی۔ 
۷۔ پیسہ کا صحیح استعمال جانتا ہو، آمدن اور اخراجات کو متوازن رکھ سکتا ہو
۸۔ نقصان برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ (ممکن ہے کہ تین چار ماہ یا چھ ماہ کاروبار نہ چلے)
۹۔ بیک وقت کئی کام کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہو جسے انگریزی میں ملٹی ٹاسکنگ کہتے ہیں۔
۱۰۔ یہاں انسان اپنا باس خود ہوگا اس لیے وہ اپنے بل بوتے پر کام کرسکتا ہو، منصوبہ سازی کر سکتا ہو، کاموں کو منضبط انداز میں سرانجام دے سکتا ہو۔
۱۱۔ اپنی خوبیوں اور صلاحیتیوں، کمزوریوں اور خامیوں کا علم و ادراک رکھتا ہو۔
کل انشاء اللہ ان میں سے کچھ چیزوں پر باری باری بات ہوگی۔ [جاری]























نوکری یا کاروبار؟ [حصہ پنجم]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آگے بڑھنے سے قبل میں اپنی ذاتی زندگی کے  تجربات ،جن کا تعلق براہ راست میرے  معاش سے ہے بتاتا چلوں۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کے بارے میں میرے قریب ترین دوست، رشتہ دار حتیٰ کہ اولاد تک کو مکمل معلومات نہیں۔ اور آج میں پہلی بار اپنی زندگی کے نشیب و فراز جو مجھے حصول رزق کے سلسلے میں پیش آٗے شیئر کرنے جا رہا ہوں۔ وجہ اس کی کوئی خاص نہیں  بس یہ مقصد ہے کہ  ہوسکتا ہے کہ  اللہ کے بندوں  میں سے کسی کو میرے احوال میں سے کوئی چیز اپنی رہنمائی کے لیے مل جائے۔

ہمارا خاندان بنیادی طور پر ایک زمیندار خاندان ہے۔ والد صاحب کی اچھی خاصی زمینیں تھیں جن کو وہ خود ہی اکیلے سنبھالتے تھے اور ہم تمام بھائی صرف اپنی تعلیم اور کھیل کود تک محدود تھے۔ زیادہ سے زیادہ جب گرمیوں کی چھٹیاں آتیں، ہم دونوں بھائی والدین کے پاس گاؤں چلے جاتے اور وہیں چھٹیاں گذار کر واپس حیدرآباد آجاتے۔ میٹرک کے بعد جب  میں مزید تعلیم میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا تھا، تو  ہمارے ایک بڑے بھائی نے،جو کہ انگریزی میں لیکچرر تھے،   مجھے  کلرک بھرتی کروانے کے لیے ایک ٹائپنگ سینٹر میں داخل کروا دیا جہاں میں نے شارٹ ہینڈ اورٹائپنگ سیکھنا شروع کری اور کچھ ہی دنوں میں ٹائپنگ میں مہارت حاصل کرلی۔ البتہ شارٹ ہینڈ اپنے پلے نہیں پڑی۔ اسی دوران بھائی صاحب نے ہمارے ایک رشتہ دار کو بول کر، جو کہ  پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹنمٹ میں انجینئر تھے،  پانچویں گریڈ میں ٹائپسٹ لگوا دیا۔ یوں ایک ایسا نوجوان جو سارا دن آزاد فضاؤں میں اڑتا پھرتا تھا، جس کا شوق پورا پورا دن کرکٹ کھیلنا اور پھر شام کو دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنا تھا، قفس میں تڑپنے کے لیے ڈال دیا گیا۔ لیکن زندگی کی پہلی نوکری میرے اندر جو تبدیلیاں لے آئی،  وہ حیران کن تھیں۔

پہلے میں والد صاحب کی آمدن پر عیش کر تا  تھا، اب مجھے احساس ہوا کہ پیسے کتنی مشکل سے کمائے جاتے ہیں۔ یہ احساس اس وقت اور بھی شدت سے  ہوا جب میں زندگی کی پہلی تنخواہ ملنے پر گھر گیا اور والدہ کو بتایا کہ مجھے تنخواہ ملی ہے تو انہوں نے کہا کہ پوری کی پوری تنخواہ میرے حوالے کرو۔  میں نے سوال نہ کیا لیکن انہوں نے خود ہی وجہ بتادی کہ جب تم چھوٹے تھے تو ایک بار شدید بیمار پڑ گئے تھے۔ میں نے اللہ سے منت مانی تھی کہ جب تم بڑے ہوکر پہلی کمائی لاؤ گے تو میں وہ ساری رقم صدقہ کر دوں گی۔ مجھے کوئی رنج نہ ہوا بلکہ اس کے بعد بھی میرا معمول تھا کہ میں تنخواہ  ملنے کے بعد پوری کی پوری رقم  والد صاحب کے حوالے کر دیتا تھا جس میں سے وہ مجھے مہنہ  بھر کا جیب خرچ اسی وقت نکال کر  دے دیتے تھے۔

نوکری ملنے کے بعد دوسرا شدید ترین احساس مجھے اپنی تعلیم کو ادھوری چھوڑنے کا ہوا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ کس طرح محنت کر رہے ہیں، مسابقت کا کیسا ماحول ہے، لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور کوئی مقام  حاصل کرنےکی جستجو میں ہمہ وقت لگے ہوئے ہیں۔   میرا یہ احساس شدید تر ہوگیا جب میں نے سوچا کہ اگر میں نے مزید تعلیم حاصل نہ کی تو یوں ہی ساری زندگی ٹائپنگ مشین کا کی بورڈ پیٹتا رہوں گا۔ لہٰذا میں نے فورا  فرسٹ ایئر کامرس، شام کی ریگیولر کلاسوں میں داخلہ لیا اور پڑھائی میں دن رات ایک کردیا۔ ان دونوں ہمارا گھر حیدرآباد میں تھا اور میری پوسٹنگ ٹھٹہ میں کردی گئی تھی۔ میں صبح سویرے  گھر سے نکل کر تین گھنٹے کی تھکا دینے والی مسافت طے کرکے ڈیوٹی کرتا، پھر دوپہر میں واپس تین گھنٹہ کا سفر کرتا، گھر پنہچ کر فریش ہوکر کالج کے ضروری لیکچر اٹینڈ کرتا اور پھر رات کو دیر تک پڑھائی کرتا۔ جب انٹر کے امتحان نزدیک آئے تو میں نے اپنے ڈپارٹنمٹ سے چھٹی لے لی اور چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ  انیس گھنٹے اسٹڈی کرتا۔   اکاؤنٹنگ کا مضمون میرے لیے بلکل نیا تھا، اسٹیٹسٹکس بھی درد سر تھی،لیکن دوستوں کے ساتھ مل کر چیزوں کو سمجھتا اور پھر رات میں پریکٹس کرتا۔  جس کا یہ پھل ملا کہ میں نے پورے بورڈ میں ٹاپ کیا۔ اخبارات میں تصویریں شایع ہوئیں، ایک آدھ انٹرویو ہوئے، بورڈ کی جانب سے تمغہ اور  سند عطا ہوئی۔

ان دنوں سندھی ادبی بورڈ (جامشور) کو ایک عدد اکاؤنٹ اسسٹنٹ کی ضرورت تھی۔ ہمارے کامرس کالج کے ایک استاد ، ادبی بورڈ میں کوئی کتابت وغیرہ کا کام کرتے تھے، انہوں نے میری پوزیشن کا وہاں تذکرہ کیا۔ لہٰذا بورڈ والوں نے مجھے انٹریو کے لیے بلوالیا۔ میں بھی خوشی خوشی چلا گیا کہ پانچویں اسکیل کی کلرکی سے گیارہویں گریڈ کی اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ کی پوزیشن میرے لیے ایک بہت بڑی جست تھی۔ انٹرویو ہوا، کچھ دیگر امیدواران بھی تھے لیکن الحمدللہ میں میرٹ پر منتخب ہوگیا۔

یہاں رک کر ، میں آپ سے ایک بات شیئر کرنا چاہوں گا۔ لوگوں کی نظروں میں تو میری یہ جاب ترقی کا ایک زینہ تھی لیکن آج جب میں اپنے اس قدم پر غور کرتا ہوں تو مجھے وہ ایک غلط قدم محسوس ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ ان دنوں ہمارے گھر کے معاشی حالات ایسے بھی نہیں تھے کہ اگر میں وہ جاب نہ کرتا تو گھر کے خرچے کا مسئلہ ہوتا۔ میں اگر وہ جاب کرنے کے بجائے اپنی تعلیم پر توجہ دیتا تو بہتر تھا۔  ایک بات ذہن میں رکھیں، ٹین ایج میں جب ہاتھ کو تنخواہ کا چسکہ لگ جائے تو پھر پڑھائی وڑھائی بھاڑ میں چلی جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا، ادبی بورڈ میں نوکری ملنے کے بعد مجھے پڑھائی میں کوئی خاص دلچسپی نہ رہی یہی وجہ تھی کہ میں نے بی کام کا امتحان بس خانہ پوری کے طور  پر ہی پاس کیا کوئی خاص نمبر نہ لیے۔
[نوٹ: سونا نہیں، کھانا کھا کر واپس آتا ہوں، ابھی تو کہانی آدھی بھی نہیں ہوئی] :)














نوکری یا کاروبار؟ [حصہ ششم]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادبی بورڈ کی  نوکری تین چار سال چلی، اسی دوران شادی بھی  ہوئی۔  جس کے بعد جلد ہی ایک تنازعہ کی بناء پر مجھے بورڈ سے فارغ کردیا گیا۔ میں نے جیسے شروع میں عرض کیا تھا کہ جب انسان کو مالی لحاظ سے آسودگی میسر ہو تو اس کا رویہ نوکری کے دوران کچھ اور ہی طرح کا ہوتا ہے۔ یہی حال  میرا بھی تھا۔ والد صاحب حیات تھے۔ اس لیے کوئی خاص فکر نہیں تھی۔  بورڈ کے مینیجر کو خاطر میں نہیں لاتا تھا اور اس وقت کے ڈائریکٹر ایجوکیشن، جس سے پورا اسٹاف تھرتھر کانپتا تھا اور جس کے آنے پرآفس میں سناٹے کی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی، الجھ بیٹھا اور سب لوگوں کو سامنے اس کو دوبدوجواب دیا۔ اس نے اسی وقت، وہیں کھڑے کھڑے میرا ٹرمینیشن لیٹر ٹائپ کروایا اوراسی وقت مجھے وہاں سے چلتا کردیا۔ مجھے ذرا بھی رنج نہ ہوا، بلکہ ایک لحاظ سے خوشی سی محسوس ہوئی، کہ میں وہ نوکری ویسے بھی بے دلی سے کر رہا تھا۔ جس کی بڑی وجہ میرا مالی طور پر زیادہ مجبور نہ ہونا، کام کی یکسانیت، ترقی کی کوئی خاص امید نہ ہونا وغیرہ شامل تھا۔ پھر یہ بھی تھا کہ اگر میں کوئی کاروبار کروں تو اتنا تو باآسانی کما سکتا ہوں۔

بہرحال، ابو زندہ باد، میں نے جلد ہی ایک چھوٹے سے کاروبار کی بنیاد رکھی جو کہ کمپیوٹر کمپوزنگ سے متعلق تھا۔ اس زمانے میں ابھی  کمپیوٹر کمپوزنگ عام نہیں ہوئی تھی۔ ابتداء گھر سے کی۔  مارکیٹ میں پبلشرز سے کتب کے مسودے لے کر گھر آجاتا تھا اور ٹائپ کر کرکے ان کو واپس کر دیتا تھا۔ اس طرح تھوڑی بہت آمدن شروع ہوگئی۔ لیکن اتنی نہیں ، کہ جس کو ایک گھر کا خرچہ اٹھانے جتنی کہا جائے۔ اسی دوران ایک دوست نے کچھ رقم دی کہ بازار میں کوئی دوکان لے کر یہی کام کروں اور آمدن میں اسے حصہ دوں۔  لہٰذا ہم کاروباری علاقے میں منتقل ہوگئے۔ صبح سے شام تک مارا ماری رہتی تھی اور شاید اتنا بھی نہیں بچتا تھا جتنا ادبی بورڈ کی نوکری کے دوران ملتا تھا۔ اب دماغ کچھ نہ کچھ ٹھکانے آنا شروع ہوگیا تھا۔ چار سال میں نے دن رات ایک کردیے لیکن کوئی رزلٹ نہیں نکل رہا تھا۔ البتہ گھر پر دوتین رزلٹ آچکے تھے۔ مصعب، شماس اور ایک بیٹی کی پیدائش ہو چکی تھی۔ یہ ہم سنہ ۹۵ کی بات کر رہے ہیں۔ اسی سال  والدصاحب راہی ملک عدم ہوئے۔ اس وقت میری عمربتیس سال تھی لیکن مجھے یوں لگا جیسے میرے چاروں طرف کی دیواریں اچانک گر گئی ہیں اور میں سب کے سامنے کھلے میدان میں موجود ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا احساس مجھے زندگی میں کسی کی موت پر نہیں ہوا، حتیٰ کہ والدہ ماجدہ کے انتقال پر بھی نہیں۔

والد صاحب کے انتقال کے بعد آزمائشوں اور مصائب کا ایک عجیب اور طویل دور شروع ہوا۔ اب ہمارے پورے گھر کا دارومدار میرے کمپیوٹرکمپوزنگ کے کام پر تھا۔ لیکن اس میں کوئی بہتری نہیں آ رہی تھی۔ کچھ مارکیٹ کے حالات ایسے تھے تو کچھ ہماری دینی تربیت ایسی تھی کہ ہم ہر طرح کا کام نہیں کرتے تھے۔ جس شادی کارڈ پر محفل موسیقی لکھنا ہوتا تھا، میں منع کردیا کرتا تھا، کوئی فحش مواد والی کتاب، پمفلیٹ یا تحریر ہماری پاس سے کمپوز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مشہور اشاعتی ادارے کا مالک میرے پاس آیا، جس کا تعلق قوم پرست اور بائیں بازو دھڑے سے تھا۔ اس نے مجھے ایک کتاب کمپوزنگ کے لیے دی اور تھی بھی بڑی ارجنٹ۔ میں نے فورا اس پر کام شروع کیا۔ جب کتاب کے ستر اسی صفحات ٹائپ کر چکا تو میں نے دیکھا کہ مصنف نے اللہ پاک کی شان میں گستاخانہ  اور اہانت آمیز الفاظ استعمال کیے تھے۔ میں نے وہیں پر وہ کتاب بند کر کے رکھ دی اور پبلشر صاحب کو بلا کر واپس دیتے ہوئے عرض کیا: جناب یہ کتاب مجھ سے نہیں ہوگی، آپ کہیں اورسے ٹائپ کروالیجے۔  میں آپ سے اس کی کوئی رقم بھی نہیں لیتا اور فلاپی میں کاپی کر کے اب تک کی کمپوزنگ دے دیتا ہوں۔  اس نے وجہ پوچھی، میں نے بتادی۔ اس نے بحث کرنا چاہی لیکن میں کنی کتراکر اپنے کام میں لگ گیا۔

اسی طرح جب ہمارے کاروبار کے حالات مزید خراب ہوئے تو مجھے ایک مقامی اخبار کی کمپوزنگ کا ٹھیکہ مل گیا جو سنہ ۹۵ میں پچیس ہزار رروپے ماہانہ تھا۔ اخبار کے مالکان دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے اس لیے کوئی لچر اور فحش چیز شایع نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا،  میں نے کام لے لیا۔ تین چار ماہ  کے بعد نہ جانے ان  کو کیا سوجھی کہ انہوں نے ہفتہ وار فلمی صفحہ شایع کرنے کی ٹھان لی۔ مجھے جب فلمی صفحہ کمپوز کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے معذرت کرلی۔ انہوں نے خوب زور بھرا کہ پھر ہم یہ ایک صفحہ کہاں سے جاکر کمپوز کروائیں گے؟ میں نے کہا بھائی یہ رہے کمپیوٹر،  پرنٹراور پورا سیٹ اپ، مجھے ان کی قیمت دے دیں اور آپ جانیں اور آپ کا اخبار جانے۔ یوں  کمپیوٹر کمپوزنگ کے بزنس کا بھی وہیں پر خیر وخوبی کے ساتھ اختتام ہوا۔



نوکری یا کاروبار؟ [قسط 7]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمپیوٹر کمپوزنگ کا کاروبار سنہ ۹۵ میں ختم ہوا۔ والد صاحب کا انتقال بھی سنہ ۹۵ میں ہوا۔  میں اس سلسلہ مضمون میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ جب انسان کو کوئی بھرم یا آسرا ہوتا ہے تو اس کی ٹور، وکھری  اور نرالی  ہوتی ہے۔ ہم بچپن سے زمینداری کے کام سے بلکل لاتعلق تھے۔ زمینوں کا جو کچھ کام تھا والد مرحوم خود ہی سنبھالا کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد یہ خیال ذہن میں آیا،  کہ ہم شہرمیں رہنے والے، دوردراز جاکر زمینداری کا مشکل کام کیسے کر پائیں گے اس لیے زمین کو فروخت کرکے شہر میں کوئی کاروبار کیا جائے۔ ہماری زمین نیشنل ہاے وے پر لب سڑک واقعہ تھی جس پر لوگ رشک کرتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ مفت میں ہاتھ آٗئی چیز کی انسان کو قدر نہیں ہوتی۔ جلد ہی وہ زمین بیچ دی، جس سے ایک بڑی رقم ہاتھ میں آ گئی۔ اب بینک اکاؤنٹ میں رقم تو تھی لیکن ذہن میں کوئی منصوبہ، کوئی پلان نہیں تھا۔ دن گذرتے گئے،  آمدن کا کوئی دوسرا ذریعہ تو تھا نہیں لہٰذا اسی رقم سے گھر کا خرچہ چلتا رہا۔ کبھی سوچا نزدیک میں کوئی زمین خرید لیتے ہیں، کبھی سوچا کوئی پلاٹ لے لیتے ہیں، کبھی دوکان کھولنے کا خیال تو کبھی  مکان بنانےکی آرزو۔ لیکن کسی بات پہ بھی دل ٹھک نہیں رہا تھا اور رقم ریت کی مانند مٹھی سے کھسکتی جارہی تھی۔ اس ہڑبونگ میں محلے میں ایک دوکان، جو کافی عرصہ سے بندپڑی تھی، خرید لی۔ تجربہ اور معلومات  نہ ہونے کی بناء پردوگنی قیمت پر خریدی۔ خیال یہ تھا کہ اس میں پرچون کا کام کریں گے۔ بینک میں رکھی آدھی رقم اسی کام پر لگ گئی۔ دوکان کوئی ڈیڑھ سال چلی، پھر بیٹھی اور بالاخر لیٹ گئی۔ دوکان پر تالا ڈال کر باقی ماندہ رقم کو بچانے اور ٹھکانے لگانے کے لیے، زمین کی خریداری یا ٹھیکے کے پر لینے کے لیے تلاش شروی کردی۔ اس میں بھی کئی ماہ لگ گئے بالاخر ایک وقت آیا کہ صرف اتنی رقم بچی کہ میں نے گھر سے ستر کلومیٹر دور ماتلی کے قریب ایک جگہ ٹھیکے پر تھوڑی سی زمین لے لی جو تقریبا دو سال تک میرے پاس رہی ۔ یہ تجربہ بھی بری طرح ناکام رہا۔ مالی فائدہ  تو کچھ نہ ملا لیکن اتنا ضرور ہوا کہ ہم تھوڑی بہت زمینداری سیکھ گئے۔

زمینداری کے اسی تسلسل میں، ہمارے کچھ دوستوں نے مجھے کہا کہ آپ کہیں زمین تلاش کریں تاکہ اس میں گنا کاشت کیا جائے۔ ان لوگوں کا زمینداری کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اسی لیے سارا کام میرے حوالے ہوا۔ میں نے کئی دن کی تلاش وجستجو کے بعد ضلعہ ٹھٹہ کے ایک چھوٹے سے شہر چوہڑ جمالی کے قریب کچے کے علاقے میں ایک قطعہ ایراضی ہاتھ کیا۔ زمین دریا کے قریب تھی لیکن تھی بڑی جاندار۔ ایسی کہ گویا، رات کو بیج ڈال کر سوئیں اور صبح فصل تیار۔ زمین میں ٹریکٹر کا کافی کام تھا جو کہ ہم نے کروایا۔ آغاز میں ہم نے اس میں جانوروں کا چارا کاشت کیا۔ کراچی کے بیوپاری، وہاں آکر ساری فصل خرید لیتے تھے۔  ابھی اس کام کو مشکل سے چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ میرے دوستوں کے درمیاں آپس میں کوئی ان بن ہوگئی اور انہوں نے اس پروجیکٹ سے ہاتھ کھینچ لیا۔ مجبورا مجھے بھی وہ کام جیسا تھا جہاں تھا  چھوڑ کر گھر واپس آنا پڑا۔ یوں میری ساری محنت اور وقت، جبکہ ان دوستوں کی رقم، سب کچھ ضایع ہوگیا۔

اس پرجیکٹ کے دوران پیش آنے والا ایک واقعہ سناتا چلوں۔ یہ زمین چوں کہ کچے میں واقعہ تھی لہٰذا خطرات سے پر تھی۔ سیکیورٹی کے مسائل تو تھے ہی لیکن سانپ اتنی کثرت سے تھے کہ ہر تھوڑے فاصلے اور تھوڑی دیر بعد سانپ نظر آتا تھا اور روشنی کا وہاں نام و نشان نہیں تھا۔ اس کے علاوہ، خنزیر وں کے غول کے غول رات کو نکلتے تھے،  اسی لیے میری ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ مغرب سے پہلے وہاں سے نکل جاؤں۔ سات آٹھ کلومیٹر پر چوہڑ جمالی کے نام سے ایک چھوٹا سا قصہ واقع تھا جہاں میں نے رہائش کا سلسلہ بنایا ہوا تھا۔

ایک دن جب میں کام ختم کرکے اپنی موٹر سائیکل پر واپس جانے لگا تو قریبی زمیندار جن کو سب لوگ حاجی صاحب کہتے تھے، نے کہا کہ آج رات ہماری اوطاق (بیٹھک) میں قیام کرلو۔ میں نے کہا  آپ سب لوگ اپنے گھروں میں چلے جائیں گے اور میں اکیلا سو نہیں سکوں گا اس لیے مجھے جانے دو۔ انہوں نے بصد اصرار مجھے روک لیا اور کہا کہ میرا ایک بیٹا آپ کے ساتھ سوجائے گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی حاجی صاحب کے کی دعوت پر میں رک گیا۔ اوطاق کیا تھی ان کے گھر سے کوئی ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک بہت بڑے درخت کے نیچے رکھی  چند چارپائیاں تھیں۔ مغرب ہونے کے بعد حاجی صاحب خود اور ان کے بیٹے گپ شپ کے لیے بیٹھ گئے۔  عشاء ہوگئی۔ ہم نے کھانا وانا کھایا، مختلف موضوعات پر بات چیت ہوتی رہی۔ اس دوران حاجی صاحب کے تینوں بیٹے، ایک ایک کر کے وہاں سے کھسک لیے۔ آخر میں حاجی صاحب بچے؛ بالاخر وہ بھی اٹھے اور یہ کہہ کر جانے لگے کہ میں کسی لڑکے کو بھیجتا ہوں تاکہ تمہارے ساتھ سوجائے۔ گھپ اندھیرا چھاچکا تھا اور دور سے جانوروں کی عجیب و غریب اور خوفناک آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ایک لڑکا ہاتھ میں لالٹین لے کر آیا اور مجھے کہا کہ حاجی صاحب نے بولا ہے کہ  سب سوچکے ہیں اس لیے آپ یہ لالٹین رکھ کر سوجائیں۔ میں ہکابکا رہ گیا۔ یا اللہ کہاں جاؤ، چیخوں چلاؤں، کیا کروں۔ موٹر سائیکل تو ساتھ کھڑی تھی لیکن قدم  قدم پر سانپ اور خنزیروں کے ریوڑ۔ ان سے اگر بچ بھی گیا تو کوئی اغوا ہی نہ کرلے کہ وہ علاقہ اس حوالہ سے مشہور تھا۔

انسان سے مضبوط کوئی چیز نہیں۔  لڑکے کے جانے کے بعد میں نے طے کر لیا کہ آج  سونا حرام ہے اور ساری رات جاگ کر گذارنی ہے ۔ خیال یہی تھا کہ سوگیا تو قیامت کے دن کسی درندے کے پیٹ سے اٹھوں گا۔ لالٹین لے کر میں نے درخت کے تنے کے ساتھ  لٹکا دی اور خود رضائی لے کر بیٹھنے اور لیٹنے کی درمیانی حالت میں، سر کے پیچھے دونوں ہاتھوں کی ٹیک لے کر بستر پر دراز ہوگیا۔ دن بھر کی تھکاوٹ کی وجہ سے آنکھوں اور اعصاب میں رسہ کشی جاری تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں لالٹین نے ٹمٹمانا شروع کردیا اور بالاخر دوتین بھبکے لے کر بجھ گئی۔  اٹھ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ مٹی کا تیل ندارد۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ بتاسکوں کہ میری وہ رات کس طرح گذری۔ صبح جب ایک مقامی دیہاتی ، میزبانوں سے پہلے وہاں آیا تو مجھ سے پوچھا: رات کو آپ یہاں سوئے تھے؟ میں نے کہا: ہاں۔ کہنے لگا، حاجی صاحب بھی کمال کرتے ہیں۔  اسی ساتھ والی جھاڑی میں کل میں نے ایک سورنی دیکھی تھی جس نے تازہ بچے دیے تھے اور یہیں قیام کیا ہوا تھا۔

ہو سکتا ہے کہ کوئی کہے کہ اس کہانی کا، جاری موضوع سے کیا تعلق؟ ان کے لیے عرض ہے کہ اپنی زندگی کے معاشی معاملات اور ادوار کی تکمیل پر میں آپ کو بتاؤں گا کہ ان واقعات کا  اس سلسلہ کلام میں بیان کرنے کا کیا مقصد تھا۔

 زمینداری کا فیز یہاں ختم ہوا۔  اگلا فیز  کیا ہوگا۔۔۔ بعد میں بتاؤں گا۔
                                                                                                        


نوکری یا کاروبار؟ [قسط 8]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمینداری کا تجربہ تین چار سال چلتے رہنے کے بعد اپنے انجام کو پنہچا۔ اب جیب میں کوئی چیز ایسی نہ تھی کہ جس سے کوئی نیا تجربہ کیا جاسکے۔ زندگی کی گاڑی ناہموار سڑک پر بگ ٹٹ دوڑے چلی جا رہی تھی۔ نان نفقہ کے لالے پڑ گئے تھے۔ اوپر سے بجلی کے ناجائز بل عذاب الٰہی بن کر نازل ہو رہے تھے۔ واپڈا دفاتر کے چکر کاٹ کاٹ کرجوتیاں گھس گئی تھیں۔ ہمارے اندرناجائز کیا، جائز بل تک دینے کی سکت نہ تھی۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ گھر کی لائٹ کٹ گئی۔ زندگی میں کبھی چوری کی بجلی استعمال نہ کی تھی۔ اس لیےکنڈے کا سوچا تک نہ تھا۔ نتیجتا کئی دن بغیر لائٹ کے گذارہ کیا۔ جب کہیں سے کچھ رقم کا بندوبست ہوگیا تو بجلی کے ناجائز بل کی ایک قسط ادا کرکے لائٹ بحال کروائی۔
انہی دنوں، ایک ایسا دن بھی ہم پر طلوع ہوا کہ میری جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ میں کمرے سے باہر نکلا۔ امی صحن میں بیٹھی تھیں۔ وہ یہ سمجھیں کہ میں ان سے حسب معمول پوچھوں گا کہ امی آج کیا لے کر آوں؟ لیکن میں ان کو سلام کرکے تیزی سے باہر نکل گیا۔ باہر نکل کر سوچتا رہا کہ کس طرف جاؤں! کوئی چیز سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ پھر میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ قریب ہی سبزی والے کی دوکان تھی جو مجھے اچھی طرح جانتا تھا۔ میں نے اس سےکچھ سبزی ادھار لی اور گھر پر دے کر دوبارہ باہر نکل گیا اور سیدھا اردو بازار میں قائم کتب کی ایک دوکان پر پنہچ گیا جو ایک ایسے پبلشر کی تھی جس سے کمپیوٹر کمپوزنگ کے کاروبار کے دوران رابطہ رہتا تھا اور وہ مجھے اچھی طرح جانتا تھا۔ میں نے اس کے سامنے اپنے خیال کا خاکہ رکھا جو اسے بہت پسند آیا اور اسی وقت وہ مجھے دس بارہ ہزار روپوں کی کتب دینے پر آمادہ ہوگیا۔
کتب کے بیگ اٹھا کر میں قاسم آباد کے ایک بڑے چوک کے بیچ میں جا نازل ہوا۔ آس پاس نظر دوڑائی تو ڈیکوریشن کی ایک دوکان نظر آئی۔ اس کے پاس چلا گیا۔ ایک عمررسیدہ شخص کرسی پر بیٹھےتھے۔ ان کے بیٹے مزدوروں کی طرح دوکان پر کام کررہے تھے۔ میں نے عرض کی: بزرگو! وہ دیکھیں سامنے میرا سامان رکھا ہوا ہے۔ میں چوراہے پر ایک کتب میلہ لگانا چاہتا ہوں، آپ مجھے چار چھ ٹیبل اور ایک کرسی کرائے پر دے دیں۔ میں شام کو آپ کو ادائگی کر دوں گا۔ وہ فورا تیار ہوگئے۔ اور چند ہی منٹوں میں چار چھ ٹیبل ایک دو کرسی وہاں پنہچا دیا۔ میں نے فورا ٹیبلیں سیٹ کیں، ان پر چادریں بچھائیں اور کتب کو ترتیب سے رکھنا شروع کردیا۔ میرے کتب کے بیگ کھلتے ہی لوگ تو گویا ٹوٹ پڑے، لپک لپک کر، ہاتھوں سےکتب چھین رہے تھے اور پیسے نکال نکال کر دے رہے تھے کیوں کہ انہیں وہ کتب نہایت کم قیمت پر مل رہی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی ایک بھیڑ جمع ہوگئی۔ بھائی یہ کتنے کی ہے، بھائی وہ کتاب مجھے دے دو۔ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس طرح دو چار گھنٹوں میں تقریبا آدھی کتب فروخت ہوگئیں۔ چوں کہ پہلا دن تھا اور میں تقریبا دوپہر کے وقت وہاں پنہچا تھا اس لیے جلد ہی شام ہوگئ۔ میں نے سامان سمیٹا، ڈیکوریشن والے کا حساب صاف کیا اور رکشہ میں ڈال کر بقیہ کتب گھر لے گیا۔ دوسرے دن، وہاں جانے سے قبل میں نے پینڑ سے ایک عدد بینر بنوا لیا۔ ‘‘موبائل کتب میلہ’’۔ اور پھر سیدھا اسی جگہ پنہچ گیا۔ آج ڈیکوریشن والے سے ایک عدد شامیانہ اور قنات بھی لے لی اور اس پر بینر لٹکا دیا۔ دوسرے دن بھی اسی طرح لوگوں کا جھمگٹہ رہا۔ ہم علم لٹاتے رہے اور لوگ اپنی جیب۔ اس طرح یہ سلسلہ چند دن تک چلتا رہا۔
اس نئے آئڈیا نے میرے دل کو خوب حوصلہ دیا۔ اب میرے پاس اتنی رقم جمع ہوچکی تھی کہ میں نے ڈیکوریشن والے سے بات کرکے وہی ٹیبلز اور کرسیاں خرید لیں جس سےروزآنہ کاایک بڑا خرچہ بچ گیا، کچھ رقم پبلشرز کو دے کر نیا مال اٹھایا۔ ایک ہفتہ وہاں میلہ لگانے کے بعد جب میں نے محسوس کیاکہ اب رش گھٹ چکا ہے اور فروخت میں واضح کمی آگئی ہے تو میں نےعلاقہ تبدیل کردیا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے ایک ایسے خیمے کی ضرورت تھی جس میں چاروں طرف سے دیواریں اور ایک طرف سے دروازہ ہو تاکہ موسم کے اثرات اور چوری سےکتابیں محفوظ رہیں۔ نیز، نماز کے وقفہ کے دوران بھی ایسے خیمے کی ضرورت تھی جس کے دروازے کو کھینچ کر رسی لپیٹ کر آدمی نماز اور کھانے وغیرے کے لے جاسکے۔ میں نے ایسا خیمہ ڈھونڈنا شروع کیا جو مجھے بالاخر کراچی میں ایک جگہ سے مل گیاجو دیکھنے میں نہایت خوبصورت تھا اور ایک ایسے کمرے نما تھا جس میں چاروں طرف دیواریں اور ایک طرف سے دروازہ تھا۔ جب مختلف جگہوں پر وہ خیمہ لگتا تھا تو دور سے لوگ کھچے چلے آتے تھے ۔ جب یہ سلسلہ تین چار ماہ چل چکا اور میں حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں موبائل کتب میلے لگا چکا تو پھر میں نے لطیف آباد کا رخ کیا۔ ابھی وہاں پہلا ہی دن تھا کہ ایک گاڑی قریب آ کر رکی جس میں ایک افسر ایک پولس گارڈ بیٹھا ہوا تھا۔ آفسرصاحب گاڑی سے اترکر میرے پاس آئے اور کہا کہ میں یہاں کا ایس ڈی ایم ہوں، تم نے کس سے اجازت لے کر یہ اسٹال یہاں لگایا ہے؟ میں نے کہا اجازت تو کسی سے نہیں لی البتہ اتنا عرض ہے کہ یہ سلسلہ فلاں علاقہ سے چلتا ہوا یہاں تک پنہچا ہے، وہاں تو مجھے کسی نے نہیں روکا تھا۔ کہنے لگا ابھی فورا یہ بند کرو اور میرے پاس کل آفس میں آجاؤ۔
میں دوسرے دن ایک عرضی لکھ کر ایس ڈی ایم صاحب کے آفس میں چلا گیا لیکن صاف محسوس ہو رہا تھا کہ صاحب کو قائداعظم سے شدید محبت ہے اور ان کی بلائیں لیے بغیر کام نہیں چلے گا۔
میں نے زندگی میں کبھی اپنے جائز کام کے لیے بھی رشوت نہیں دی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار لاہور گیا، واپسی پر ریل میں شدید رش تھا، سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ملی۔ قلی سرکار نے بلیک پر ٹکٹ آفر کیا لیکن میں نے انکار کردیا اور ملتان تک تقریبا پانچ چھ گھنٹے کا سفر کھڑے ہوکرطے کیا۔ یہ تربیت مجھے اپنے والدمرحوم کی طرف سے ملی تھی۔ انہوں نے بھی ساری زندگی نہ سود پر بینکوں سے کبھی قرضہ لیا اور نہ کسی افسر کو رشوت دی۔ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اگر کوئی اپنے جائز کاموں کے معاملہ میں صبر کرے، اللہ پر توکل کرے اور ڈٹ جائے تو کوئی مائی کا لعل اس سے رشوت نہیں لے سکتا۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جہاں رشوت کے بغیر کام چل سکتا ہے، وہاں بھی لوگ خود ہی رشوت پیش کردیتے ہیں۔ اور اس پلید چیز کا نام ‘‘چائے پانی’’ رکھ دیا ہے، جس سے کہ اس برے فعل کا نام سننے پر انسان کو جو گھن اور کراہیت آنی چاہیے وہ نہیں آتی۔ اسی لیے میرا خیال ہے کہ رشوت کے ظالمانہ نظام میں دینے والے بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں جتنے کہ لینے والے۔
قصہ مختصر، نہ میں نے رشوت پیش کرنی تھی اور نہ مجسٹریٹ صاحب نے اجازت دینی تھی۔ اس بات کا مجھے پہلے ہی اندازہ تھا لیکن میں تو اتمام حجت کے لیے گیا تھا۔ یوں میرے اوپر شہر میں کتب میلے لگانے کا یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔
چوں کہ میں اس کاروبار میں بہت آگے تک جا چکا تھا اور نہ صرف حیدرآباد بلکہ کراچی اور لاہو ر کے تمام بڑے پبلشرز سے کتب لے کر اچھا خاصہ اسٹاک جمع کرچکا تھا اس لیے اس کو بھی تو کسی صحیح انجام پر پنچانا تھا۔ لہٰذا میں نے شہر کے گرلز کالجز کی پرنسپلز سے رابطہ کرکے، کالجز کے اندر میلہ لگانے کی اجازت حاصل کی۔ یہ بات ان کو بڑی پسند آئی کہ اکثر لڑکیاں اس طرح کے کتب میلوں میں شریک نہیں ہو پاتیں اس لیے ان کے لیے یہ بڑا اچھا موقع ہوگا۔ مقررہ دنوں میں کالج کی لائبرری میں جگہ مختص کردی جاتی۔ میں اپنی ٹیم لے کر وہاں پنہچ جاتا اور کتب کو پورے ہال میں پھیلا دیتا۔ پھر باری باری مختلف کلاسز کی بچیوں کو وہاں لا یا جاتا جو اپنی اپنی پسند کی کتب خریدتیں۔ کالجز میں میلے لگانے میں ایک آسانی یہ رہتی تھی کہ اپنا فرنیچر وغیرہ لے جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، سب کچھ وہیں موجود ہوتا تھا۔ دو تین دن کتب میلہ جاری رہتا، پھر ہم اپنا اسٹاک اٹھا کر رخصت ہو جاتے۔
اس بزنس میں ایک معاملہ یہ بھی ہوا کہ چوں کہ میرے ساتھ کوئی بڑی ٹیم نہیں تھی اس لیے کتب چوری بھی بہت ہوتی تھیں، جس کا مجھے احساس تو تھا لیکن یہ معلوم نہ پڑتا تھا کہ کتنی چوری ہوئیں۔ مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ لطیف آباد کے ایک گرلز کالج میں کتب میلے کا پہلا دن ختم ہوا ۔ دوسرے دن میں بہت جلد، اسمبلی شروع ہونے سے بھی قبل اپنی ٹیم کے ساتھ کالج کے اندر تھا۔ کتب وہیں پر ڈبوں میں موجود تھیں جو ہم نے نکال نکال کر ٹیبلز پر رکھنا شروع کیں۔ اتنے میں کالج کی پرنسپل صاحبہ نے اسمبلی کے اختتام پر تقریر کرتے ہوئے کہا:
‘‘سب اسٹوڈنٹس جانتی ہیں کہ ہمارے کالج میں کل سے ایک کتب میلہ لگا ہوا ہے، کتنی اچھی اچھی کتب گھر بیٹھے ہمیں دیکھنےاور خریدنے کو مل گئی ہیں لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ کچھ لڑکیوں نے اسٹال سے کتب چوری کی ہیں جو بڑے افسوس کی بات ہے۔ اس سے میرا سر شرم سے جھک گیا ہے۔’’
میں نے تو کسی کو کتاب چوری کرتےنہیں دیکھا تھا اور نہ کسی کو شکایت کی تھی۔ یہ پرنسپل صاحبہ کے اپنے ذرائع تھے۔ اعلان سن کر میرے بھی کان کھڑے ہوگئے۔ جب سے میں نے یہ کام شروع کیا تھا کبھی اسٹاک کی گنتی نہیں کی تھی اس لیے معلوم بھی نہیں پڑ رہا تھا کہ کتنی کتب چوری ہوئیں۔ لیکن میرا یہ گمان ہے کہ کتب کی چوری صرف کالجوں ہی میں نہیں بلکہ باہر بھی لازما ہوئی ہوگی جس کا مجھے کبھی علم نہ ہوسکا۔
جب حیدرآباد کی مارکیٹ میرے لیے دھندلا گئی تو میں نے سوچا کہ اب کہیں باہر نکلا جائے۔ میں نے بہت لوگوں سے سن رکھا تھا کہ لاڑکانہ کے لوگ مطالعے کے بڑے شوقین اور کتب کے بڑے قدردان ہیں۔ لہاذا میں نے کتابوں کا سارا اسٹاک ڈبوں میں بند کرکے لاڑکانہ بلٹی کردیا اور کچھ دن بعد خود وہاں پہنچ گیا۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی یہ جان کر کہ واقعی لاڑکانہ کے لوگوں میں مطالعے کا رجحان نسبتا زیادہ تھا۔ لہٰذا میری کتب وہاں خوب فروخت ہوئیں۔ ابھی مجھے وہاں کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ ایک جاننے والے کی وساطت سے ایک صاحب وہاں آئے اور کچھ کتب خریں۔ پھر دو تین دن تک اسٹال کا وزٹ کرتے رہے۔ بالاخر انہوں نے مجھے آفر کی کہ تم یہاں کتب کی ایک دوکان کھول لو میں رقم لگاتا ہوں۔ میں چوں کہ گشتی کتب میلے کے مشکل انداز سے ویسے ہی تنگ آچکا تھا اور اس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ ڈہونڈ رہا تھا، اس لیے اس آفر کو اللہ کی طرف سے ایک نصرت سمجھ کر حامی بھر لی۔ کچھ ہی دنوں میں معاملات طے ہوگے ۔ میں نے دوکان ڈھونڈنا شروع کی اور چند ہی دنوں میں ایک کمرشل پلازہ کے میزنائن فلور پر ایک بڑی سی دوکان کرائے پر لے کر ساری کتب اس میں منتقل کردیں۔ کراچی اور لاہور کے پبلشرز سے نیا اسٹاک بھی منگوایا اور لاڑکانہ شہر کے باسیوں کے سامنے، شہر کی سب سے بڑے اور متنوع کتب خانے کا منظر پیش کر کے رکھ دیا۔
ابھی مجھے دوکان کھولے تین چار ماہ ہی ہوئے تھے کہ ان صاحب نے رقم کی واپسی کا مطالبہ شروع کردیا۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ ابھی تو کاروبار کا آغاز ہے اور دوکان اپنا خرچہ بھی بمشکل نکال رہی ہے۔ لیکن وہ نہ مانے ۔ میری جھگڑے کی عادت نہیں اس لیے وہ دوکان جیسی تھی جہاں تھی ان کے حوالے کرکے واپس حیدرآباد آگیا۔ بلکہ پبلشرز سے خریدی گئی کتب کے بل بھی میرے ذمے رہے جو میں نے بعد میں دبئی سے تھوڑے تھوڑے کر کے اتارے۔
پاکستان میں میرے روزگار کی یہ ‘‘مختصر’’ کہانی تھی، اس کے بعد دبئی کا سفر شروع ہوتا ہے۔
اس لیے، ۔۔۔۔۔۔ دیکھتے رہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اب کیا روزآنہ بتانا پڑے گا۔!!! 



نوکری یا کاروبار؟ [قسط 9]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاڑکانہ سے واپس حیدرآباد آنے کے بعدحالات سے مقابلہ جاری رہا۔ اب میری حالت اس تنکے کی سی ہو چکی تھی جسے پانی کا تیز بہاؤ اپنی مرضی سے لیے پھر رہا ہو یا پھر کاغذ کا وہ ٹکڑا جسے ہوا کا بگولہ اٹھا اٹھا کر پٹخ رہا ہو۔ یہ جنرل مشرف کی آمد اور شریفین کی روانگی کا وقت تھا۔ گویا کہ سارے ہی شریف مشکل میں تھے۔ :)  انسان  جب ہر طرف سے گھرجائے تو پھر اس کے پاس کوئی آپشن نہیں رہتا۔ بلکل اس طرح جیسے بلندی سے گرنے والے پتھر کے پاس کوئی چوائس نہیں رہتی، اس نے لامحالہ نیچے ہی جانا ہوتا ہے۔ اب میرا واحد ذریعہ معاش ایک آدہ ٹیوشن تھی جس سے تین ہزار کے قریب مل جاتا تھا۔ ظاہرہے کہ یہ رقم میرے کنبے کی ضروریات کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کی مانند تھی۔ پھر، پبلشرز کو واجب الادا ایک بڑی رقم کی ادائگی کا بھی مسئلہ تھا جو کہ پاکستان میں رہتے ہوئے ناممکن تھا۔  لہٰذا اب میرے پاس ملک سے باہر جانے کے علاوہ کوئی راستہ بچا ہی نہیں تھا۔ چھوٹے بھائی پہلے ہی  امارات میں تھے۔ انہیں ویزا بھیجنے کا کہا تاکہ وہاں قسمت آزمائی کی جائے۔ تھوڑے ہی وقت میں تین ماہ والا وزٹ ویزا آگیا ۔ کسی نے ویزا دیا کسی نے ٹکٹ۔ یوں ہم سرزمین امارات میں وارد ہوگئے۔ یہ سنہ ۲۰۰۱، فروری کا مہینہ تھا۔

یہاں آنے سے پہلے ہی ذہن میں تھا کہ گرافک ڈیزائننگ کی کوئی جاب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی کیوں کہ پاکستان میں اسی چیز کا تھوڑا بہت تجربہ تھا۔ سو پہلے ہی دن سے گلف نیوز اور خلیج ٹائمز کے کلاسیفائیڈز کو کنگھالنا شروع کردیا اور سی ویاں بنابنا کر فیکس کرنا شروع کردیں۔ ایک سو سیویاں بھیجنے پر ایک آدہ فون کال آجاتی تھی۔ لیکن تین ماہ میں انٹرویو کی کال کہیں سے بھی نہ آئی۔ اس دوران میں خود کئی دفاتر میں چل کر بھی گیا تاکہ وہاں اپنی سی وی ڈراپ کروں۔ لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ بالاخر وزٹ ویزا کا وقت ختم ہوا اور مجھے واپس وطن لوٹنا پڑا۔ جب تین ماہ مکمل ہونے پر میں واپس وطن جا رہا تھا تو مجھے یہ احساس شدت سے ہوا کہ مجھے اس دوران کچھ نہ کچھ کام کرنا چاہیے تھا تاکہ تھوڑی بہت آمدن ہوجاتی۔ لہٰذا جب دوسرے وزٹ پر آیا تو سیویز فیکس کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے شارجہ کے رہائشی علاقوں میں آدھے صفحہ پر مشتمل اشتہار ٹائپ کرکے مختلف جگہوں پر لگادیے جس میں لکھا گیا تھا کہ اگر  کسی نے گھر بیٹھے کمپیوٹر کی تعلیم لینی ہے تو رابطہ کرے۔ اس کے نتیجے میں مجھے ایک دو شاگرد مل گئے جن کو کمپیوٹر لٹریسی کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔ 

اسی دوران اخبار کے کلاسیفائیڈ سیکشن میں ایک کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کی طرف سے انسٹرکٹر کی جاب کا اشتہار شایع ہوا۔ یہ انسٹیٹیوٹ دبئی میں تھا جس کا مالک مالبار کا ایک انڈین تھا۔  میں وہاں پنہچ گیا۔ مالک نےسرسری سا انٹرویو لیا اور مجھے سیدھا لیب میں لے جا کر کھڑا کردیا اور کہا کہ ہمارا اصل ٹیسٹ یہاں ہوتا ہے۔ میں نے اسٹوڈنٹس کو سکھاناشروع کیا۔ جن میں انڈین، عرب اور افریقی شاگردتھے۔  وہاں شارٹ کورس ہوتے تھے اس لیے ہر ایک گھنٹے بعدشاگردوں کا  گروپ تبدیل ہوتا تھا۔ اس طرح میں نے نمازوں کے وقفے چھوڑ کر مسلسل دس گھنٹے پاووں کے بل کھڑے رہ کر اسٹوڈنٹس کو  پڑھایا۔ جب دن کا اختتام ہوا تو مالک نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کل سے آجائیں، آپ کی تنخواہ ایک ہزار درہم ماہوارہوگی، ڈیوٹی اسی طرح دس گھنٹے ہوگی، یہ آنے کا وقت ہوگا اور یہ جانے کا۔ کہتے ہیں بیکار سے بیگار بھلی۔ میرے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ کسی نے مجھے اینٹری دی ہے اور مجھے ایک نئے ملک میں تدریس کا تجربہ حاصل کرنے کا موقع دیا ہے۔ میں نے ویزا کا پوچھا تو جواب ملا کہ یہ آزمائشی دورانیہ ہے  اگر آپ نے ہمیں اس میں مطمئن کردیاتو ویزا دے دیا جائے گا۔ میں نے وہاں دو ماہ پڑھایا جس میں رمضان کا مہینہ بھی شال تھا۔ رمضان میں بھی ڈیوٹی کا دورانیہ تقریبا وہی رہا۔ حالت پتلی ہوجاتی تھی، کہ روزہ کھولنے کے فورا بعد کلاس کا ٹائم ہوتا تھا۔ پھر رات کو ۹ یا ۱۰ بجے گھر پنہچ کر کھانا کھانا، پھر صبح سحری کے لیے سویرے اٹھنا، یوں ہمیں سونے کے لیے صرف پانچ چھ گھنٹے ملتے تھے۔ لیکن کیا کرتا،  ڈیوٹی تو کرنی تھی۔ جب ایک ماہ سے کچھ دن اوپر ہوگئے تو میں نے تنخواہ کا تقاضا کیا لیکن میرے ہاتھ میں تین سو تھما دیے گئے۔ پھر ہفتہ بھر بعد یاد دلایاگیا،  پھر تین سو تھما دیے گئے۔ اس دوران دوسرا مہینہ بھی ختم ہونے کو تھا اور پچھلے ماہ کی تنخواہ بھی رہتی تھی۔ بڑی مشکل سے دو ماہ مکمل کرنے پر ایک ماہ کی تنخواہ وصول ہوئی۔

میں نے دل میں سوچا کہ اس طرح تو یہاں گذارا نہیں ہوگا۔  پھر بھی میں نے ویزا کی بات کی تو اس پر بھی ٹال مٹول اور آئندہ وزٹ پر دینے کا وعدہ ملا۔  میں سمجھ گیا کہ یہاں ہم جیسوں کی دال نہیں گلنے کی اس لیے رخصت لے لی۔  بقیہ تنخواہ کئی چکر لگوانے کے بعد ملی۔ یوں میرا دوسرا وزٹ بھی  رائیگاں گیا۔

جب میں دوسرے وزٹ کے بعد پاکستان گیا تو کچھ زیادہ وقت کے لیے رک گیا۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے ویب ڈزائننگ سیکھنی تھی تاکہ دبئی کے کسی انسٹیٹیوٹ میں یا کسی ویب سائٹ ڈزائننگ ہاؤس میں جاب مل جائے۔ یہ کام میں نے تین چار ماہ میں سیکھ لیا۔ اس کے بعد تیسرے وزٹ پر دبئی پنہچ گیا۔ جلد ہی ایک آئی ٹی کمپنی میں جاب مل گئ۔ کمپنی کا کام ویب سائٹس بنانا تھا اور میراکام ان ویب سائٹس میں فلیش پر بینر بنا کر لگانا تھا۔ یہ کمپنی ایک پاکستانی اور ایک انڈین کی شراکت داری پر تازہ تاہ قائم ہوئی تھی۔ مجھے کہا گیا کہ ہم آپ کو جلد ویزا بھی دے دیں گے۔ لیکن معلوم پڑا کہ خود کمپنی کو اپنی بقاء کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پاکستانی پارٹنر دبئی میں رہتا نہیں تھا اور انڈین پارٹنر سے کام سنبھالا نہیں جار ہا تھا اس لیے جلد ہی کمپنی بند ہوگئی اور نہ صرف میری بلکہ پورے اسٹاف کی تنخواہیں صدقہ ہوگئیں۔

اس بار میں جب پاکستان گیا تو تین چار ماہ لگا کر کمپیوٹر ہارڈویئر بھی سیکھ لیا تاکہ ہوسکتا ہےکہ اس میں ہی کوئی چانس مل جائے۔ ہوا بھی اسی طرح۔ مجھے اگلے وزٹ پر آتے ہی دبئی کی مین کمپیوٹر مارکیٹ میں ایک دوکان پر جاب مل گئی۔ لیکن ویزا نہیں ملا اور وزٹ پر ہی کام کرنا پڑا۔ مالک ایک ایرانی نوجوان تھا اور ایک اچھا انسان تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ اس بار تم جب پاکستان جاؤ گے تو میں تمہیں ویزا بھیج دوں گا۔ لیکن اس نے اپنا وعدہ نہ نبھایا۔ بلکہ جب میں ہفتہ بعد دوبارہ نئے وزٹ پر آیا تو میں نے دیکھا کہ اس نے ایک اور شخص کو رکھ لیا تھا۔ اس سے اگلے وزٹ پر بھی یہی ہوا۔ ایک بڑے کمپیوٹر انسٹییوٹ میں ویب ڈزائننگ کے کورس انسٹرکٹر کی جاب ملی لیکن وہ بھی فقط دو ماہ کے لیے۔ بعد میں میرا ویزا ختم ہوگیا اور واپس جانا پڑا۔

اوپر تفصیل سے حالات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سنہ دو ہزار ایک سے لے کر سنہ دو ہزار چار تک میں نو بار وزٹ پر آیا۔ چھوٹی موٹی جابز مل جاتیں، میں ویزا کے آسرے پر کام شروع کر دیتا، اسی دوران وزٹ کا ٹائم ختم ہوجاتا  اور مجھے واپس جانا پڑتا۔
سنہ ۲۰۰۴ کے اوائل  کی بات ہےنکہ ایک دن صبح نیند سے بیدار ہوا اور ہاتھ منہ دھو کر ناشتے کے لیے باہر جانے لگا تو جیب پہ ہاتھ مارا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جیب میں کچھ سکے ہیں۔ لیکن نہیں تھے۔ ایک چائے اور پراٹھا اس زمانے میں صرف ایک درہم کے ملتے تھے، لیکن میرے پاس ایک درہم نہیں تھا۔ سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کروں۔ واپس روم پر آیا۔ جاب تلاش کرتے وقت کاغذات کے لیے جو تھیلا اپنےساتھ رکھتا تھا، وہ لیا۔ ایک اسکرو ڈرائیوار وہیں کہیں پڑا تھا وہ اٹھاکر اس تھیلے میں رکھا اور باہر نکل گیا۔ شارجہ کا الاتحاد روڈ جو دبئی شارجہ کو ملاتا ہے ایک بڑا کاروباری مرکز ہے۔ روڈ کے دونوں اطراف بڑی بڑی عالیشان دوکانیں ہیں۔ میں ایک سرے سے شروع ہوا، ہر دوکان پر کمپیوٹر تو ہوتا ہی ہے، میں نے بتانا شروع کیا کہ میں کمپیوٹر ٹھیک کرتا ہوں ، اگر آپ کے کمپیوٹر میں کوئی پرابلم ہے تو میں حاضر ہوں۔ یہ پہلی بار تھا کہ میں بجائے جاب تلاش کرنےکے کمپیوٹر رپیئر کا کام تلاش کر رہا تھا۔ کوئی پندرہ بیس دوکانوں کے بعد جب ایک دوکان پر گیا تو وہاں ایک عرب جوان نظر آیا، میں نے  اسے اپنا تعارف کروایا۔ اس نے کہا کہہ یہاں دوکان والا کمپیوٹر تو ٹھیک کام کر رہا ہے لیکن میرے گھر پر جو کمپیوٹر ہے اس میں کوئی مسئلہ ہے اگر تم دیکھ سکو۔ میں نے کہا مجھے لے چلو میں دیکھ لیتا ہوں۔ اس نے کہا ابھی نہیں، ابھی تو میں ڈیوٹی پر ہوں، بارہ ساڑھے بارہ بجے کے قریب آجاؤ  تو ہم ساتھ چلے چلیں گے، یہیں پچھلی گلی میں میرا گھر ہے۔  میں نے کہا ٹھیک ہے۔ جب تک میں مارکیٹ کا چکر لگا کر آتا ہوں۔ اس طرح جب دیا گیا وقت قریب آگیا تو میں اس کے پاس واپس آیا۔ وہ مجھے فورا انے گھر لے کر گیا اور اپنا کمپیوٹر دکھایا۔ میں نے بیگ سے اسکرو ڈرائیور نکال کر کور ہٹایا ۔ مالک سے پوچھا اس میں کیا مسئلہ ہے؟ کہنے لگا کہ آن نہیں ہوتا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا مسئلہ تھا، اس کو دو منٹ میں ٹھیک کردیا۔ اس نے پوچھا کتنے دوں؟  اندازہ لگائیں اس شخص کا جس کی جیب میں ایک درہم بھی نہیں ہے اور جس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا، اس کے لیے تو دس درہم بھی بہت ہیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا پچیس درہم دے دیں۔  اس نے جیب سے تیس درہم دیتے ہوئے کہا: جاؤ عیش کرو۔ میرے پاس  وہ الفاظ نہیں کہ میں بتاسکوں کہ مجھے کتنی خوشی ہوئی تھی وہ تیس درہم اپنے ہاتھ میں لے کر۔ میں فورا باہر نکلا، قریبی تندور والے سے روٹی خریدی اور سالن لے کر کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔

دوپہر میں ایک سے چار بجے تک یہاں ہر چیز بند ہوجاتی ہے۔ جیسے ہی وقفہ ختم ہوا میں پھر وہ بیگ لے کر دوسری طرف نکل گیا۔ مغرب تک کوئی کام نہ ملا لیکن مغرب کے بعد ایک دوکان والے نے کہا کہ میرے اسکینر میں کوئی مسئلہ ہے آپ وہ ٹھیک کرسکتے ہیں؟ میں نے دیکھا، فالٹ مجھے پتہ چلا گیا اور پندرہ بیس منٹ میں وہ میں نے ٹھیک بھی کردیا۔ اس نے مجھے جیب سے پچاس درہم نکال کر دیے۔ یوں میں نے جب ایک ہی دن میں ۸۰ درہم کما لیے تو میرا دل بہت بڑا ہوگیا اور میں نے سوچا کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ کام  بھی چل سکتا ہے۔  اس دن کے بعد میں نے کبھی جاب کی کوشش نہیں کی اور اللہ نے میرے کام میں ایسی برکت ڈالی کہ کچھ ہی عرصہ میں بالاخر میں اپنی کمپنی قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

دسویں قسط، جو کہ میری زندگی کے معاشی سرگذشت سے متعلق آخری قسط ہوگی، اس میں ہم کمپنی کے قیام اور اس کے بعد کے مراحل پر بات کریں گے اور اس کے بعد سلسلہ مضمون کے اصل موضوع یعنی ‘‘نوکری یا کاروبار؟’’  کی طرف لوٹیں  گے۔ 

جڑے رہیے اور دیکھتے رہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب تو بتانے کی ضرورت نہیں بھائیو؟



نوکری یا کاروبار؟ [قسط 10]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب دیکھا کہ میری مارکیٹنگ سے  کچھ نہ کچھ کام چل پڑا ہے تو میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب جاب نہیں کرنی ۔ یہاں مجھےکمپیوٹر ہارڈویئرکا ہنر خوب کام آیا۔ میں صبح ہوتے ہی اپنا ٹول باکس لے کر شارجہ کے انڈسٹریل ایریا کی طرف پیدل چل پڑتا اوروہاں موجود دوکانوں کی لمبی قطاروں کو ایک ایک کر کے نماٹاتا ۔ کبھی اسی وقت کام مل جاتا توکبھی کسٹمر بعد میں بلا لیتے۔ جو لوگ امارات میں مقیم ہیں یا یہاں کی گرمی دیکھ چکے ہیں انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ پچاس اور باون ڈگری کی تپتی دوپہر کتنی کراری ہوتی ہے۔ لیکن یہ محض میرے مولا کا کرم ہے کہ  میرے جنوں  اور جذبہ نے موسم کے غضب اور غصہ کے وار اپنے چہرے کی مسکراہٹ سے پلٹ کر رکھ دیے۔ لوگ دوپہر کے وقفہ کے اوقات میں دوکانوں کے شٹر گراکر، اے سی گاڑیوں میں بیٹھ کر، ٹھنڈے کمروں میں جا پڑتے اور میں کسی مسجد کا کونا پکڑ کر بازارکھلنے کا انتظار کرتارہتا۔ رمضان کے مہینے میں بھی میرا یہی معمول رہا۔ جیسے ہی مغرب کی آذان  کی آواز کان میں پڑتی تو کسی کیفیٹریا  کی طرف دوڑ پڑتا، جہاں ٹیبلوں پر شیشے کے گلاسوں میں لال شربت، پلیٹوں میں دو چار پکوڑے اور ایک قاش سیب یا کینو کی موجود ہوتی۔

گذرے دنوں میں جاب سرچنگ کے دوران، ایک کمپنی میں انٹرویو کے لیےدبئی جانا ہواتھا جہاں کچھ امیدوار اپنی باری کے انتظار  میں تھے۔ انہی میں ایک ظفر نامی جوان تھا جو نیٹ ورکنگ اور آئی ٹی کے کام کا ماہر تھا۔ بیٹھے بیٹھے تعارف ہوا ۔ اس نے بتایا کہ وہ شارجہ سے آیا ہے اور انٹرویو سے فارغ ہوکر واپس  جائے گا تومیں بھی اس کے ساتھ چپک گیا  اور واپسی میں اسی کی گاڑی میں بیٹھ کر شارجہ آیا۔ بعد میں وہی تعارف، تعلق اور دوستی میں بدل گیا اور ہم اکثر شارجہ میں ملتے رہتے تھے۔ ایک دن ملاقات کے دوران اس نے بتایا کہ اگر کوئی شخص پرنٹرز میں استعمال ہونے والے کارٹرج ریفل کرنے کا کاروبار کرے تو اس کا اچھا گذارا ہوسکتا ہے۔ بس ، میں نے اس کی وہ بات اپنے پلو سے باندھ  لی۔ دوتین روز تک کارٹرجز کے بارے میں معلومات اکھٹی کیں اور پھر اسی کام میں لگ گیا۔ کچھ ہی دنوں کی مارکیٹنگ سے میں نے اندازہ لگالیا کہ واقعی اس کام میں اچھا پوٹینشل ہے اور اگر مزید توجہ دی جائے تو بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اب مجھے اس کام میں زیادہ لطف آنے لگا کیوں کہ اس میں زیادہ دردسری نہیں تھی۔ادھر کارٹرج لیا،  ادھربھروا کر  واپس دے دیا، کام ختم پیسہ ہضم۔ کمپیوٹر کے کام میں یہ ہو رہا تھا کہ وقت بہت زیادہ لگتا تھا اور معاوضہ اتنا نہیں ملتا تھا۔ کام ختم کرنے کے بعد بھی کسٹمر کسی نہ کسی بہانے بلا لیتا تھا۔ یعنی بعد میں اسے سکھانا بھی پڑتا تھا کہ کمپیوٹر کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔

میں جب شارجہ  کا انڈسٹریل ایریا مکمل کرچکا تو دبئی جانا شروع کردیا جہاں دن  بھر مارکیٹنگ کرتا اور شام کو واپس شارجہ آجاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہتری کا گراف اونچا ہونا اسی دن شروع ہوگیا تھا جس دن میں شارجہ سے دبئی منتقل ہوا تھا۔ یہاں اللہ نے بڑا کھلا رزق  رکھا تھا اور میرا کام توقع سے بھی زیادہ  تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔  جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ اگر اپنا لائسنس لے کر یہ کام کیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ انہی دنوں میری ملاقات کسی محفل میں ایک دوست سے ہوئی جو اس وقت کہیں جاب کرتے تھے لیکن میری طرح کوئی لائسنس بناناچاہتے تھے۔ ان کا کام بھی فوٹوکاپئیر مشینیں رپئیر کرنا وغیرہ تھا۔ ہم دونوں نے سوچا کہ ہمارا کام تو ملتا جلتا ہے کیوں نہ الگ الگ لائسنس لینے کے بجائے مل کر ایک ہی کمپنی کھول لی جائےاورہم دونوں اپنا اپنا کام کریں،  طے ہوا کہ ایسا ہی کریں گے۔ چند دنوں میں ہم نے آفس کے لیے جگہ ڈھونڈ لی اورمیرے ایک دوست کی وساطت سے ایک مقامی بزرگ خاتون کو کفیل بنا کر اپنا لائسنس حاصل کرلیا۔ یہ دسمبر ۲۰۰۴ کی بات ہے۔

جب ہم نے  لائسنس حاصل کرلیا اور آفس میں باقاعدہ کام شروع  ہوگیا تو میں نے آوٹ ڈور مارکیٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان دنوں چائنا سے بیٹری پر چلنے والی سائیکلیں نئی نئی آئی تھیں جو ویسپا اسکوٹر کی طرح دو چھوٹےچھوٹے پہیوں والی تھیں۔ میں نے ویسی ہی ایک سائیکل تین سو درہم میں خریدی اور اب پیدل کے بجائے ہرجگہ اسی پر جاتا۔  کمپنی کا لائسنس حاصل کرنے کے بعد اس سائیکل کا میری کامیابی میں بڑا دخل تھا۔ جو چھوٹی سی تھی اور دکھنے میں بھی شرارتی ٹائپ کی تھی۔ ایسی دلچسپ کہ جہاں سے گذرتا لوگ راستے میں روک لیتے اور انٹرویو شروع کردیتے۔ او بھائی! کتنے کی خریدی ہے؟ کدھر  سے ملتی ہے؟ بیٹری کتنی دیر چلتی ہے۔ اگر میں انڈیا بھیج دوں تو کیسا رہے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں اس چیز سے بڑا  عاجز آیا ہوا تھا۔ ارے بھائی میں کہیں کام سے جارہا ہوں، ابھی چھوڑو ۔ مرشد بازار سے جا کر خرید لو۔ لیکن لوگ نہیں مانتے تھے بعض سائیکل کے ہینڈل کو پکڑ لیتے  تو بعض ساتھ ساتھ دوڑتے سوال وجواب کرتے جاتے تھے۔ ایک سے جان  چھڑاکر تھوڑا اگے بڑھو تو کوئی دوسرا روک لیتا، پھر تیسرا ۔ ایک نے تو حد کردی۔ میں کسی کسٹمر کی کال پر جا رہا تھا کہ سامنے ٹانگیں کھول کر راستہ روکنے کے اسٹائل میں کھڑا ہوگیا، جیسے مجھے بچپن سے جانتا ہو۔ میں نے دور سے کہا ہٹ جاؤ بھائی، میں جلدی میں ہوں۔ اور  سائیڈ سے نکل کر سائیکل بھگائی۔ بتاؤں اس نے کیا سوال پوچھا؟‘‘ بھائی اس کو چلانے میں مزہ آتا ہے؟’’۔ اسی طرح ایک بار زیبراکراسنگ پر لوگ  سگنل گرین ہونے کے انتظار میں کھڑے تھے کہ میں بھی اپنی چنی منی سائیکل پر سوار وہاں جا رکا۔۔۔۔ وہیں، عبایہ میں ملبوس ایک عرب خاتون بھی اپنی لڑکی کے ساتھ کھڑی تھی۔ جب اس نے مجھے ایک چھوٹی سی سائیل پر بیٹھا دیکھا تو اپنی بیٹی کی طرف منہ کرکے بڑبڑائی: ‘‘شو ہٰذا مسخرہ؟’’ [یعنی یہ کیا مذاق ہے]۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی۔ اس سائیکل نے میرا چار سال تک ساتھ دیا۔ تاآں کہ سنہ ۲۰۰۸ میں مجھے گاڑی کا لائسنس نہیں مل گیا۔

لائسنس ملنے کے بعد، آج ۱۱ برس گذرنے پر جب میں خود کو دیکھتا ہوں تو مالک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے بہت سے لوگوں سے اچھا رکھا ہے اور مجھے حلال اور طیب رزق دیا ہے۔  یہ فقط  اسی رحیم ذات کا احسان ہے کہ مشکل حالات میں بھی میں کبھی اس کی ذات سے مایوس نہیں ہوا، نہ قسمت کو برا بھلا کہا، نہ اس کی ذات سے بدظن ہوا۔ مالک ہی وہ ذات ہے جس نے میرے کام میں برکت ڈالی، شروع میں خود ہی سارے کام کرتا تھا۔  خود ہی سیلزمین،  پرچیزر، آفس مینیجر، ریفل ٹیکنیشن، ڈلیوری بوائے آفس بوائے تھا۔ رفتہ رفتہ برکت ڈلتی گئی، کام تقسیم ہوتے گئے، آج،  الحمدللہ پانچ چھ افراد کی ٹیم ہے، ہر  شخص محنتی ہے اور اپنے اپنے کام میں لگا ہوا ہے،  سوائے ایک بیکار شخص کے۔۔۔۔بھلا کون ؟ ۔۔۔۔۔ بوجھو تو جانیں!

نوٹ:۔ میں نے ‘‘مختصرا’’ اپنی زندگی کے معاشی پہلوؤں کی ان خاص خاص باتوں کا تذکرہ کیا ہے جن کی بنیاد پر ہماری آئندہ کی  گفتگو کا دارومدار ہے۔  انشاء اللہ اگلی قسط میں اب تک بیان کی گئی سرگزشت پر تبصرہ ہوگا اور اس کے بعد دیگر باتیں۔




نوکری یا کاروبار؟ [قسط 11]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے میری زندگی کے معاشی سفر کی داستان سن لی۔ اس میں بیان کئے گئے حالات اور واقعات سوفیصد سچ پرمبنی ہیں۔ آپ کے سامنے جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ محض جھلکیاں ہیں اس طویل سفر کی جو سنہ ۹۵ سےلیکر ۲۰۰۴ تک جاری رہا، جس کا مسافر صرف میں اکیلا فرد ہی نہیں تھا بلکہ میری پوری فیملی بھی اس میں میرے ساتھ تھی۔ میرے بچے، میری بیوی، میری بوڑھی والدہ، میرے چھوٹے بھائی اور بہنیں۔۔۔سب نے وقت کی بے رحم موجوں میں غوطے کھائے۔ زندگی کا سفر تو اب بھی جاری ہے اور آج بھی میں اپنے آپ کو کوئی کامیاب انسان تصور نہیں کرتا کہ ابھی بہت سی منازل طے کرنی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ لیکن یہ اللہ کا شکر ہے کہ میں ایمرجنسی وارڈ سے جنرل وارڈ کی طرف منتقل ہوچکا ہوں اور مزید بہتری کے لیے کوششیں ہنوز جاری ہیں۔
آج اگر کوئی ایسی ٹیکنالوجی ایجاد ہوجائے کہ جو مجھے سنہ ۲۰۱۵ سے اٹھا کر سنہ۱۹۸۵میں لے جائے اور پوچھے کہ تم کس طرح آئندہ کی منازل طے کرو گے تو میں درج ذیل خاکہ اس کے سامنے رکھ دوں گا:
۱۔ میں سب سے پہلے اپنی تعلیم پر توجہ دوں گا۔ والد صاحب بقیدِحیات ہیں اور گھر کی ساری ذمہ داری انہوں نےخود اٹھا رکھی ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے جو فراغت، مہلتِ عمل اور جسمانی و ذہنی قوت اور صحت دے رکھی ہے ان کو میں اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے صرف کروں گا۔ یہی وہ بڑی حقیقت ہے جس کو حضورﷺنےنہایتمختصرمگرجامعالفاظمیںبیانفرمادیاہےکہ:
"پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو.!
۱) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے
2) صحت کو بیماری سے پہلے
3) مالداری کو تنگدستی سے پہلے
4) فرصت کو مشغولیت سے پہلے
5) زندَگی کو موت سے پہلے"
(المستدرک جلد#5، صفحہ#435، حدیث#7916)
یقین جانیں مجھے اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید حضورﷺکایہفرمانخاصمیرےلیےہے۔
۲۔ میں اپنے وقت کو فضول کاموں میں خرچ نہیں کروں گا۔ ہر انسان کو دوستیاں رکھنے، کھیل کود میں حصہ لینے اور تفریح حاصل کرنے کا حق ہے، بلکہ یہ صحت کے لیے ضروری بھی ہے لیکن یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ میں دن کے چھ سات گھنٹے کرکٹ کھیلوں، شام کے تین چار گھنٹے کرکٹ پر تبصرہ کروں اور دوستوں کے ساتھ بے مقصد اور فضول گپ شپ لگاؤں۔ مجھے پتہ ہونا چاہیے کہ وقت ہی سب کچھ ہے اور یہی انسان کو بادشاہ اور فقیر بناتا ہے، یہ ہر ایک کو یکساں عطا ہوا ہے اور اس کے لیے انسان نے کوئی قیمت ادا نہیں کی ہے۔ یہ ایک بلینک چیک ہے جس پر میں نے اپنے ہاتھ سے رقم لکھنی ہے۔ اب یہ میرے اوپر منحصر ہے کہ میں اس پر ایک سو روپے لکھتا ہوں، ایک لاکھ لکھتا ہوں یا پھر ایک ملین لکھتا ہوں۔
۳۔ میں اپنی زندگی اللٹپ نہیں گذاروں گا، بلکہ اس کے لیے پلان اور منصوبہ بناؤں گا۔ منصوبہ کے لیے وژن سب سے ضروری چیز ہے۔ اس لیے سب سے پہلے میں اپنا وژن واضح کروں گا۔ پھر ہدف مقرر کروں گا، پھر اس کےحصول کے لیے وسائل مہیا کروں گا۔ پھر وسائل اور وقت کا درست استعمال کرتے ہوئے اپنے ہدف کی طرف پیشقدمی کروں گا۔ گاہے بہ گاہے رک کر اپنی کارکردگی کا جائزہ لوں گا، طے شدہ سفر کو دیکھوں گا کہ کیسا رہا، بقیہ سفر کے رخ کو پرکھوں گا کہ آیا میں ٹھیک سمت کی طرف جارہا ہوں کہ نہیں۔ ماضی کے سفر میں رہ جانے والی خامیوں کو دور کروں گا اور آئندہ ان سے بچنے کی کوشش کروں گا۔
۴۔ میری جستجو میں دوام، قرار اورٹہراؤ ہوگا۔ میں ہر دوتین سال بعد گاڑی کا رخ تبدیل نہیں کروں گا، صبر، ہمت اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف پیش قدمی جاری رکھوں گا۔ میرا ہدف اول تا آخر ایک ہی ہوگا، باربار ہدف تبدیل نہیں کروں گا۔
۵۔ میں اپنے معاملات میں آگے بڑھنے سے قبل اور خاص طور پر بڑے اور اہم فیصلے کرنے سے پہلے نہ صرف اچھی طرح سوچ بچار کروں گا بلکہ اہل علم اور صائب الرائے افراد سے بھی ضرور مشورہ مانگوں گا۔ (لمحوں نے خطا کی ہے، صدیوں نے سزا پائی ہے) وہ کام جو میرے اور میرے وابستگان کے اوپر دوررس اثرات مرتب کرسکتے ہیں ان کے بارے میں فیصلہ کرنے سے قبل نہ صرف انسانوں سے مشورہ کروں گا بلکہ اس سے بھی مشورہ (استخارہ) کروں گا جو ہر ظاہر اور پوشیدہ چیزوں کا، ماضی، حال اور مستقبل کا مکمل اور درست علم رکھتا ہے۔ جو مجھ سے میری ماں سے زیادہ محبت کرتا ہے اس لیے مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے غلط رخ پر ہرگز نہیں ڈالے گا۔
۶۔ اگر کسی وجہ سے میری تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا اور مجھے کام کرنا پڑ جائے گا تو میں اپنے بل بوتے اور اپنے وسائل پر کرنے کی کوشش کروں گا۔ اگر میں بزنس کے لیے وسائل مہیا کرسکا تو اچھی بات ورنہ دوسروں کی رقوم سے کاروبار کرنے پر نوکری کو ترجیح دوں گا اور اپنا جہاں آپ پیدا کروں گا۔ اس میں جلد بازی کے بجائے محنت، مستقل مزاجی اور صبر درکار ہوگا جو میں انشاء اللہ کروں گا۔
۷۔ اگر مجھے نوکری ہی کرنی پڑی تو میں اپنی فیلڈ اور اور پنے سبجیکٹ سے میل کھاتی نوکری کروں گا۔ دوسری فیلڈ کی نوکری میں چاہے کچھ معاوضہ زیادہ مل رہا ہو لیکن میری ترجیح ہوگی کہ اپنے ہی میدان کا شہ سوار بنوں نہ کہ دوسرے میدان کی بلی۔ میں ہرفن مولا بننے کے بجائے کسی ایک فیلڈ میں مہارت اور تخصص حاصل کرنے کو ترجیح دوں گا، کہ جیک آف آل کی حالت آج کے دؤر میں گاڑی کی اسٹپنی کی سی ہوتی ہے کہ مالک نے پنکچر ہونے والے ٹائر کی جگہ لگا دی اور کام چلالیا۔
چلیں اب سنہ ۸۵ سے نکل کر آج کے دؤر میں واپس آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ میں نے کہاں کہاں غلطی کی اور اس غلطی سے کیسے بچا جاسکتا تھا۔
غلطی نمبر۱:
میں نے میٹرک کے بعد مزید تعلیم میں دلچسپی لینے کے بجائے وقت گذاری کی اور انٹرمیڈیٹ سائنس میں اس کالج میں داخلہ لیا جس کی کرکٹ کی ٹیم اچھی تھی تاکہ میں اس کالج کی کرکٹ ٹیم کی طرف سے کھیل کرانٹرکالجیٹ ٹورنامینٹ میں حصہ لوں۔ اس زمانہ میں ہمیں عمران خان، میاں داد اور ظہیر عباس بننے کا شوق تھا۔ ہمارے میٹرک کے کلاس ٹیچر ہمیں سمجھاتے تھے کہ پورے ملک سے صرف سولہ افراد قومی کرکٹ ٹیم میں منتخت ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی گیارہ کھیلتے ہیں۔ تم لوگ کیوں اپنا وقت برباد کر رہے ہو، ایسے خواب دیکھنا چھوڑ دو، لیکن ہم پر ان نصیحتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ یہاں کرکٹ ایک استعارہ سمجھ لیں۔ جو جو نوجوان آج کسی بھی کھیل یا مشغولیت میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں وہ دراصل اپنی تعلیم اور کیریئر کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ کھیل اور دوستیوں کو ایک محدود دائرے میں رہنا چاہیے اور اس سے باہر نہیں نکلنے دینا چاہیے۔ کھیل اور تفریح کا وقت صرف عصر تا مغرب مقرر کردیا جائے تو ایک اصول وضع ہوجائے گا اور کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔
غلطی نمبر۲:
انٹرکامرس میں بورڈ میں ٹاپ کرنے کے باوجود میں نے تعلیم کو جاری رکھنے کے بجائے جاب کرلی۔ جب کہ وہ وقت تھا کہ میں جاب چھوڑ کر پہلے اپنی تعلیم مکمل کرلیتا۔ انٹرکے بعد بی کام اور ماسٹرس کرتا اور اس سے بھی آگے کی منازل طے کرتا لیکن افسوس کہ پوزیشن کی رومانویت اور تعریف و توصیف کے ماحول نے مجھ سے ایک غلط فیصلہ کروالیا۔ ہاں ان لوگوں کو ضرور جاب کرنی چاہیے جن کے پاس آمدن کا کوئی اور ذریعہ نہیں یا واقعی اس کے بغیر گذارہ نہیں لیکن میرا کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا، اللہ کا دیا ہوا کافی تھا اور کسی قسم کی ذمہ داری بھی نہیں تھی۔
غلطی نمبر۳:
والد صاحب کی وفات کے بعد آبائی زمین کا فروخت کرنا۔ اور یہ ہی سب سے بڑی اور بنیادی غلطی تھی جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جارہے ہیں۔ وجہ اس کی اس کے علاوہ کوئی اور نہیں تھی کہ ہم شہر میں رہنے والے کس طرح ایک سو میل دور جا کر زمین سنبھالیں گے۔ اس لیے اس کو بیچ کر نزدیک ہی شہر میں کوئی بزنس کرلیاجائے۔ حالانکہ یہ کوئی درست اپروچ نہیں تھی۔ اگر کسی وجہ سے کوئی زمین نہیں بھی سنبھال سکتا تو فروخت کرنے کے بجائے دوسرے آپشن بھی موجود ہیں۔ لیکن چوں کہ سوچ پختہ نہیں تھی اس لیے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی۔ اور آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ رجحان صرف ہمارے اندرہی نہیں تھا بلکہ آج کے اکثر نوجوانوں کے اندربھی پایا جاتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ کے قصوروار والدین بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زمین کے کام کاج میں اولاد کو شامل نہیں کرتے جس کی وجہ سے اولاد کو زمین کے کام میں دلچسپی نہیں رہتی اور وہ وہی کرتی ہے جو ہم نے کیا۔
دوسری وجہ زمین اور اس طرح کی پراپرٹی کی قدروقیمت کا احساس نہ ہونا ہے۔ جو چیز مفت میں ملتی ہے اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ جیسے ہمیں اسلام کی کوئی قدر نہیں۔ اسلام کی قدر ان سے پوچھیں جو کسی کافر سوسائٹی میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور پھر سوچ سمجھ کر ایمان قبول کیا۔ لہٰذا، آج جو والدین چاہتے ہیں کہ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بیٹے زمین نہ بیچیں، وہ ابھی سے ان کو زمین کے کام میں ملوث کریں، ان کے حوالے کچھ کام کریں۔ بلکہ اگر زمین کا کوئی پانچ دس ایکڑ کا ٹکڑا ہر بیٹے کو نگرانی کے طور پر الگ الگ دے دیں کہ تم نے اپنے اپنے حصے کے سارے کام اور انتظامات کرنے ہیں تو زیادہ بہتر رہے گا۔ پھر چاہے والد ان کی مدد کرتا رہے لیکن ان کو ضرور اپنی زندگی ہی میں اس کام پر لگادے۔
غلطی نمبر۴:
کسی ایک میدان کے بجائے بہت سارے میدانوں کا سوار بننا جس کو انگریزی میں جیک آف آل اور اردو میں ہرفن مولا کہتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ میں نے سنہ
۸۵ سے لیکر ۲۰۰۴ تک کوئی دس قسم کے کام کئے، جن میں سے کچھ کا ذکر اپنی کہانی میں طوالت سے بچنے کے لیے نہیں کیا۔ سب سے بڑی زیادتی یہ ہوتی ہے کہ آدمی تعلیم ایک چیز کی حاصل کرے، فنی مہارت دوسری چیز میں حاصل کرے اور نوکری کسی تیسری چیز کی کرے۔ میں نے کامرس کی تعلیم حاصل کی، لیکن اکاؤنٹنگ کی جاب صرف ادبی بورڈ والی تھی باقی جتنے بھی کام تھے وہ میں نے اپنے ذوق اور کوشش سے سیکھ کر کیے۔ آئی ٹی کی فیلڈ میرے لیے بلکل نئی تھی لیکن مجھے اس کو سیکھنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ میں سیلف اسٹڈی کرکے اور کچھ دوستوں سے مدد لے کر اس میں سے کچھ سیکھا۔ لیکن اس چیز کا میری بی کام کی ڈگری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
غلطی نمبر۵:
میں نے جب زمین ٹھیکہ پر لی یا کتب کا کاروبار کیا تو دوسروں کے سرمائے پہ انحصار کیا۔ جو سرمایہ لگاتا ہے اس کی اپنی نفسیات اور اپنے مطالبے ہوتے ہیں وہ کسی وقت بھی آپ سے سرمایہ کی واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ آپ سوچیں کہ ایسی حالت میں آپ کہاں کھڑے ہوں گے؟ یہ غلطی میں نے بیان کردہ سرگزشت میں دو بار کی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
غلطی نمبر۶:
عارضی رلیف کے عمل کو مستقل حیثیت دے دینا۔ آپ نے دیکھا کہ جس کیفیت میں میں نے کتب کا اسٹال لگایا تھا وہ ایک ایمرجنسی اور عارضی ریلیف کا کام تھا۔ لیکن میں نے اس کو مستقل کاروبار کی شکل دے دی جو کہ پاکستان جیسے ملک کے ماحول میں تقریبا ناممکن تھا۔ جب کسی کی جان بچانے کے لیے آکیسجن ماسک لگایا جائے اور وہ شخص کہے کہ ڈاکٹر صاحب اب بہت بہتر محسوس ہورہا ہے، سانس بھی ٹھیک طرح آ اور جا رہی ہے اور اسی ماسک کو لے کر وہ اسپتال سے باہر نکل آئے اور معمول کی زندگی گذارنے کی کوشش کرے تو اسے دانشمندی نہیں کہا جاسکتا۔ عقلمندی اور دانش کا تقاضہ ہے کہ ریلیف اور ایمرجنسی کو ایک حد تک ہی رکھنا چاہیے اور اس سے جتنا جلد ممکن ہو نجات کی تدبیر کرکے معمول کی زندگی کی طرف پلٹنا چاہیے۔
۷۔ غلطی نمبر۷:
بڑے اقدام اٹھانے سے پہلے خوب غور او مشورہ۔
بڑے اقدامات اور بڑے فیصلے کرنے سے پہلے خوب سوچنا سمھنا اور غورو خوض کرنا چاہیے تھا جبکہ ایسا نہیں ہوا۔ بڑے فیصلوں سے میری مراد وہ فیصلے ہیں جن کے اثرات انسان کی پوری زندگی پر محیط ہوتے ہیں۔ تعلیمی کیریئیر کا انتخاب، جائیدادوں کی خریدوفروخت، نوکریوں کا پانا یا چھوڑنا، کسی کاروبار کی ابتداء یا اختتام، اپنی شادی یا بچوں کے رشتے، ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہونا وغیرہ یہ سب وہ اقدامات ہیں جن کے اثرات انسان کی پوری زندگی پر پڑتے ہیں اور ایک غلط قدم کا خمیازہ آخر وقت تک بھگنا پڑتا ہے۔ زندگی کی فلم کی ریل پر یہ وہ فریم ہیں جو دوبارہ واپس یا روائنڈ نہیں کیے جاسکتے۔
یہ وہ چند اہم باتیں تھیں جن کا تذکرہ کرنا اس لیے ضروری تھا کہ جن لوگوں نے میری روداد صرف کہانی کے طور پر پڑھی ہے اور جن کا دھیان ان اہم باتوں کی طرف نہیں گیا وہ ایک بار پھر اچھی طرح یہ چیزیں دیکھ لیں۔ کیوں کہ کہانی بیان کرنے کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ جو غلطیاں مجھ سے ہوئی ہیں ان سے ہمارے دیگر بھائی بالعموم اور میرے اقرباء بالخصوص بچنے کی کوشش کریں۔
آئندہ کی قسطوں میں کچھ ٹیسٹ کیس لے کر ہم یہ بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ کاروبار اور نوکری میں سے کسی ایک کا انتخاب یا دونوں سے مستفید ہونے کے لیے کیا شرائظ ہیں اور کن لوگوں کو کاروبار کی طرف جانا چاہیے، کن لوگوں کو صرف نوکری پر اور کب تک اکتفا کرنا چاہیے مزیدبرآں یہ کہ کن لوگوں کو نوکری اور کاروبار، دونوں کرنے چاہیئں۔ [جاری]
















نوکری یا کاروبار؟ [ قسط12 ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اب تک جو بھی گفتگو کی ہے وہ کسی ماہر معاشیات اور بزنس پلانر کی حیثیت سے نہیں کی ہے بلکہ محض اپنی زندگی کے تجربات آپ کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔ اس سیرز کے لکھنے کے دوران مجھ سے انباکس کئی لوگوں نے رابطے کیے ہیں، اور جو امارات میں مقیم ہیں ان میں سے بعض نے ملاقات بھی کی ہے یا فون پر بات کی ہے۔ ایک نوجوان نے لندن سے رابطہ کیا کہ مجھے کچھ رہنمائی چاہیے ۔ اس سے بھی خاصی دیر تک گفتگو ہوئی ہے۔ میں یہاں ایک بات عرض کیے دیتا ہوں کہ میں کوئی بزنس ایکسپرٹ نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی اعلیٰ پایے کا کنسلٹنٹ ہوں۔ میں ایک عام سا آدمی ہوں جس نے صرف بی کام کیا ہوا ہے، زمانے کے نشیب و فراز کا عینی شاہد ہوں اور پے درپے تلخ تجربات کا تختہ مشق رہا ہوں۔ اس لیے جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس میں سے اگر کسی انسان کو اپنی رہنمائی کے لیے کچھ مواد مل جائے تو وہ لے لے جو چیز دل کو نہ بھائے، چھوڑ دے۔ آئندہ بھی جو کچھ بیان کیا جائے گا اس پر بھی آپ اپنی عقل اور فہم کے مطابق خوب سوچ سمجھ کر عمل کریں۔ (ورنہ نتائج کی ذمہ داری مشتہر پر نہیں ہے۔ ہاہاہا)
ایک بات تو طے ہےکہ دنیا میں کوئی ایسا عام قاعدہ، کلیہ یا جنرل رول نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر کوئی انسان یہ طے کر لے کہ اسے نوکری یا کاروبار میں سے کس چیز کا انتخاب کرنا چاہیے۔ طریقہء روزگار اور ذریعہء روزگار منتخب کرنا ہر انسان کے اپنے ذوق، استطاعت اور گنجائش پر منحصر ہے۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو نوکری کے دوران بھی بڑی سبک رفتاری سے آگے بڑھتےہیں اور جب کاروبار میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہاں بھی مٹی کو سونا بنا کررکھ دیتے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے انسانوں کے درمیان رزق کی تقسیم کے معاملے ہیں جن کے بھید بھی وہی جانتا ہے۔ پھر ہر شخص کے اپنے اپنے نصیب کی بھی بات ہوتی ہے۔ آپ نے ایسے لوگ ضرور دیکھے ہونگے جن کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا لیکن بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والے دس بیس لوگ ہر وقت ان کی جیب میں رہتے ہیں جبکہ عقل کےکوہ ہمالیہ نان نفقے کو ترستے ہیں۔ یہاں امارات میں سترکے عشرے میں دو بیرے (ویٹر) تھے جو کہ بلکل ناخواندہ تھے، انہوں نے نوکری چھوڑ کر ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ کھولا۔ ایک عرصے تک وہ اس کو چلاتے رہے، پھر کافی وقت کے بعد اس کی ایک برانچ کھولی، کچھ وقت بعد دوسری برانچ کھولی، وقت گذرتا گیا، برانچیں کھلتی گئیں اور آج ان کا ریسٹورنٹ دبئی کے ہر علاقے میں موجود ہے ۔ برانچوں کی تعدادتیس سے زیادہ ہے۔ اللہ اگر کسی کو دیتا ہے تو اس طرح بھی چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔
تو پھر کیا کیا جائے۔ کہاں سے آغاز کیا جائے؟َ اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے کہ اگر انسان کاروبار کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہےاور اس کا ذوق بھی اس کو کاروبار کرنے پر اکساتا ہے تو اسے ضرور کاروبار کرنا چاہیے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کاروبار فقط ذوق اور خواہش کے بل بوتے پر ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے درکار مواد اور وسائل کا ہونا بھی ازحد ضروری ہے۔
سنہ اسی کی دہائی میں جب دنیا کے حالات آج سے یکسر مختلف تھے، لوگ امریکی ویزا حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد میں قائم امریکی سفارتخانے بلاروک ٹوک جایا کرتے تھے اور بعض لوگوں کو حیرت انگیز طور پر، آسانی سے ویزہ بھی مل جاتا تھا۔ انہی دنوں ہمارے حلقہء یاراں میں یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ ایک نوجوان نے امریکی ویزا کے حصول کے لیے درخواست دی، اسے انٹرویو کے لیے سفارتخانے بلوایا گیا ۔ انٹرویو کرنے والے افسر نے اس سے سوال کیا کہ تم امریکا کیوں جانا چاہتے ہو؟ نوجوان سے اور تو کوئی بات نہ بنی، مگر ایک لمبی سانس لینے کے بعد اس نے کہا: سر میری خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے ایک بار امریکا دیکھ لوں۔ کہتے ہیں کہ نوجوان کی اس ‘‘خواہش ’’پر ویزا دے دیا گیا۔ لیکن جناب کاروبار کرنے کے لیے محض خواہش ہی کافی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ چاہیے۔ تو وہ کون سی چیزیں ہیں جو کاروبار کے لیے لازمی درکار ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض کا سرسری ذکر پہلے بھی کیا جاچکا ہے لیکن یہاں موقعہ کی مناسبت سے دوبارہ کچھ مزید تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں۔
جیسے پہلے بھی عرض کیا گیا تھا کہ بزنس شروع کرنے کے لیے بنزنس مائنڈڈ ہونا ضروری ہے۔ اکثر نوکری پیشہ لوگ بزنس مائنڈڈ نہیں ہوتے اور جو بزنس مائنڈڈ ہوتے ہیں وہ زیادہ عرصہ نوکری نہیں کرسکتے۔ ایسے افراد کا نوکری کرنا بکل ایسا ہی ہے جیسے پانی کے باہر مچھلی۔ میں پچھلے دنوں مشہور امریکی مصنف رابرٹ کیوسکی کی تصنیف ‘‘دی بزنس آف ٹوینٹی فرسٹ سینچری’’ پڑھ رہا تھا۔ جس میں وہ ایک جگہ رقمطراز ہے کہ سنہ ۱۹۸۵ میں ہمارے حالات خراب ہوگئے اور ہم بے گھر ہوگے، ہمارے رہنے کے لیے ہماری پرانی ٹیوٹا گاڑی تھی، اسی میں ہم سوتے تھے۔ ایک ہفتہ گذرنے پر ہماری اس حالت کا جب میری گھروالی کی ایک دوست پتہ چلا تو اس نے ہم پر رحم کھاتے ہوئے اپنے گھر کے تہ خانے میں تھوڑی سی جگہ دے دی۔ اس دوران سب لوگ ہمیں کہتے تھے کہ تم جاب کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے لیے ان لوگوں کو، جو نوکریاں کرتے تھے یہ سمجھانا بڑا ہی مشکل ہوتا تھا کہ ہم مالی آزدی چاہتے ہیں، ہم دونوں، میاں بیوی گریجویٹ ہیں اور نوکری کے آداب کو سمجھتے ہیں لیکن ہم جاب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے چار سال چھوٹے موٹے جز وقتی کام کیے تاکہ پیٹ کی آگ کو بجھایا جاسکے لیکن جاب نہیں کی۔ پھر ۱۹۸۹ میں ہم ملینیئر بن چکے تھے اور ہم سمجھتے ہیں یہ باتیں ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتیں جن کو ہر ماہ کی مقررہ تاریخ کو لگی بندھی تنخواہ مل جایا کرتی ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کے اندر پیدائشی طور پر ایسا ہوتا ہے یا یہ خوبی اپنے اندر بعد میں پیدا بھی کی جاسکتی ہے؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ ایسا نہیں کہ جو بنزنس مائنڈڈ نہیں ہے وہ کاروبار نہیں کرسکتا۔ کرسکتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص جب نوکری سے کاروبار میں داخل ہو تو شروع میں چاہے بزنس مائنڈڈ نہ بھی ہو لیکن رفتہ رفتہ بن جاتا ہے۔ اب یہ کیسے معلوم پڑے کہ بندہ بزنس مائنڈڈ ہے یا نہیں؟ اس کے لیے کچھ مثالوں پر غور کرتے ہیں۔
بعض اوقات آپ نے دیکھا ہوگا کہ آپ نے کسی ٹیکسی یا رکشہ والے کو روکا، اسے اپنی منزل بتائی اور کرایہ دریافت کیا۔ وہ آپ کی توقع سے کہیں کم کرایہ بتاتا ہے، اتنا کم کہ آپ حیران ہوکر دوبارہ پوچھتے ہیں، وہ پھر دوبارہ وہی فگر بولتا ہے۔ آپ سمجھ جاتے ہیں کہ بندہ اس فیلڈ میں نیا ہے ابھی اسے کھال اتارنا نہیں آئی۔ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ان بیچاروں میں بھی اکا دکا ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بزنس مائنڈڈ نہیں ہوتے۔ مجھے دبئی میں ایک پروجیکٹ ملا جس میں سیکیورٹی کیمرے لگانے تھے۔ جہاں کیمرے لگانے تھے وہ دیواریں بہت اونچی تھیں، یہ ایک نہایت مشکل کام تھا جس کو کرنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ میں نے لیبر آوٹ سورس کی۔ چند انڈین نوجوان تھے۔ سائٹ سروے کرنے کے بعد انہوں نے مجھے جو معاوضہ بتایا میں حیران رہ گیا۔ میرے ذہن میں جو رقم تھی انہوں نے اس سے تین گنا کم رقم بتائی تھی۔ وجہ؟ وجہ یہ کہ وہ بزنس مائنڈڈ نہیں تھے، وہ سب جاب کرتے تھے او تنخواہ کے علاوہ انہوں نے کوئی چیز نہیں دیکھی تھی۔ لیکن میرا یقین ہے جب یہی نوجوان کاروبار کریں گے تو کچھ ہی دن میں ان کو عقل آجائے گی کہ کتنے چارج کرنے ہیں۔ میری بیان کردہ سرگزشت میں بھی آپ نے پڑھا ہوگا کہ میں نے شارجہ میں جب زندگی کا پہلا کمپیوٹر درست کیا تو کسٹمر نے پوچھا کتنے ہوئے تو میں نے پچیس درہم بتائے، وہ بھی ڈرتے ڈرتے، اس بات کو تقریبا دس سال ہوچکے ہیں۔ اس لیے اب آپ میرے پاس اپنا کمپیوٹر ٹھیک کروانے کے لیے ذرا سوچ سمجھ کر آیے گا۔ smile emoticon
چلیں کاروباری ذہنیت کی بات تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ کیا ہوتی۔ اب دوسری چیز ہے ۔۔۔ ارادہ ۔۔جسے انگریزی میں وِل کہتے ہیں۔ لیکن اردو کا لفظ ‘‘ارادہ’’ انگریزی کے لفظ ‘‘وِل ’’کی ٹھیک عکاسی نہیں کرتا۔ ارادے سے مراد کسی کام کے کرنے کی خواہش کے ہیں۔ لیکن بزنس شروع کرنے کے لیے صرف خواہش ہی درکار نہیں ہوتی بلکہ ‘‘پرجوش خواہش ’’درکار ہوتی ہے۔ ایسی خواہش جس میں خوشی، جذبہ، جوش اور والہانہ پن ہو۔ مثال کے طور پر ایک شخص ایک بس خرید کر کسی تنخواہ دار ڈرائیور کے حوالے کرتا ہے۔ وہ ڈرائیور کام تو کرے گا لیکن اس کے اندر وہ جذباتی وابستگی اور والہانہ پن نہیں ہوگا ۔ ہاں البتہ وہی بس مالک اگر خود چلائے گا تو اس کی ‘‘ول’’ اور نوکر کی ‘‘ول’’ میں فرق ہوگا۔ تو جو لوگ بزنس کا ارادہ رکھتے ہیں وہ اپنے من کے اندر جھانکیں، کہ جو کام وہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کی ‘‘وِل’’ ان کے اندر موجود ہے یا نہیں؟ اگر کوئی اس لیے جاب چھوڑ کر کاروبار کرنا چاہتا ہے کہ اسے کم کام کرناپڑے گا تو ایسا شخص کبھی کاروبار کرنے کا سوچے بھی نا۔ کاروبار قربانی چاہتا ہے۔ زیادہ وقت، زیادہ محنت، زیادہ توجہ۔ میرے کسی اسٹاف کے سر میں درد ہوتا ہے تو ایس ایم ایس کردیتا ہے کہ آج میں نہیں آسکتا، سر میں درد ہے، لیکن مجھے بعض اوقات بخار کی حالت میں بھی کام کرنا پڑتا ہے، اسٹاف پانچ بجے چھٹی کر جاتا ہے، میں اکثر رات بارہ بجے تک لگا ہوا ہوتا ہوں۔ تو اگر کسی کے ذہن میں کاروبار کا مقصد زیادہ سہولت اور آرام طلبی ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ ؔوہ یہیں سے لوٹ جائیں جنہیں زندگی ہو پیاری۔
کاروبار کے لیے سرمایہ بھی اہم چیز ہے لیکن سرمایہ ہی سب کچھ نہیں۔ دنیا میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں خالی ہاتھ کاروبار شروع کیا گیا ہے اور بعد میں ملینئر بن گئے ہیں۔ رابرٹ کیوسکی کی مذکورہ بالا تصنیف ‘‘دی بزنس آف ٹوینٹی فرسٹ سینچری’’ ہی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں میگا لاٹری ایوارڈ جیتنے والوں میں سے اسی فیصد لوگ جن میں سے ہر ایک نے تیس لاکھ امریکی ڈالر جیتے تھے، اپنی رقوم گنوا کر کنگال ہوگئے۔ جس سے ثابت ہوا کہ کاروبار کے لیے پیسہ ہی سب کچھ نہیں بلکہ کچھ اور چیزیں بھی درکار ہیں۔ ایک کامیاب کاروبار کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے، جس پر اگر کبھی موقعہ ملا تو بات کی جائے گی۔
اس جگہ پہنچ کر میں چاہوں گا کہ بتاؤں، کون لوگ ہیں جو کاروبار کا خیال ذہن سے نکال دیں:
۱۔ وہ لوگ جن کے پاس کوئی آئیڈیا یا منصوبہ نہیں ہے
۲۔ جو خواب تو بڑے بڑے دیکھتے ہیں لیکن خواہش رکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے خوابوں کو عمل کا روپ دیں۔
۳۔ جن کو خوف اور جھجھک ہو اور جو ہر وقت ڈرتے رہتے ہوں کہ ان کی رقم ڈوب جائے گی۔ بلکل ایسے جسے کسی کو روڈ فوبیا ہوتا ہے کہ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ گاڑی کہیں ٹکرا نہ جائے۔ ایسے لوگ ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں پچھلی سیٹوں پر ہونے چاہئیں۔
۴۔ جو کاموں کو خوبصورتی سے انجام دینے (پرفیکشن) کے بجائے وقت گذاری پہ یقین رکھتے ہوں۔ جسے ڈنگ ٹپاؤ کہا جاتا ہے۔
۵۔ جو ایک راستہ بند ہونے کی صورت میں متبادل راستہ ڈھونڈ نکالنے کی ہمت اور قدرت نہ رکھتے ہوں، جیسے چیونٹی کے اوپر مٹی ڈال دی جائے تو وہ اس مٹی کے چھوٹے سے ڈھیر سے تھوڑی ہی دیر میں باہر نکلنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
۶۔ جو اپنے طور پر کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، بلکہ ہر کام میں باس یا کسی اور کے حکم اور رہنمائی کے محتاج ہوں۔
اس کے علاوہ جو لوگ ابھی تازہ تازہ اپنی تعلیم سے فارغ ہوئے ہوں ان کو بھی چاہیے کہ وہ کم از کم تین سال کاروبار کا خیال ذہن سے نکال دیں اور اپنی تعلیم سے مطابقت رکھنے والی فیلڈ میں کہیں جاب کریں۔ چاہے وہ کاروبار کے لیے مالی استطاعت بھی رکھتے ہوں۔ یہ چیز ان کو وہ ٹریننگ اور تجربہ فراہم کرے گی جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔
یہ ایک وسیع اور کثیرالجہتی موضوع ہے جس میں مختلف حالات میں مختلف اقسام کی تدابیر حکمت عملی درکار ہوتی ہے، جس پر ان محدود پوسٹس پر بات نہین ہوسکتی۔ اگر کسی بھائی یا بہن کو کسی خاص معاملے میں کوئی مشاورت درکار ہو توبندہ حاضر ہے۔ نیچے میں اپنا ای میل ایڈریس دے رہا ہوں، آپ اپنے کیس کی نوعیت لکھیے۔ جو بات میرے فہم کے مطابق درست ہوگی، مشورہ دے دیا جائے گا ورنہ معذرت کرلی جائے گی۔ [نوٹ: کوئی فیس نہیں لی جائے گی smile emoticon ]
جو لوگ کاروبار کی خاطر جاب چھوڑنے کا پروگرام رکھتے ہیں یا ایک جاب چھوڑ کر دوسری حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ دو کام کریں۔ اول یہ کہ ‘‘ایگزٹ پلان’’ بنائیں۔ دوئم یہ کہ متبادل کا بندوبست کریں۔ اس کے بعد کوئی قدم اٹھائیں۔
اگلی پوسٹ انشاء اللہ ایگزٹ پلان اورمتبادل کے حوالہ سے ہوگی۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو اور ہر ایک کو اچھا اور بہترین رزق عطا فرمائے۔ آمین









نوکری یا کاروبار [قسط 13]
ایگزٹ پلان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہروہ شخص جو کہیں جاب کر رہا ہے اور جس کے معاش کا کلی دارومدار اس جاب پر ہے اس کو چاہیے کہ اپنے ذہن میں ہمیشہ ایگزٹ پلان تیار رکھے۔ یہ ضروری نہیں کہ آدمی خود جاب چھوڑنے کا فیصلہ کرے بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کی کمپنی اچانک کسی دن اس کو رخصتی کا پروانہ تھمادے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ آدمی کو اچانک کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ سے کمپنی کو آپ کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے، توسوچنا چاہیے کہ ایسی حالت میں آدمی کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ یہ خطرہ ان لوگوں پر سب سے زیادہ منڈلاتا رہتا ہے جو کسی اعلیٰ عہدے پرہوتے ہیں یا کوئی بھاری پیکج لے رہے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ چھانٹی کا تیشہ جب چلتا ہے تو سب سے پہلے ایسے ہی افراد پر چلتا ہے اور ان کو سب سے پہلے فارغ کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اس بات کو اللہ پر توکل کے خلاف سمجھیں لیکن انسان اگر اللہ کو رزاق ماننے کے باوجود رزق کی تلاش کرتا ہے، اللہ کو تکلیفوں اور بیماریوں سے نجات دہندہ سمجھنے کے باوجود ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو پھر غیریقینی حالات اور بحرانوں سے نبردآزما ہونے کے لیے پیش بندی کیوں نہیں کرسکتا؟ توکل کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بندہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور بولے کے اللہ بہتر کرے گا۔ بلکہ توکل یہ ہے کہ انسان اپنی پوری قوت لگادے، اپنا پورا بندوبست کرلے اور اس کے بعد کہے کہ اب میرا اللہ پر توکل ہے، میرا مالک میرے لیے جو بہتر سمجھے گا کرے گا۔
اسی چیز کو ایک صحابی رضہ کے سوال نے مزید واضح کردیا ہے۔ انہوں نے حضورﷺسےدریافتفرمایاکہمیںاونٹکوکھلاچھوڑکراللہپرتوکلکروںیااسکوباندہکر؟آپﷺنےفرمایاکہاسکوباندہکر۔
اس لیے جو حضرات نوکری پیشہ ہیں وہ ہمیشہ اپنے پاس ایک ایگزٹ پلان تیار رکھیں۔ یہ کام ان کے لیے تو لازمی اور ناگذیر ہے جو نوکری چھوڑ کر کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔
ایک صاحب نے دبئی میں مجھ سے رابطہ کرکے کہا کہ وہ اپنی جاب سے مطمئن نہیں ہیں اور اسے چھوڑ کر کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ وجہ یہ بتائی کہ پانچ سال سے اسی جگہ ہوں، جس تنخواہ پر آیا تھا آج بھی وہی ہے، نہ کوئی سیکھنے سکھانے کا ماحول ہے اور نہ کوئی ترقی کی امید۔ عمر کوئی چالیس سال ہے۔ میں نے پوچھا، آپ کے پاس متبادل کیا ہے؟ کہنے لگے کہ کچھ نہیں؟ میں نے پوچھا سرمایہ کتنا ہے جس سے آپ کاروبار کریں گے۔ جواب تھا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں لیکن میں نے کسی دوست کو اس کے لیے تیار کیا ہے۔ ان سے ان کی تعلیم، اور اسکل کے بارے میں تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ میں نے تو انہیں مشورہ دیا کہ آپ جس جگہ لگے ہوئے ہیں وہیں پر مالکان سے بات کرکے کچھ تنخواہ میں اضافے کی کوشش کریں، کیوں کہ آپ کے پاس اپنا سرمایہ ہے نہیں اوردوسروں کے سرمائے سے کاروبار کرنے کا تجربہ اکثر اچھا نہیں رہتا۔ بھرحال جو بات ان کی سمجھ میں آئی اور فائنل ہوئی وہ یہ کہ اگر وہ واقعی جاب چھوڑنا چاہتے ہیں تو ایگزٹ پلان بنائیں، تاکہ کل جب آپ نوکری چھوڑ کر اپنا کاروبار کرنا چاہیں تو کرسکیں۔ وہ ایگزٹ پلان کیا ہوگا اس کی کچھ تفصیل اگے کی گفتگو میں آرہی ہے۔
اگے بڑھنے سے قبل یہ بتاتا چلوں کہ ایگزٹ پلان سے میری جو مراد ہے وہ یہ ہے کہ نوکری کو جس وقت اور جس وجہ سے بھی چھوڑا جائے اس سے نقصان کا امکان کم سے کم ہو۔ اس لیے اسے محض ایگزٹ پلان نہ کہا جائے بلکہ ‘‘محفوظ ایگزٹ پلان’’ کہا جائے۔ سرکاری نوکری سے رٹائر ہونے پر ورکرز کو اچھی خاصی رقم جی پی فنڈ اور گریجویٹی کی صورت میں ملتی ہے اس لیے اکثر ان کو کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ لوگ ہماری آج کی گفتگو کا موضوع نہیں ہیں۔ اسی طرح بڑی بڑی کمپنیوں سے بھی لوگ جب ریٹائر ہوتے ہیں تو ان کو بھی خاصا اماؤنٹ ملتا ہے۔ اس لیے وہ بھی ہماری آج کی گفتگو کا موضوع نہیں ہیں۔ ہماری آج کی گفتگو کا سبجیکٹ یا موضوع وہ لوگ ہیں جو کاروبار شروع کرنے کی نیت سے نوکری چھوڑنا چاہتے ہیں۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ محفوظ ایگزٹ پلان میں کون کونسی چیزیں شامل ہوں گی۔
۱۔ استخارہ
۲۔ مجوزہ کاروبار کے بارے میں اسی فیلڈ کے لوگوں سے مکمل معلومات
۳۔ اپنے دوستوں اور خیرخواہوں سے مشورہ
۴۔ تحریری خاکہ
۵۔ ٹائمنگ
۶۔ بجٹ
۷۔ متبادل آمدن کا پیشگی بندوبست
۸۔ اپنی کمزوریوں اور صلاحیتوں کا ادراک
۱۔ استخارہ:
جب آدمی اپنا نیا کاروبار شروع کرنے کا مضبوط ارادہ باندہ لے اور پختہ عہد کر لے کہ اب اس نے نوکری چھوڑنی ہے اور کاروبار کرنا ہے تو سب سے پہلے ایک کام کرے۔ اپنے اس مالک کے ساتھ مشورہ کرلے جو مستقبل کا بھی اسی طرح علم رکھتا ہے جیسے حال کا رکھتا ہے۔ اگر دل مطمئن ہوجاتا ہے تو آگے بڑھے ورنہ کاروبار کی نوعیت بدل کر دوبارہ استخارہ کرے، سہ بارہ کرے، بار بار کرے۔ جب دل بلکل مطمئن ہوجائے تو جاب چھوڑے ورنہ لگا رہے۔
۲۔ مجوزہ کاروبار کے بارے میں اسی فیلڈ کے لوگوں سے مکمل معلومات:
یہ نکتہ اتنا اہم ہے کہ اس میں کوتاہی کی وجہ سے بارہا لوگ اپنے تجربات میں ناکام ہوئے ہیں۔ لوگ کسی بزنس کے بارے میں سرسری سی معلومات لیتے ہیں اور فورا کاروبار شروع کردیتے ہیں، پتہ تب چلتا ہے جب سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اکثر کاروبار دور سے بڑے اچھے، آسان اور منافع بخش لگتے ہیں لیکن جب آدمی تھوڑی گہرائی میں جاتا ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ چیزیں وہ نہیں تھیں جو شروع میں سمجھی جارہی تھیں۔ اس لیے جب آدمی کوئی کاروبار شروع کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اسی فیلڈ کے مختلف افراد سے ملاقات کرکے معلومات لے لے اور ان کو نوٹ کرتا چلا جائے پھر حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں کسی نتیجے پر پنہچے۔ مثلا اسٹیشنری کی دوکان کھولنے سے قبل آدمی اسی لائن کے مختلف افراد سے معلومات لے کہ سامان کہاں سے آتا ہے، نفع کا تناسب کیا ہے، کون سا سامان زیادہ چلنے والا ہوتا ہے، رسک فیکٹر کہاں کہاں ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس کام میں یہ ضرور ہوگا کہ مختلف لوگ مختلف طرح کی بات کریں گے، کوئی ہمت بندہائے گا تو کوئی توڑے گا لیکن معلومات بھرحال سب سے لینی چاہیے اور فیصلہ اپنی سمجھ کے مطابق کرنا چاہیے۔
۳۔ اپنے دوستوں اور خیرخواہوں سے مشورہ:
ہم میں سے اکثر افراد کے اندر یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے تمام کام خفیہ طور پر کر رہے ہوتے ہیں اور ایک دن اچانک کوئی دھماکہ کر بیٹھتے ہیں۔ پوچھنے پر کہتے ہیں کہ اجی وہ میں آپ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ مشورہ کے بارے میں ہمارے دین میں اتنی تاکید کی گئی ہے کہ جس کا حساب نہیں۔ اب آپ دیکھیں کہ حضورﷺ سے بڑھ کر کون صائب الرائے ہوگا لیکن آپ ﷺکوبھیاللہتعالیٰنےقرآنمیںفرمایاکہاپنےساتھیوں (صحابہ) کوشاملمشورہرکھاکریں۔کہتےہیںکہمشورہلینےوالاکبھیاپنےامورمیںنقصاننہیںپاتا۔مشورہکرنےسےمعاملاتکےکئیایسےرخاورپہلوسامنےآتےہیںکہ جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ چاروں خلفاء نے بھی اپنے اپنے دؤر میں اہل علم و فہم سے مشورہ چاہا ہے۔ مشورہ دینے اور لینے کےبھی کچھ اداب ہیں،جو کہ تفصیل طلب ہیں اور کسی اور موقعہ پر بیان کیے جاسکتے ہیں۔
۴۔ تحریری خاکہ:
آدمی کے ذہن میں خیالات کا سلسلہ ہردم جاری و ساری رہتا ہے ۔ ایک خیال آتا ہے دوسرا جاتا ہے۔ ایک بات پر آدمی تھوڑی دیر غور کرتا ہے پھر اسے اٹھا کر دور پھینک دیتا ہے پھر دوسرا خیال آتا ہے۔ اسی کچ مواد میں سے کوئی نہ کوئی کام کی چیز نکل آتی ہے۔ جب آدمی کسی خاص نکتہ پر غوروفکر کررہا ہو تو کوئی ایک خیال ایسا ضرور آجاتا ہے جو کلک کرجاتا ہے۔ پھر اسی کو لے کر آدمی مزید غوروفکر کرتا اور آگے کے منصوبے بناتا ہے۔ جب آپ نئے کاروبار کے لیے غوروفکر کر رہے ہوں گے آپ کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات اور چیزیں آئیں گی۔ یہ کچ مواد بڑا کام کا ہوتا ہے، اس کی مثال کارپینٹر کے کباڑخانے میں پڑے لکڑی کے مختلف ٹکڑوں کی سی ہوتی ہے جن میں سے ہر ٹکڑا اہم ہوتا ہے۔ کسی سے کرسی اور ٹیبل بناتا ہے تو کسی چھوٹے ٹکڑے سے بچوں کے کھیلنے کے لیے لٹو بناتا ہے۔ اس لیے جب آپ نئے کاروبار کے لیے غوروفکر کررہے ہوں گے تو کئی چیزیں خودبخود آپ کے ذہن میں آرہی ہوں گی وہ بھی نوٹ کریں لیکن جو چیزیں نیچے پیش کی جارہی ہیں وہ تو ضرور نوٹ کریں۔ یہ دراصل مستقبل میں کھڑے ہونے والے آپ کے کاروبار کا نقشہ ہے جس کے مطابق انجینیئر اور مزدوروں نے کام کرنا ہے:
الف۔ کاروبارکیا ہوگا، اس کا سائز کیا ہوگا، اس کی مین پراڈکٹ کیا ہوگی، اس کے ٹارگٹڈ کسٹمرز کون ہوں گے، اس کے لیے کتنے افراد چاہیے ہوں گے؟
ب۔ کاروبار کے لیے کتنا ابتدائی سرمایہ درکار ہوگا؟ کیا میرے پاس اتنا سرمایہ موجود ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر کہاں سے اور کتنے وقت میں آئے گا؟
ج۔ جب میں جاب چھوڑوں گا تو مجھے کتنی رقم ملے گی؟ کیا میری اس رقم سے کوئی کٹوتی ہوگی اور کیا میں نے اس رقم میں سے کوئی قرض ادا کرنا ہے؟ کاروبارکے بارآور ہونے اور آمدن دینے تک میرے گھر کا خرچہ کہاں سے چلے گا۔ اگر کاروبار کو درمیان میں کچھ مزید سرمایہ کی ضرورت پڑ گئی تو کیا وہ میں فراہم کرسکوں گا؟ اگر ہاں تو کہاں سے اور اگر نہیں تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ ہر چیز اور ہر امکان کو نوٹ کریں۔
۵۔ ٹائمنگ:
کاروبار کی خاطر نوکری کو چھوڑنے کے ٹائنمگ بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ مثلا، ملک میں جنرل الیکشن ہونے والے ہیں اور آپ نے اسی دوران نوکری چھوڑ کر کاروبار کی ٹھان لی ہے۔ اب آپ کے لیے بہت ساری چیزیں کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لوگوں کا دہیان کہیں اور بٹا ہوا ہے۔ یا آپ نے ایک ایسے وقت میں جاب چھوڑی جب بارشوں کا موسم عروج پر تھا، اس وجہ سے آپ کہیں نکل ہی نہ سکے اور کوئی کام نہ ہوسکا۔ اس لیے جب بھی آپ نوکری چھوڑنے کا وقت متعین کریں تو وہ ایسا ہونا چاہیے کہ آپ اپنے پلان کے حساب سےوقت ضایع کیے بغیر فورا کام شروع کرسکیں۔
۶۔ بجٹ:
اوپر نوٹ بک میں چیزیں نوٹ کرنے والے عنوان کے تحت یہ بات آچکی ہے کہ آپ کو نہ صرف نئے کاروبار کے لیے تمام تفصیلات ایک نوٹ بک میں تحریر کر لینی چاہیئں بلکہ کاروبار میں کام آنے والے سرمایہ کا پورا بجٹ خاکہ بھی تفصیل سے لکھ لینا چاہیے۔ اگر آپ کے پاس کاروبار کے لیے ایک لاکھ روپیہ ہے تو آپ لکھیں گے کہ اس کا کس طرح استعمال ہوگا۔ اگر آپ کاروبار کرنا چاہتے ہیں لیکن مناسب مقدار میں سرمایہ نہیں ہے تو پھر آپ ایک ہدف مقرر کریں گے کہ میں نے ایک سال کے بعد نوکری چھوڑنی ہے اور جب میں نوکری چھوڑوں گا تو میرے پاس اتنی رقم جمع ہوگی۔ اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ماہوار تنخواہ سے کچھ نہ کچھ پس اندازی کرتے جاتے ہیں تو کچھ لوگ کوئی کمیٹی ڈال لیتے ہیں۔ جو بھی صورت ہو بھرحال رقم کا بندوبست تو آپ نے کرنا ہی ہے چاہے جو انداز اختیار کریں۔ کاروبار کے لیے رقم کی فراہمی کے لیے دو معروف طریقے ہیں۔ اپنی امدن میں اضافہ یا اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی۔ کوئی دوسرا کسی کو نہیں بتا سکتا کہ کون سا خرچہ غیر ضروری ہے اور کون ساناگذیر۔ لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ کاروبار کے لیے رقم آپ نے فراہم کرنی ہے۔ غیرضروری اخراجات میں ٹیلیوفون کے بیجا استعمال میں کمی، فیملی کے ساتھ باہر جاکر کھانے کھانا، حد سے زیادہ گھومنا پھرنا، سگریٹ نوشی وغیرہ شامل ہیں۔ باقی انسان خود کے متعلق خوب معلومات رکھتاہے کہ وہ کہاں کہاں اصراف کرتا ےہے۔ آمدن میں اضافے کے لیے آدمی کوئی پارٹ ٹائم جاب، گھر میں بیٹھے کوئی ہنر یا کوئی چھوٹا موٹا خرید وفروخت کا کاروبار کرسکتا ہے۔ بہرحال یہ طے ہے کہ جاب چھوڑنے سے پہلے مطلوبہ رقم دستیاب ہوجانی چاہیے۔
۷۔ متبادل آمدن کا پیشگی بندوبست:
سیف ایگزٹ کا سب اہم جز ہے متبادل آمدن کا پیشگی بندوبست۔ آپ کی پلاننگ کتنی بھی اچھی ہو اور آپ جاب چھوڑنے کے لیے پوری طرح ذہن بنا چکے ہوں لیکن ابھی تک آپ کوئی متبادل ذریعہ آمدن فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں تو آپ کی پوری مشق بیکار ہے۔ اس لیے جاب چھوڑنے کے لیے متبادل ذریعہ آمدن کی فراہمی ایک لازمی عنصر ہے۔ اگر اس میں کچھ دیر ہوگئی ہے تو آپ اپنے منصوبہ کو رویو کرسکتے ہیں لیکن اس کے بغیر جاب چھوڑ دینا کسی طور دانش مندی نہیں۔
۸۔ اپنی کمزوریوں اور صلاحیتوں کا ادراک:
کوئی بھی انسان کامل نہیں ہوتا۔ ہر ایک کے اندر کچھ خوبیاں اور صلاحیتیں، کچھ خامیاں اور کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ انسان کی ان خوبیوں اور خامیوں کا اثر لامحالہ کاروبار کے اوپر بھی پڑتا ہے۔ اس لیے نوکری چھوڑنے سے پہلے آدمی ان چیزوں کا بھی جائزہ لے لے ۔ خوبیاں جنہیں strengths بھی کہا جاسکتا ہے ان کی ایک لسٹ بنالے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کا سوشل ہونا اور دوستوں کا وسیع حلقہ رکھنا اس کی ایک خوبی اور اسٹرینتھ ہے اور اس کے برعکس اس کا تنہائی پسند اور خلوت نشیں ہونا ایک کمزوری یا weakness ہے۔ جسے اس کو ختم کرنا ہوگا۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے دوستوں کی ایک فہرست بنائے اور دیکھے کہ ان میں سے کس دوست سے اپنے نئے کاروبار کے لیے کیا مدد لے سکتا ہے۔ مثلا، کوئی دوست ہول سیل مارکیٹ میں کام کرتا ہے وہ اسے مارکیٹ میں متعارف کرواسکتا ہے وغیرہ۔
ایگزٹ پلان کے حوالے سے یہ تو تھیں جنرل باتیں۔ اس کے علاوہ کچھ خصوصی اہداف اور افعال بھی ہوسکتے ہیں جو منحصر ہیں چھوڑی جانے والی نوکری اور شروع کیے جانے والے نئے کاروبار کی نوعیت پر وہاں ہر فرد زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے خود بہتر فیصلہ کرسکتا ہے۔
















نوکری یا کاروبار [ قسط 14]
چلیں سب لوگ سیٹ بیلٹ باندہ لیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی، دریا کے اْس پار جانے کے لیے کشتی کے پاس پنہچا۔ وہاں اسے ایک جاننے والا ملا۔ اس نے پوچھا: بھئی کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے جواب دیا: دریا کے پار جارہا ہوں تاکہ مویشیوں کی لگی منڈی سے کوئی بچھیا خرید کر لے آؤں۔ دوسرے دیہاتی نے کہا، انشاء اللہ بول دو۔ اس نے جواب دیا اس میں انشاء اللہ کی کون سی بات ہے؟ کشتی سامنے کھڑی ہے، پیسے میری جیب میں ہیں، منڈی میں ایک سے ایک بچھیا موجود ہے، جاؤں گا اور پیسے دے کر بچھیا خرید کر لے آؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ روانا ہوگیا۔ جب شام کو خالی ہاتھ واپس آیا تو وہی دوست اس کو دوبارہ ملا۔ اس نے پوچھا، کیا ہوا بھئی، بچھیا کدھر ہے؟ دیہاتی نے جواب دیا: وہ، میں انشاء اللہ یہاں سے کشتی پر سوار ہوا، انشاء اللہ خیرت سے اس پار اتر گیا، انشاء اللہ منڈی میں پسند کی بچھیا تلاش کرنے لگا، انشاء اللہ مجھے ایک زبردست بچھیا مل بھی گئی، انشاء اللہ جب میں نے قیمت کی ادائگی کے لیے سائیڈ والی جیب میں ہاتھ ڈالا، تو انشاء اللہ میرا ہاتھ جیب سے آر پار ہوگیا، انشاء اللہ مجھے بڑا افسوس ہوا اور انشاء اللہ اب خالی ارمان ہی لیے واپس آگیا ہوں۔ دوسرے دیہاتی نے جواب دیا بھئی اب اتنی بار انشاء اللہ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس وقت ایک ہی بار بول دینا کافی تھا۔
گوکہ یہ لطیفہ کافی پرانا ہے اور آپ میں سے اکثر نے سنا بھی ہوگا لیکن یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے میری گذشتہ ۱۳ قسطوں میں جو چیز بار بار دیکھی ہوگی وہ ہے احتیاط، احتیاط اور احتیاط۔ انسان کے رزق کا معاملہ بڑا ہی نازک اور اہم ہے۔ تنگدستی اور عسرت بعض اوقات کمزور ایمان والوں کو اللہ کا باغی بنا دیتی ہے۔ میں نے زندگی میں بہت سے لوگ دیکھے ہیں جن پر جب یہ آزمائش آئی تو ان کی زبان پر کفریہ الفاظ جاری ہوگئے۔ کوئی کہتا ہے: میں نے کیا گناہ کیا ہے جو اللہ نے مجھے ہی آزمائش میں ڈال دیا ہے، کیا اللہ کو میں ہی ملا تھا ستانے اور نچوڑنے کے لیے، فلاں اور فلاں شرابی اور بدکار کو اللہ کیوں نہیں جگڑتا؟ نعوذباللہ۔۔ کہنے کا مقصد ہے کہ یہ کوئی ٹوینٹی ٹوینٹی کا میچ نہیں ہے، یہ ایک طویل ٹیسٹ سیریز ہے جس میں وہی جیتے گا جس کی سانس توانا اور اسٹمنا مضبوط ہوگا۔ اسی لیے ایک بار کا احتیاط بعد کی بہت سی احتیاطوں سے انسان کو محفوظ کردیتا ہے۔
میں مزاجاََ بھی اور حکمت عملی کے لحاظ سے بھی کاروبار کے حق میں ہوں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کاروبار کو ہمیشہ نوکری پر ایک ایج حاصل رہا ہے۔ اس میں لامحدود منافعہ کا امکان رہتا ہے، اس میں ارادے اور عمل کی آزادی رہتی ہے۔ اس میں انسان کی عزت نفس زندہ اور محفوظ رہتی ہے، اس میں خودی کی پروازبلند رہتی ہے اور اس میں اوقات کار اور عمل میں لچک اور گنجائش رہتی ہے۔ لیکن انسان کی ذراسی غلطی اس سارے منظر کو الٹ بھی سکتی ہے، یہ کاروبار ہی ہے جو انسان کو اس کی نیند، اس کی صحت، اس کی فیملی، اس کے مکان سے محروم بھی کرسکتا ہے۔ گویا کہ یہ وہ دو دھاری تلوار ہے جسے استعمال کرتے وقت بیحد احتیاط کرنا پڑتا ہے۔ بارہویں قسط ہی میں ،میں نے آپ کو رابرٹ کیوسکی کا واقعہ سنایا تھا، جو لکھ پتی بننے کے بعد کنگال ہوگیا اور چار سال تک نوکری کے بجائے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی جستجو کرتا رہا۔ اس کا گروی شدہ گھر بینک نے ضبط کرلیا اور اس کے پاس رہنے اور سونے کے لیے بس ایک عدد پرانی ٹیوٹا گاڑی تھی جس میں وہ اور اس کی بیوی رات گذارتے تھے، لیکن وہی شخص دوبارہ اٹھتا ہے اور چار سال کے مختصر عرصہ میں دوبارہ ملینئر بن جاتا ہے۔ دنیا کی کوئی جاب یا نوکری ایسی نہیں ہے جو کسی شخص کو اس پیمانے کا عروج، اتنے کم عرصے میں عطا کرتی ہو۔
میرا یہ ارادہ ہے کہ دبئی میں بزنس کرنے والے اپنے ایک چائینز دوست کا تفصیلی احوال کسی وقت آپ کے ساتھ شیئر کروں لیکن یہاں سردست ایک مختصر تعارف پیش کیے دیتا ہوں۔ اس کا اور اس کی بیوی کا چائنیز نام تو کچھ اور ہے لیکن انہوں نے اپنے انگلش نام ٹونی اور سیلی رکھےہوئےہیں۔ ایک دن ٹونی سے میں نے دبئی آنے کی کہانی سنی۔ اس نے کہا کہ میں ایک غریب باپ کا بیٹا ہوں، جس کا دوسال قبل انتقال ہوگیا ہے۔ میں جب پہلی بار دبئی آیا تو میرے پاس کل پونجی ڈہائی ہزار امریکی ڈالر تھے اور وزٹ ویزا تھا جو صرف دو ماہ کا تھا۔ میں نے جو کچھ کرنا تھا اسی رقم اور اسی عرصہ میں کرنا تھا۔ میں واپسی کی کشتیاں جلا کر آیا تھا۔ شروع کے دو چار دن میں ہوٹل کے کمرے میں رہا لیکن پھر اسے چھوڑ دیا کہ وہ بہت منہگا پڑ رہا تھا۔ ابتداء میں میں نے ایک دو جگہ چھوٹی موٹی جابز بھی کیں، چائینیز جوتوں کے ہول سیل کا کام کیا اور بعد میں ایک انٹرنیٹ کیفے بھی کھولا۔ سیلی سے میں نے یہیں دبئی میں شادی کی۔ ہم دونوں میاں بیوی نیٹ کیفے کی طویل ڈیوٹی کے باوجود کچھ بچا نہیں پا رہے تھے اور ہینڈ ٹو ماؤتھ تھے۔ پھر ہمارے ذہن میں، مختلف تجربات کے بعدلیب ٹاپس مرمت کی دوکان کھولنے کا خیال پیدا ہوا۔ یہ کام دیکھتے ہی دیکھتے حیرت انگیز طور پر چلنے، دوڑنے ، چھلانگیں لگانے اور پھر اڑنے لگا۔ ہم نے اپنے ملک سے مزید افراد طلب کیے، آج ہمارے پاس چار دوکانیں ہیں اور اسٹاف کی تعداد کوئی پچیس کے لگ بھگ ہے۔
اس بات کا تو میں خود بھی گواہ ہوں اور پچھلے تین چار سال سے دیکھ رہا ہوں کہ کس تیزی سے انہوں نے ترقی کی ہے۔ اب ماشاء اللہ ان کے پاس اتنا ورک لوڈ ہے کہ کسٹمر جب ان کے پاس لیپ چھوڑتا ہے تو اسے تین دن بعد بتاتے ہیں کہ اتنا خرچہ آئے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت یہ میاں بیوی ملینئر ہیں اور یہ کہانی صرف گذشتہ پانچ سال کی ہے۔
کسی دوست نے کمنٹس میں سوال پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی تحریر میں اب تک صرف یہ بتایا ہے کہ کون لوگ ہیں جن کو کاروبار نہیں کرنا چاہیے تو کیوں نہیں آپ یہ بھی بتادیتے کہ کون لوگ ہیں جن کو نوکری اور جاب نہیں کرنی چاہیے اور ضرور کاروبار ہی کرنا چاہیے۔ تو لیجیے جناب، سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے، آپ کے تصورات کا جہاز کامیابیوں کے رن وے پہ اڑان بھرنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ ہم انشاء اللہ نیلنگوں آسمان کی انتہائی بلندیوں کو چھوتے ہوئے، کامیابی کی منزل پر لینڈ کریں گے۔ اس سفر میں کپتان منتظم خان، کیبن کریو ۔۔۔۔۔ حوصلہ، ہمت، محنت، دیانت، صبر، مستقل مزاجی، قربانی اور والہانہ وابستگی کے ساتھ آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔
[آپ جب تک کپتان سے اعلانات سنیں، میں نماز پڑہ کر آیا، اور اگر رمضان ہوگیا تو تراویح بھی]












نوکری یا کاروبار [ قسط 15]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کیا آپ تیار ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معافی چاہتا ہوں جناب، فلائٹ تھوڑا لیٹ ہوگئی جس کی وجہ یہ تھی کہ کاروبار کے خواہشمند کچھ مسافروں کے کاغذات پورے نہیں تھے۔ حالانکہ اچھی طرح بتادیا گیا تھا کہ اس سفر میں آپ کو جو کاغذات درکار ہوں گے وہ درج ذیل ہوں گے:
۱۔ طبعیت کا رجحان، میلان یا ارادہ
۲۔ مکمل معلومات
۲۔ سرمایہ
۳۔ پراڈکٹ؍ ہنر (جس کی بنیاد پر کاروبار ہونا ہے)
۴۔ مناسب عمر اور صحت
۵۔ پلاننگ یا منصوبہ بندی
۶۔ کاروبار کی فیزیبلیٹی (تحریری صورت میں)
۷۔ اچھوتا خیال یا آئیڈیا
اب دیکھیں ناں کتنی بار اوپر یہ چیزیں بتادی گئی تھیں پھر بھی کچھ لوگ ویسے ہی سفر پر نکل آئے۔ کسی کے پاس سرمایہ نہیں تھا، کسی کے پاس معلومات ہی نہیں تھی کہ کرنا کیا ہے، کسی کے پاس کوئی پراڈکٹ ہی نہیں تھی کہ بیچنا کیا ہوگا، کوئی چھوٹی سی عمر میں آگیا تو کوئی انتہائی پیران سالی میں نکل کھڑا ہواہے۔ اب اگر اوپر بتائے گئے ڈاکومینٹس میں سے کوئی ایک بھی کم ہو تو کامیابی کے بجائے ناکامی مقدر ہوگی اس لیے ضروری ہے کہ جلدبازی کے بجائے مطلوبہ چیزیں مہیا کرنے کا بندوبست کرلیاجائے۔
آگے بڑھے سے قبل ایک بات یہیں پر واضح کرلیں کہ آپ کیا کام کرنے جارہے ہیں۔ کاروبار دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک میں خدمات یا سروسز بیچی جاتی ہیں، دوسرے میں چیزیں یا پراڈکٹس بیچی جاتی ہیں۔ تیسری قسم ان دونوں (یعنی پراڈکٹس اور خدمات کا مکسچر بھی ہوسکتی ہے)۔ خدمات کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایک وکیل، ڈاکٹر، کھانے کا ہوٹل، ٹیکنیشن یا مکینک وغیرہ کی مثالیں ہیں۔ اور پراڈکٹس کا تو سب کو معلوم ہی ہے جیسے، ڈیری آئٹمز، گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس، تعمیراتی سامان کی خریدوفروخت، کپڑا، جوتے، ادویات اور اس طرح کے لاکھوں آئٹمز ہیں جو مارکیٹ میں خرید وفروخت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
ایک مزید بات کی وضاحت: آپ نے بزنس کا لفظ تو سنا ہے جس کو ہم اردو میں کاروبار کہتے ہیں لیکن سیلف ایمپلائمنٹ کا لفظ بہت سارے دوستوں کے لیے نیا ہوگا۔ اصل میں سیلف ایمپلائمنٹ اور بزنس میں ایک معمولی سا فرق یہ ہوتا ہے کہ جو سیلف ایمپلائڈ ہوتے ہیں وہ سارا کام خود کرتے ہیں۔ نہ وہ کسی سے تنخواہ لیتے ہیں نہ کسی کو دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں وکیل یا ڈاکٹر جس کا اپنا کلنک ہو، اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ جبکہ بزنس یا کاروبار اسے کہا جاتا ہے جوذرا بڑے پیمانہ پر ہوتا ہے، جس کا ایک دفترہوتا ہے، جس میں کچھ چیزیں یا خدمات بیچی یا خریدی جارہی ہوتی ہیں اور جہاں کچھ لوگ ملازمین کی حیثیت سے کام کررہے ہوتے ہیں اور اپنی اپنی تنخواہ پا رہے ہوتے ہیں۔
جب آپ کاروبار کے بارے میں سوچیں کہ کیا کرنا ہے، تو سب سے پہلے تین چیزیں دیکھیں۔ اول یہ کہ آپ کا دل کس کام کوشوق سے کرنے کا کر رہا ہے۔ وہی کام کریں کیوں کہ کوئی ایسا کام شروع کردینا جس میں انسان کا دل ہی نہ لگتا ہو، ایسے ہی ہے جیسے پہلے ہی دن سے ناکام ہوننے کا سامان کرلینا۔ مثال کے طور پر کسی نے ساری زندگی کسی اسکول یا کالج میں پڑھیا ہے اور ریٹائر ہونے پر جو رقم ملی بیٹوں کے پریشر میں آکر محلے میں کریانہ کی دوکان کھول لی کہ اس میں بڑا نفع ہوتا ہے اور یہ کاروبار ایسا ہے جس میں نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میری مثال سامنے موجود ہے۔ میں نے اس کاروبار میں صرف اس وجہ سے لاکھوں روپوں کا نقصان کیا کہ یہ میرے ذوق اور دلچسپی کے مطابق نہیں تھا۔ اس لیے کام وہ کیا جائے جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور جس کو کرتے وقت انسان بوریت کے بجائے لطف محسوس کرے۔ اگر اسی مثال کو سامنے رکھا جائے تو ایک ریٹائرڈ ٹیچر کے لیے سب سے اچھا آپشن کوئی اسکول یا انسٹیٹیوٹ کھول لینا تھا۔
دوسری بات یہ دیکھ لیں کہ جو کام آپ کرنے جا رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کو معلومات ہے؟ میں سرسری معلومات کی بات نہیں کررہا بلکہ اس معلومات کی بات کررہا ہوں جو انسان کو اپنے تجربہ یا مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر آپ کو تیرنے کے بارے میں مکمل معلومات ہو تو بھی آپ تیر نہیں سکتے اس کے لیے پانی میں اترنا پڑے گا۔ اسی طرح اگر آپ کو سائیکل چلانے کا صرف مشاہداتی علم ہو لیکن عملی طور پر کبھی آپ نے خود سے سائیکل چلانے کی مشق نہ کی ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ پہلی ہی کوشش میں بغیر نیچے گرے سائیکل چلا لیں۔ اس طرح کا تجربہ مطلوب ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ ایک لمبا عرصہ نوکری کرنے کے بعد فارغ ہوئے ہیں وہ یہ تجربہ کہاں سے حاصل کریں؟ جواب یہ ہے کہ اس کے دو طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ آپ شروع میں کاروبار کرنے کے بجائے کسی جگہ اسی کام سے متعلق ملازمت کرلیں اور اس کے بعد اپنا کام شروع کریں مثلا، آپ گاڑیوں کے اسپیئرپارٹس کا کام کرنا چاہتے ہیں، اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اسی کاروباری چین میں کہیں ملازمت کرلیں اور جب آپ کو اس کاروبار سے متعلق مکمل معلومات حاصل ہوجائے اور اس کا کوئی گوشہ نگاہوں سے اوجھل نہ رہ جائے تو پھر اپنا کاروبار شروع کردیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اسپیئرپارٹس کے کاروبار کا وسیع تجربہ رکھنے والے کسی فرد کی خدمات حاصل کرلیں اور اسے اپنے پاس ملازم رکھ لیں۔ دنیا میں کئی ایسے افراد ہیں جن کے پاس تجربہ اور معلومات تو ہے لیکن سرمایہ نہیں ہے۔ ایسا فرد اگر آپ کو مل جائے تو ایک سال کے اندر وہ آپ کو تمام کی تمام معلومات اور ٹریننگ مہیا کردے گا۔
اس کے بعد تیسری چیز ہے سرمایہ۔ کاروبار شروع کرتے ہوئے کئی چیزیں، گوشے اور پہلو ایسے ہوتے ہیں جن کا انسان کو پتہ نہیں ہوتا اس لیے سرمایہ لگاتے ہوئے جلدی بازی کے بجائے احتیاط کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ یاد رکھیں کہ بڑی رقم روز روز جمع نہیں ہوتی۔ کسی کے پاس اگر دس بیس لاکھ جمع ہوگئے ہیں تو اس طرح کے موقعے زندگی میں بار بار نہیں آتے۔ بیس مختلف جکہوں پر بکھرے ہوئے ایک ایک لاکھ، ایک جگہ موجود بیس لاکھ کے برابر نہیں ہوسکتے۔ اس لیے اگر آپ کو اللہ نے کچھ ایسا موقعہ دے دیا ہے کہ ایک بڑے رقم جمع ہوگئی ہے تو اس کی قدر کریں اور جلدی جلدی میں اس کو ٹھکانے لگانے کی کوشش نہ کریں۔ بلکہ ہر قدم دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر اٹھائیں۔ ہاں وہ لوگ جن کے پاس حرام کا پیسہ ہوتا ہے ان کو یقینا اس بات کی پروا نہیں ہوگی۔ آج وہ دس لاکھ گنوائیں گے، کل وہ کسی اور کا گلا کاٹ کر دوبارہ اتنی یا اس سے زیادہ رقم جمع کرلیں گے۔ لیکن ایک سفید پوش اور ایماندار شخص کے لیے دس بیس لاکھ ایک بہت بڑا اماؤنٹ ہوتا ہے۔
محفوظ سرمایہ کاری کے دو بڑے اصول ہیں جو نیچے درج کیے جاتے ہیں:
۱۔ کبھی بھی کاروبار شروع کرتے وقت تمام کی تمام رقم ایک ساتھ نہ لگادیں۔ بلکہ جو رقم آپ کے پاس موجود ہے اس کا تیسرا حصہ ۳۳فیصد لگائیں۔ اس طرح مستقبل میں آپ کو غلطیوں کی اصلاح اور سنبھلنے کا موقعہ ملے گا۔ ایک ہی جست میں ساری رقم، بڑے نفعہ کے لالچ میں لگادینے سے رقم ڈوبنے کا خطرہ بھی اتنا ہی بڑا رہتا ہے، اور اگر یہ ہوگیا تو پھر شاید افسوس کرنے کا بھی موقعہ نہ ملے۔ اس لیے احتیاط سے اگے بڑھیں۔ میرے ایک دوست نے کافی سال قبل یہاں دوبئی میں ایک نئی کمپنی کھولی اور کسی کو اس میں پارٹنر بنالیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے وہی کاروبار شروع کیا ہے جس میں تمہیں کافی پرانا تجربہ ہے اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ بغیر پارٹنر کیے تم اکیلے یہ کاروبار کرسکتے تھے تو پھر پارٹنر کیوں رکھا۔ اس نے جواب دیا کہ رسک فیکٹر کو کم سے کم کرنے کے لیے۔ کہ اگر نقصان ہو تو میں اپنی ساری پونجی سے محروم نہ ہوجاؤں۔ آج دس سال بعد بھی مجھے اس مہربان دوست کی یہ بات یاد ہے۔
۲۔رقم ایسی جگہ لگائیں جہاں سے واپس نکالنا بھی آسان ہو۔ اس کے دومطلب ہیں۔ ایک تو فرد سے متعلق ہے دوسرا پرجیکٹ سے متعلق۔ کوئی بھی ایسا فرد یا ادارہ جس کو آپ اچھی طرح نہیں جانتے اس کے حوالے اپنی پوری پونجی کردینا دانشمندی نہیں ہے۔ ہمارے سامنے نوازشریف کے پہلے دؤر کی کوآپریٹو سوسائیٹیز کی مثالیں موجود ہیں جب لاکھوں لوگوں نے اپنی ریٹائرمنٹ سے حاصل ہونے والی رقوم منافعہ کی امید پر لگائی تھیں جو آج تک واپس نہیں ہوئیں۔ اس کے بعد تاج کمپنی اور اب مضاربہ اسکینڈلز ہمارے سامنے ہیں۔ اسی لیے ترقی یافہ ممالک میں وہ لوگ جن کے پاس کچھ رقم ہوتی ہے، معروف کمپنیوں کے حصص (شئیرز) خریدلیتے ہیں۔ گوکہ وہاں بھی نقصان کا اندیشہ رہتا ہے کہ آجکل دنیا میں شیئرزمارکیٹ کو اتھل پتھل کرنے کے لیے بھی کئی کھیل کھیلے جاتے ہیں لیکن پھر بھی یہ طریقہ قدرے محفوظ ہے کہ اس کے پیچھے بہت بڑی بڑی کمپنیاں ہوتی ہیں جن کی اپنی ایک ساکھ ہوتی ہے ۔
دوسرایہ کہ رقم لگاتے وقت اس کی واپسی پہلے سے ورک آؤٹ کرلی جائے کہ کب اور کیسے ہوگی۔ کسی ایسے کام میں رقم لگانا دانشمندی نہیں جو بہت پھیلا ہوا ہو اور جس کے حساب کتاب ہی میں کئی ماہ لگ جائیں۔ جیسے اگر کوئی شخص کسی گروسری یا پرچون کی دوکان میں رقم لگاتا ہے تو نہیں معلوم پڑتا کہ کاروبار کس طرف جارہا ہے، کتنے اخراجات ہوئے، کتنا اسٹاک موجود ہے، کتنا پرافٹ ہوا۔ اس کے لیے ایک طویل مشق سے گذرنا پڑے گا۔ اس کے بجائے وہی رقم اگر مختصرالمیعاد منصوبوں یا کنسائنمنٹ طرز کے بزنس میں لگائی جائے تو نقصان کا اندیشہ بھی کم سے کم ہوگا اور رقم بھی جلد ہاتھ میں واپس آجائے گی۔
مثلا کچھ وقت کے بعد عیدقرباں کے جانورں کا کاروبار عروج پر ہوگا۔ اگر آپ سے کوئی انتہائی بااعتماد دوست یہ کہتا ہے کہ یار میں یہ کام کرسکتا ہوں کہ دیہات سے سستے جانور خرید کر عید سے پہلے بڑے شہروں کی منڈیوں میں بیچوں توامید ہے کہ اچھا نفعہ ہوگا۔ تو یہ کام ایک مختصرالمیعاد پروجکٹ ہے۔ جس کا نفعہ نقصان کچھ ہی دنوں میں سامنے ہوگا اور کام بھی مکمل طور پر وائنڈاپ یا مکمل ہوجائے گا۔
اسی طرح ٹرانزیکشن طرز کے کاروبار میں پیسہ لگانے سے بھی فائد ہ ہوسکتا ہے۔ مثلا آپ کے کسی دوست کا گاڑیوں کا کاروبار ہے۔ آپ نے کسی ایک گاڑی پر رقم لگالی یا ایک گاڑی خرید کر اس کے شوروم پر کھڑی کردی اب جیسے ہی گاڑی فروخت ہوئی آپ کی رقم مع نفع یا نقصان آپ کے پاس واپس آگئی۔ اس طرح کی کاموں کو کنسائنمنٹ طرز کا کاروبار کہتے ہیں۔ جس کی بہت ساری اقسام اور تفصیلات ہیں جو پھر کبھی مناسب موقعہ پر۔
اس کے بعد آتے ہیں اگلے نکتے پہ۔ جو ہے ’اچھوتا خیال‘ ۔ یا ’نیا آئیڈیا‘۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دنیا میں صرف اس پوائنٹ کی وجہ سے کئی کاروبار چل نہیں بلکہ اڑ رہے ہیں۔ اچھوتا خیال یا یونیک آئیڈیا کسی کاروبار کے لیے ایسی زبردست قوت ہے کہ بعض اوقات لوگ اس کی وجہ سے سرمائے کے بغیر بھی کام چلا لیتے ہیں۔ میری کہانی میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ کتب کا کاروبار کیسے شروع کیا، صفر سرمایہ کاری سے۔ اسی طرح کمپیوٹر ہارڈویئر کا کام بھی صرف ایک اسکروڈرائیور سے شروع کیا، وہ بھی میرا اپنا نہیں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں کسی مرحلے پر سرمایہ اور دیگر چیزوں کی ضرورت بھی پڑتی ہے لیکن لوازمات کی اس لسٹ میں سب سے اہم چیز یہی ہے یعنی کوئی اچھوتا خیال یا آئیڈیا۔
میں نے کئی سال قبل ایک انڈین لیڈی کی کامیابی کی اسٹوری پڑھی تھی جو ایک گھریلو عورت تھی اور انگلینڈ میں رہتی تھی۔ ایک دن گھر کا سودا سلف لینے کے لیے وہ قریبی سپر مارکیٹ میں گئی۔ مارکیٹ میں چلتے پھرتے اس کی نگاہ جب بیکری سیکشن میں رکھی چیزوں پر پڑی تو یکایک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے سوچا کہ انڈین سموسے تو میں بہت لذیذ بنالیتی ہوں۔ کیوں نہ کچھ سموسے بنا کر سپرمارکیٹ میں رکھوادوں اگر چل گئے تو ٹھیک ورنہ کون سا میرا جہاز ڈوب جائے گا۔
یہ خیال آتے ہی اس نے دس بیس سموسوں کا سامان خریدا ۔ گھر جاکر سموسے تیار کیے اور سپرمارکیٹ مینجمنٹ سے بات کی کہ میں تجرباتی طور پر کچھ سموسے یہاں رکھواتی ہوں اگر چل گئے تو آپ کا کمیشن کھرا ورنہ میں اپنے گھر میں خوش۔ سپر مارکٹ والوں کو اس پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا وہ فورا مان گئے اورسموسے وہاں رکھ لیے۔ اس لوکلٹی میں چوں کہ ایشیائی لوگ زیادہ رہتے تھے اور مارکیٹ میں آنے والوں میں بھی انہی کی اکثریت تھی اس لیے حیرت انگیز طور پرپہلے ہی دن سارے سموسے فروخت ہوگئے۔ خاتون کو بڑا حوصلہ ملا۔ اس نے اگلے دن کچھ اضافے کے ساتھ مزید سموسے وہاں رکھوائے۔ وہ بھی بک گئے۔ یہ سلسلہ کچھ وقت تک چلتا رہا، سموسوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور سپرمارکیٹ والوں کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کیوں کہ جن لوگوں کا ٹیسٹ ڈویلپ ہوچکا تھا وہ اس کے روز کے عادی بن گئے۔ پھر اس خاتون نے قریب کی دو چار سپرمارکیٹوں کا وزٹ کرکے ان کے پاس بھی اسی طرح سموسے رکھوائے، دیکھتے ہی دیکھتے مانگ میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور کام اتنا بڑھ گیا کہ اب خاتون کو کچھ ہیلپر رکھنے پڑے۔ ساتھ ہی اس نے شہر کے کچھ دوردراز تک کی سپرمارکیٹوں کو اپروچ کرکے اپنی پراڈکٹ بھیجنا شروع کی۔ قریبی منازل تک ڈلیوری کے لیے اسے ایک سائیکل والا رکھنا پڑا جبکہ دودراز کی ڈلیوری کے لیے گاڑیوں کا نیٹ ورک بنایا۔ ایک دو سال کے اندر کیفیت یہ بن گئی کہ خاتون کا اپنا گھر اس کام کے لیے ناکافی بن گیا اس لیے اسے الگ سے ایک جگہ کرائے پر لے کر باقاعدہ سارا کاروبار وہاں منتقل کرنا پڑا۔ اب اس کے کئی ملازمیں تھے اور لندن کے علاوہ کئی دیگر شہروں میں اس کی پروڈکٹس پہنچ چکی تھیں۔ چند ہی سالوں میں اس کا شمار ایک باقاعدہ مالدار خاتوں میں ہونے لگا جس کے سینکڑوں ملازمین تھے، کئی طرح کی بیکری پروڈکٹس تھیں اور ترسیل کا ایک بڑا نیٹ ورک تھا۔
دور کیوں جاتے ہیں، اپنے ملک میں دیکھ لیں، یہ جو عید کے دنوں میں غریب لوگ کاغذ کی پھرکیاں اورنئے نئے کھلونے بنا کرسامنے رکھتے ہیں تو کیسے وہ ہاتھوں ہاتھ بک جاتےہیں۔ چیز چھوٹی ہو یا بڑی، بات اچھوتے خیال کی ہو رہی ہے۔ تو جب آپ کاروبار کا خیال دل میں لائیں تو سب سے پہلے یہ سوچیں کہ کیا آپ کے پاس یسا منفرد خیال یا آئیڈیا ہے جس پر نگاہ پڑتے ہی لوگ عش عش کر اٹھیں۔ اس بات کا تجرباتی مشاہدہ کرنے کا اگر کبھی شوق ہو تو کراچی کے کھوڑی گارڈن چلیں جائیں، وہاں آپ کو ہر بار ایک جدت ملے گی اور کوئی نیا تجربہ ہوگا۔ کوئی نئی چیز اور خیال ملے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی زمانے میں جب امریکی اور یورپی کھلونے پوری دنیا میں فروخت ہوتے تھے تو چین نے اس میدان میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں کھلونوں کی مارکیٹ پر چھا گیا۔ وجہ؟ وجہ یہ کہ نہ صرف وہ کھلونے سستے ہوتے ہیں بلکہ ان میں ہر بار جدت بھی ہوتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ کھلونے تو بکتے ہی وہ ہیں جن میں کوئی نئی یا خاص بات ہو، جدت ہو۔ اور یہ بات صرف کھلونوں ہی تک محدود نہیں، اس وقت چین کی صنعت ہر میدان میں انہی اصولوں پر آگے بڑھ رہی ہے، مناسب قیمت اور جدت۔
اس کی مثال بھی دیتا چلوں۔ ہم بچپن سے گھروں کی چھت پر ٹی وی اینٹینا دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ جب ٹی وی نشریات صاف نہیں آتی تھیں تو ہم کیاکرتے تھے؟۔ ایک بھائی چھت پر چلا جاتا ہے اور اینٹینا کو گھمانا شروع کرتا ہے اور دوسرا اسے بتاتا رہتا ہے کہ تصویر ٹھیک ہوئی کہ نہیں اور جہاں تصویر ٹھیک ہوجاتی ہے، اینٹینا کو وہیں سیٹ کرلینےکا بول دیتا ہے۔ میں نے ایک جگہ ایک آلہ دیکھا۔ دوکاندار سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ رموٹ ہے جو ٹی وی اینٹینا کو نیچے بیٹھے بیٹھے کنٹرول کرتا ہے اور آپ چھت پر جائے بغیر یہیں بیٹھے بیٹھے اس کا رخ درست کرسکتے ہیں۔ اب دیکھیں یہ ایک آئیڈیا اور اچھوتا خیال ہے۔ اسی طرح جب آپ کسی سپرمارکیٹ میں جاتے ہیں تو وہاں کئی چیزیں آپ کو نئی ملتی ہیں اور اچھوتے آئیڈیاز بکھرے پڑے ہوتے ہیں۔ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ اس کا ہاتھ نئی چیز ہی طرف بڑھتا ہے۔
میرے اسی چینی دوست کی دبئی میں جو دوکان ہے جس کا پہلے تذکرہ ہوچکا ہے۔ اس نے اپنی دوکان میں کوئی ایسا سسٹم بنایا ہوا ہے کہ جب وہ یہاں سے چین جاتا ہے تو دوکان میں لگی کسی ڈیوائس پہ ایک مس کال دیتا ہے تو ساری لائٹیں بند ہوجاتی ہیں۔ دوبارہ مس کال دیتا ہے تو ساری لائٹیں کھل جاتیں ہیں۔ یہ اس نے اس لیے کیا ہے کہ بعض اوقات ملازمین دوکان کی لائٹیں کھلی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ یا بعض اوقات مارکیٹ تو کھلی ہوتی ہے لیکن ان کی دوکان کسی وجہ سے بند ہو تو کام کے دنوں میں دوکان کا اس طرح بغیر لائٹوں کے بند رہنا اچھا تاثر نہیں دیتا اس لیے وہ گھر بیٹھے بیٹھے لائٹوں سے کھیلتا رہتا ہے۔ اب یہ کیا ہے؟ ایک اچھوتا خیال اور آئیڈیا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ چائنا جائیں اور وہاں کی مارکیٹوں میں گھومتے پھرتے رہیں تو ہر قدم پر آپ کو حیران کرنے والی نت نئی چیزوں سے واسطہ پڑے گا، یہی آج کے چین کی ترقی کا اہم راز بھی ہے۔
سوچا تھا کہ یہ قسط آخری ہوگی، لیکن باتیں ختم نہیں ہورہیں۔ کہیں آپ بور تو نہیں ہورہے؟ کیا کہا؟ ۔۔۔ ذرا اونچا بولیں۔۔مزہ آرہا ہے۔ تو پھر، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جڑے رہیے [جاری]
نوکری یا کاروبار [ قسط 16 (آخری قسط]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تو لیجیے جناب، تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کسی کمپنی نے اخبار میں کسی اسامی کے لیے اشتہار دیا۔ مختلف امیدوار انٹرویو کے لیے کمرے میں جاتے رہے اور ناکام ہوکر واپس نکلتے رہے۔ امیدواران میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا جس کے پاس کسی بھی میدان میں مہارت یا تخصص نہیں تھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ تم کیا کام جانتے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ میں اور تو کچھ نہیں جانتا مگر ایک کام جانتا ہوں وہ یہ کہ میں ورکرز سے کام لینا جانتا ہوں۔ انٹرویو لینے والے نے کھڑے ہوکر اس سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ تم پاس ہوگئے ہمیں ایسے ہی فرد کی ضرورت تھی جو لوگوں سے کام لینے کا ہنر جانتا ہو۔


دوسری مثال:
بل گیٹس ایک کمپیوٹر پروگرامر تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چاہے وہ کتنا ہی اچھا پروگرامر ہوتا کیا وہ اس جگہ پر پنہچ سکتا تھا جہاں آج ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس کو اللہ نے وہ صلاحیت دی جو بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔ وہ ہے لوگوں سے کام لینے کا ہنر۔ آج اس کے لیے ہزاروں پروگرامرز کام کر رہے ہیں۔ اس لیے کاروبار کوئی بھی ہو یہ واحد صلاحیت ہے جو کاروبار کے گراف کو کہیں سے کہیں پنہچادیتی ہے۔ ایک گیند کو ہوا میں اچھال کر کیچ کرنا کوئی کمال نہیں ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ آدمی تین چار گیندوں کو بیک وقت ہوامیں اچھالتا اور کیچ کرتا رہے۔


ایک فرد جس نے کاروبار کرنے کی ٹھان لی ہے اس کے اندر چند شخصی اوصاف ہونا بہت ضروری ہیں: ایک یہ کہ وہ ٹیم پلئیر ہو، دوئم یہ کہ وہ اپنی زندگی میں منضبط (disciplined) ہو۔ سوئم یہ کہ وقت اور وسائل کا ٹھیک استعمال جانتا ہو (نوٹ:انشاء اللہ ٹائم مینجمنٹ پر میری ایک پریزنٹیشن تیار ہے، وہ اس سیریز کے بعد جلد شیئر کروں گا۔)
گذشتہ اقساط میں نوکری پیشہ افراد کے لیے احتیاطی تدابیر اور محفوظ ایگزٹ پلان سے متعلق تفصیل سے بات ہوئی ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ میں نے ہمیشہ‘‘ احتیاط ’’کی بات کی ہے ‘‘خوف’’ کی نہیں۔ دونوں میں فرق ہے۔ آپ بلکل بولڈ اقدامات اٹھایے لیکن دیکھ بھال کر۔


آج کی اس قسط میں میرے مخاطب دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو ریٹائر ہوچکے ہیں یا ہونے کے قریب ہیں دوسرے وہ جن کی ریٹارمنٹ میں ابھی دس پندرہ سال باقی ہیں ۔ رہے وہ افراد جو تازہ تازہ اپنی تعلیم مکمل کرچکے ہیں اور کسی فیلڈ میں تخصص حاصل کرلیا ہے، ان کے بارے میں تو پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ وہ کاروبار شروع کرنے سے پہلے دو تین سال کسی اچھی کمپنی میں تجربہ حاصل کرنے کے لیے کام کریں اس کے بعد کاروبار کا سوچیں۔ چاہے ان کے والدین کے پاس کتنا ہی پیسہ کیوں نہ ہو۔


اغاز کرتے ہیں ریٹائرڈ افراد سے یا وہ لوگ جو ریٹائر منٹ کے قریب ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ان کو ریٹائرمنٹ پر ایک معقول رقم مل جائے گی جس سے کہ وہ کوئی کاروبار کرسکیں۔ ان کے لیے پہلے بھی عرض کیا گیا تھا کہ وہ کوئی ایسا کام نہ سوچیں جس سے ان کی رقم طویل عرصہ کے لیے بلاک ہوجانے کا خطرہ ہو یا کوئی ایسا کاروبار ، جس کے آمدن اور اخراجات کا کوئی اندازہ ہی نہ ہو۔ مثلا، اگر کوئی یہ سوچے کہ اس رقم سے کوئی جنرل اسٹور کھول لیں گے یا کوئی گاڑی لے کر ٹیکسی کے طور پر چلانے کے لیے کسی کو دے دیں گے یا زرعی زمین خرید کر اس پر فصل اگائیں گے۔ تو یہ سب پرخطر کام ہیں۔ جس طرح ایک موقعہ پر زمین بیچنا غلطی تھا اسی طرح عمر کے آخری حصہ میں کاشت کی نیت سے زمین خریدنا میرے خیال میں دانشمندی نہیں۔ ہاں البتہ دو صورتوں میں احسن ہے۔ اول: روزگار کا کوئی دوسرا معقول بندوبست ہو۔ دوئم: اولاد بھی ایسی ہو جو اس کو سنبھال سکے۔ ایسا نہ ہو کہ آنکھ بند ہوتے ہی اولاد اس کو بیچ دے اور آدمی کی ساری زندگی کی پونجی لٹ جائے۔


اسی طرح دوکانداری ہے۔ جو ایک نہایت محنت طلب اور مشکل کام ہے۔ جس کا اندازہ ان لوگوں کو ہے جو تنہا ہیں، گھر کا کوئی فرد، بھائی یا بیٹا وغیرہ ساتھ نہیں ہے۔ کیوں کہ ایک آدمی کا مسلسل دوکان پر بیٹھنا اور پھر مارکیٹ جا کر مال کی خریداری کرنا وغیرہ بہت مشکل عمل ہے۔ کوئی بھی دوکان کھولنے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کا کوئی ایک فرد بھی ساتھ ہو۔ وہ چھوٹا بھائی بھی ہوسکتا ہے اور بیٹا بھی۔ لیکن ان کے رجحان اور دلچپسی کو بھی ضرور دیکھ لیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کو تو دلچسپی ہو لیکن جس پر تکیہ کر کے آپ کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں اس کی دلچسپی کچھ اور ہو۔ یہ یاد رکھیں کہ پاکستان کا عام پڑھا لکھا نوجوان دوکان پر بیٹھنے کو پسند نہیں کرتا اور اس پر ملازمت کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ ہماری قوم کی ایک نفسیات ہے ورنہ دنیا بھر میں یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔ میں نے دبئی میں ایک کمپیوٹر شاپ خریدی جو صرف ایک سال چلی ہوئی تھی۔ اس کا مالک کراچی کا ایک ریٹائرڈ شخص تھا جس نے اپنی پونجی اپنے سگے بھتیجے پر تکیہ کرتے ہوئے اس دوکان پرلگائی تھی۔ بھتیجا کمپیوٹر کا کام جانتا تھا اوررقم لگانے والے صاحب، جو کہ ساٹھ کی حد کراس کر چکے تھے، کمپیوٹر کے کاف سے بھی نابلد تھے۔ اچانک بھتیجے صاحب کا میٹر گھوما ، اس نے ولایت کی طرف اڑان بھری اور پیچھے انکل کو تنہا تڑپتا چھوڑگیا۔ مجبورا ،انکل کو وہ دوکان فروخت کرنا پڑی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ رقم لگانی ہے تو اپنے بل بوتے پر لگائیں کسی بھانجے بھتیجے کے آسرے پر مت رہیں۔ ہاں اگر بیٹا یا بیٹی آپ کے کام میں معاون ہوسکتے ہیں تو ان کو ضرور شامل کریں۔ لیکن ان کی بھی دلچسپی اور رجحان کو دیکھ لیں کہ نئی پوت کی سوچ بھی وکھری ہے۔


نوکری پیشہ افراد کے لیے دو چیزیں ایسی ہیں جو ان کے لیے کاروبار کے آغاز کے لیے پہلی سیڑھی کا کام کرسکتی ہیں۔ ان میں سے پہلی ہے جزوقتی یا پارٹ ٹائم کاروبار جس کا کچھ ذکر اوپر بھی کیا گیا ہے اور دوسری ہے گھر سے کاروبار کا آغاز جس کو انگلش میں (home based business) کہا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق امریکہ کی سمال بزنس انڈسٹری کا ۵۲ فیصد گھریلو بزنس پر مشتمل ہے اور وہاں ۲۸ ملین یعنی دوکروڑ اسی لاکھ کمپنیاں گھروں سے کاروبار کر رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی طرح کے کاروبار ہیں جو لوگ اپنے گھروں سے کر رہےہیں اور ٹھیک ٹھاک گذارا کر رہے ہیں۔ اگر گھر سے کاروبار کرنے کے امکانات پر نظر ڈالی جائے تو آپ دیکھیں گے کتنے ہی لوگ پہلے سے یہ کاروبار کررہے ہیں میں صرف نشاندہی کردیتا ہوں۔


۱۔ ٹیوشن سینٹر: اگر آپ کے گھر کا بیرونی کمرہ ایسا ہے جس میں آپ ایک ٹیوشن سینٹر کھول سکتے ہیں تو یہ ایک چلتا ہوا کاروبار ہے جس میں نقصان کا امکان یوں کم ہے کہ اس میں کوئی خاص رقم نہیں لگتی۔ اگر آپ کو انگلش یا ریاضی پر عبور حاصل ہے تو پھر آپ کی پانچوں انگلیاں گھی میں اگر نہیں تو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ کوئی استاد تنخواہ پر یا ففٹی ففٹی پر رکھ سکتے ہیں۔ اور جب دیکھیں کہ کام چل پڑا ہے تو ساتھ ہی کوئی بڑی جگہ لے لیں اور آہستہ آہستہ کام کو بڑھاتے چلے جائیں۔


۲۔ طلباء کے لیے ہاسٹل: ہمارے یہاں کافی طلبہ ایسے ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔ ایسے طلبہ یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں رہنے کے بجائے شہروں میں رہنا پسند کرتے ہیں کہ وہاں سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ آپ اس کی پلاننگ کرسکتے ہیں کہ جب یونیورسٹیوں میں داخلہ کا موسم آئے تو کوئی مکان کرائے پر لے کر ایسے طلبہ کو کرائے پر دے دیں۔ اس میں ایک کام یہ بھی ہوسکتا ہے ان کے کھانے پینے کا بندوبست بھی ساتھ رکھا جائے، جس سے ایکسٹرا آمدنی ہوگی۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ کام آہستہ آہستہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ طلبگار موجود ہوتے ہیں مگر کمرہ نہیں ملتا۔


۳۔ جو لوگ ریٹائر ہو کر کچھ کرنا چاہتے ہیں میری دانست میں ان کے لیے بہترین کاروبار پراپرٹی کی خریدوفروخت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ سوچیں کہ اس کے لیے تو بہت زیادہ رقم درکار ہوگی۔ ایسا نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس دس لاکھ بھی ہیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر کسی کے پاس پانچ لاکھ بھی ہیں تو وہ یہ کاروبار کرسکتا ہے۔ اگر کوئی دوکان کرائے پر لے کر اسٹیٹ ائجنسی کھول لے تو بہت ہی اچھا ورنہ اس کے بغیر بھی آغاز کیا جاسکتا ہے۔ یہ کاروبار شروع کرنے کے لیے تھوڑا سا فیلڈ ورک درکار ہوگا جو کہ کسی دوسرے تیسرے فرد سے بھی کروایا جاسکتا ہے۔ کسی اخبار میں ایک چھوٹے سے اشتہار کی بات کرلی جائے۔ پورے ماہ کے لیے اشتہار کا معاہدہ کرنے پر اخبار والے بھی کافی ڈسکاؤنٹ دے دیتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں اس فیلڈ میں بہت کم لوگوں کو نقصان کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کام میں برکت ہی برکت ہے۔ جو چیز آپ پانچ لاکھ میں خریدیں گے وہ کبھی بھی اس سے کم میں نہیں بکے گی۔ لیکن ایک چیز کا خیال ضروری ہے کہ کوئی پھڈے فساد والی پراپرٹی نہ ہو یا جعلی کاغذات والی پراپرٹی نہ ہو۔ اس فیلڈمیں دھوکہ سے کس طرح بچا جاسکتا ہے، آپ کسی بھی تجربہ کار فرد کے ساتھ کچھ وقت لگا کر سیکھ سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ منہگی پراپرٹی ہی خریدیں، اگر آپ کسی ایسے علاقہ میں رہتے ہیں جہاں املاک کی قیمت زیادہ ہے تو آپ کسی زیر تعمیر اور ڈولپنگ ایریا کی طرف جاکر یہ کام کرسکتے ہیں۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں کہ جو دوسرے چھوٹے شہروں میں جاکر کوئی دوکان خرید لیتے ہیں اور پھر بیچ دیتے ہیں یا کوئی ایسا مکان خرید لیتے ہیں جس کی تھوڑی مرمت اور کام کروانے کے بعد دو حصوں میں تقسیم کرکے الگ الگ بیچ دیتے ہیں اور تقریبا دوگنا منافع کماتے ہیں۔ پھر اسی رقم کو کسی بڑی ڈیل کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ لوگوں نے اسی کی دہائی میں بیس بیس ہزار سے اس کاروبار کا اغاز کیا ہے، کوئی چھوٹی سی دوکان کسی کونے کھدرے میں خریدی اور بیچ دی۔ اس طرح رقم کی سرکیولیشن ہوتی رہتی ہے۔


۴۔ گارمنٹس کا کاروبار: اگر گھر کا کوئی فرد کپڑوں کی سلائی کا کام جانتا ہے تو بہت اچھا اگر نہیں تو کسی ماہر خاتون یا مرد درزی کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ شروع میں ایک دو مشینوں سے کام کا آغاز کریں، جب چل پڑے تو مشینیں اور کاریگر بڑھاتے چلے جائیں۔ تیار کپڑوں کی شروع میں خود مارکیٹنگ کریں تاکہ آپ کو مارکیٹ کا براہ راست مشاہدہ ہو بعد میں سیلز کے لوگ بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ اگر یہ کام ایک بار چل پڑے تو پھر زیادہ زور لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی، لگے بندھے کسٹمر تیار مال ہاتھوں ہاتھ لیتے رہتے ہیں۔


۵۔ مصنوعی جیولری اور کاسمیٹکس کا سامان: اس کام میں نفعہ کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ شروع میں آپ لوکل مارکیٹ ہی کے ہول سیلرز سے مال اٹھائیں، جب کام سمجھ میں آجائے اور چل پڑے تو پھر چائنا سے بھی منگوایا جاسکتا ہے۔ خاص دنوں اور سیزن میں جیسے عید وغیرہ کے مواقع پر تو اس کی بڑی طلب ہوتی ہے۔ بس ایک ہی چیز اس میں چاہیے ہوتی ہے وہ ہے جدت۔ اگر آپ ایسی مصنوعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جو نت نئے ڈئزائنز پر مشتمل ہیں تو آپ کا مال ہاتھوں ہاتھ بکے گا۔


۶۔ فوڈ سپلائی: یہاں دبئی میں اور ہر اس بڑے شہر میں جہاں لوگ ڈیوٹی کے دوران لنچ کے لیے گھر پر نہیں جاسکتے ٹفن سسٹم ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سنہ ۲۰۰۵ تا ۲۰۰۸ میں نے بھی ٹفن لگوایا ہوا تھا۔ ایک خاتون اپنے گھر پر مختلف سالن اور روٹیاں تیار کرکے اسٹیل کے ٹفن میں بند کرکے، اپنے شوہر کو ساتھ لے خریداروں تک پنہچاتی تھی۔ خود گاڑی ڈرائیو کرتی تھی اور اس کا میاں گاڑی میں سے اتر اتر کر لوگوں کے دروازے پر ٹفن پنہچاتا تھا۔ گوکہ یہ ایک مشکل کام ہے اور شاید بہت سارے دوست اس کو اچھا نہ بھی سمجھیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ اس خاندان کا سارا گذارا اسی پر ہو رہا تھا۔


اس کے مقابلے میں اگر کوئی کیٹرنگ سروس کا سوچے تو یہ ایک بڑے بزنس کی بنیاد بن سکتی ہے۔ آغاز چھوٹی چھوٹی پارٹیوں اور دعوتوں سے کرے، بعد میں جب کام مستحکم ہوجائے تو الگ سے جگہ لے کر باقاعدہ کاروبار کی بنیاد ڈال لے۔ جن لوگوں کا کام سیٹ ہے ان سے پوچھیں شادیوں کے سیزن میں ان کو بہت پہلے سے آرڈر مل جاتے ہیں اور مزید کی گنجائش نہیں رہتی۔


۷۔ گرم مسالے اور خشک میوہ جات: آپ ایک دو گرائنڈر مشینیں لے لیں اور بازار سے تین چار کلو ثابت گرم مسالے لے کر گرائنڈ کریں اور خوبصورت پیکنگ میں پیک کر کرکے دوکانوں پر سپلائی کریں۔ چھوٹے پیمانے سے آغاز کریں اور طلب کے حساب سے بڑھاتے چلے جائیں۔ دیکھیں کس طرح یہ کام بھی چلتا ہے۔ بس آپ نے کوالٹی اور صفائی کا خاص خیال رکھنا ہے۔


گذشتہ پندرہ اقساط سے لے کر اب تک میں نے کسی بھی کاروبار کے آغاز اور کامیابی کے ساتھ چلانے سے متعلق اپنے تجربے، مشاہدے اور فہم کے مطابق تمام باتیں درج کردی ہیں۔ اسی دوران کئی احباب کی ای میلزبھی موصول ہوئی ہیں اور ان باکس میسجز بھی جن میں وہ اپنے ذاتی کیسز کو بیان کرنے کے بعد مشاورت چاہتے ہیں کہ کاروبار کریں یا ملازمت، کاروبار کریں تو کونسا کریں وغیرہ۔ یہاں یہ بات واضح کردینا مناسب رہے گا کہ میں نے کوشش کی ہے کہ ملازمت اور کاروبار میں سے کسی چیز کا انتخاب کرتے وقت جن باتوں کو دہیان میں رکھنا چاہیے ان کی نشاندہی کردی جائے۔ کاروبار کے لیے کن کن چیزوں کا ہونا لازمی ہے، ان پر بات کی جائے اور کن لوگوں کو کاروبار کے بجائے نوکری ہی کو جاری رکھنا بہتر اس کو واضح کردیا جائے۔ بہت مشکل ہوگا کہ دو اور دو چار کی طرح کسی کو مشورہ دوں کہ وہ کیا کاروبار کرے۔ اس کے لیے پورےکیس کو گہرائی سے دیکھنا پڑے گا اور فرد کی ذاتی دلچسپی ، صلاحیتوں، موجود وسائل اور خامیوں، جس جگہ کاروبار ہونا ہے اور جس چیز کا کاروبار کرنا ہے، تمام امور کو تفصیل سے جاننے، تجزیہ کرنے کے بعد کسی نتیجے پر پنہچا جاسکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی صاحب کسی بزنس کا خاکہ ذہن میں رکھتے ہیں اور مشورہ چاہتے ہیں تو میں کوشش کروں گا اپنی بساط اور علم کے مطابق انہیں مشورہ دوں۔ یہ کام ایک دو پوسٹس میں سوال و جواب کی صورت میں بھی کیا جاسکتا ہے۔


اب رہ جاتی ہے بات کہ کہاں سے آغاز کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے اہم چیز ہے معلومات۔ بلکہ یوں کہیں کہ مکمل معلومات۔ اس کے لیے مختلف ذرائع استمال کیے جاسکتے ہیں۔ آپ سفر پر نکلیں ایک شہر سے دوسرے شہر جائیں۔ آپ کا یہ دورہ صرف مطالعاتی ہو۔ دیکھیں لوگ کیا کچھ کر رہے ہیں، دوکانوں پر کیا کچھ بک رہا ہے۔ اگر آپ کسی ایسے علاقہ میں رہتے ہیں جو کسی خاص حوالہ سے مشہور ہے تو پھر اپنے محل وقوع کا فائدہ اٹھائیں۔ مثلا: سیالکوٹ میں رہنے والے وہاں کی صنعت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں سیالکوٹ کی چیزیں بکتی ہیں۔ کھیلوں کا سامان تو ہے ہی لیکن ایک اور آٗئٹم ہے وہ ہے ہاتھوں میں پہننے والے دستانے جو کام کاج کرنے والے مزدور اور ٹیکنیکل لوگ پہنا کرتے ہیں۔ اس میں کئی طرح کی اقسام ہیں۔ اتنا بتا دوں کہ دبئی میں ان دستانوں کی اتنی مانگ ہے کہ لوگ چائنا کے دستانے منگوا کر سیالکوٹ کے نام پر بیچتے ہیں۔ یہ ایک مثال ہے۔ ورنہ پاکستان کا ہرشہر اور علاقہ کسی نہ کسی حوالہ سے ایک تخصص اور خاص مقام رکھتا ہے۔ اپنی اس طاقت کو پہچانیں اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں اور معلومات لے کر کام کا آغاز کریں۔ آپ اس کے علاوہ کسی صنعتی شہر کا بھی دورہ کرسکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں کیا کچھ تیار ہو رہا ہے کیا کچھ بک رہا ہے۔ آپ بزنس ڈائریکٹریز دیکھ سکتے ہیں کہ کتنی اقسام کی خدمات اور اشیاء وہاں موجود ہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر گوگل کرسکتے ہیں، آپ مختلف شہروں اور ملکوں میں ہونے والی بڑی بڑی نمائشوں اور شوز میں شرکت کرسکتے ہیں جن میں شرکت کے بعد انسان کا دماغ کھلتا ہے اور سوچ کے لیے نہایت ہی کارامد مواد میسر آتا ہے۔


ایک بات نوٹ کرلیں کاروبار کا مشورہ اسی کے ساتھ کریں جو بے لوث ہو ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جس سے مشورہ مانگا جاتا ہے سب سے پہلے وہی خود کو شراکتداری کے لیے پیش کردیتا ہے۔ ایسے شخص کے مشورے میں بھی شک ہے کہ اس نے خود کو اس پرجیکٹ میں رکھ کر مشورہ دیا ہے اور یقینا اپنے مفاد کو بھی مدنظر رکھا ہے۔


ایک آخری بات نوٹ کرلیں ،بستر پر لیٹے لیٹے کوئی بڑا خیال ذہن میں نہیں آسکتا اس کے لیے آپ کو بستر چھوڑنا پڑے گا۔ اور چلنا پڑے گا۔ لوگوں کا تجربہ ہے کہ ان کے ذہن میں اچھوتا خیال یا آئیڈیا تب ہی آیا ہے جب وہ واک کر رہے ہوتے ہیں یا سفر میں ہوتے ہیں۔ ویسے بھی کھڑا پانی جلد بدبو کرجاتا ہے۔


میرے خیال میں بندہ ناچیز کے بس میں جوکچھ تھا اور جتنا علم اللہ نے دیا تھا اس کو کھول کر بیان کردیا ہے۔ اس میں کئی غلطیاں بھی ہونگی اور جھول بھی، اس لیے ہر شخص اپنے فہم کو استعمال کرتے ہوئے ، سوچ سمجھ کر خود فیصلہ کرے۔ مجھے کسی سے کوئی لالچ نہیں ۔ جو کچھ بیان کیا گیا محض اللہ کی رضا کی خاطر اس کے بندوں کے عام فائدہ کے لیے کیا گیا۔ اللہ قبول فرمائے اور اس خدمت کے عوض میرے گناہوں سے درگذر فرمائے۔ آمین


انشاء اللہ آئندہ ایک دو پوسٹس میں لوگوں نے جو سوال مجھ سے انباکس پوچھے تھے وہ پیش کیے جائیں گے، اگر اور بھی کسی دوست نے اپنے معاملے میں مشورہ مانگنا ہو تو وہ اب اسی پوسٹ کے کمنٹ باکس میں اپنا کیس بیان کرسکتا ہے، جہاں امید ہے کہ دیگر کئی ماہر اور تجربہ گار افراد بھی مشورہ دینے کے لیے موجود ہونگے۔ [ختم شد]



مکمل تحریر >>