مارچ 2015 بہن کے ہرنیا کے آپریشن کے سلسلے میں پولی کلینک اسلام آباد سے واسطہ پڑا ،وہاں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بہت اختصار کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں
ہم جب پہلی دفعہ ہسپتال گئے تو ہم اس خوش فہمی میں تھے کہ شائید مختلف ٹیسٹوں کے بعد ہمیں اک دو ہفتے کے اندر آپریشن کی ڈیٹ مل جائے گی،کیونکہ ہسپتال اپنے وزیر اعظم صاحب کے پڑوس میں ہی واقعہ ہے ،شائید ہسپتال کی کارگردگی یورپئین ممالک کے برابر نہیں تو کم بھی نہیں ہوگی،لیکن ہسپتال جاکر اندازہ ہوا کہ ایسا تو کسی پسماندہ سے پسماندہ ملک کے ہسپتالوں میں بھی نہ ہوتا ہوگا جو یہاں ہو رہا ہے
ڈاکٹر صاحب نے معائنہ فرمایا اور پھر مختلف ٹیسٹوں کی اک فہرست ہمیں تھمائی گئی ، خدا خدا کر کے وہ ٹیسٹ مکمل ہوئے تو حکم مسیحا ہوا کہ اب آپ نے چیک اپ کیلئے ٹیسٹوں کے ہمراہ اگلے ہفتے حاضر ہونا ہے...اگلے ہفتے ہم بڑی بے تابی سے ڈاکٹر صاحب کے دربار میں حاضر ہوئے اور امید یہ لگائے بیٹھے تھے کہ اب بس آپریشن کی منزل دور نہیں لیکن یہ کیا ڈاکٹر نے تو یہ کہہ کر ہماری جان ہی نکال دی کہ 27 اگست تک تو کوئی ڈیٹ خالی نہیں آپ اگست میں تشریف لائیں( گزشتہ دنوں کشمیر سے آئی کسی خاتوں کو ڈاکٹر نے جب آپریشن کی ڈیٹ اک سال بعد کی دی تو وہ سنکر بے ہوش ہوگئی تھی)
اس وقت ہم پر کیا گزری بس یہی سمجھیں کہ جیسے کسی بھوکے کوجب وہ بھوک سے بے حال ہوکہا جائے کہ روٹی تو کل ملے گی ، یا کسی یخ بستہ رات میں سردی میں ٹھٹرتے شخص کوکہا جائے کہ اب تو بستر نہیں آپ کل دن کوتشریف لائیں
لٹکے منہ ،تھکے ہارے جسم ،ٹوٹے دل کے ساتھ گھر کی جانب چل دیے، سوچا یہ وقت بھی گزر جائے گا،درمیان میں کئی دفعہ ہمشیرہ کے مرض نے شدت بھی اختیار کی،لیکن ہم کچھ کرنے سے بے بس تھے
جب پرائیویٹ ہسپتالوں سے آپریشن کا خرچ معلوم کیا تو جو انہوں نے بتایا وہ کسی بھی غریب انسان کے بس سے باہر کی بات تھی، 27 اگست کی آس لگائے بیٹھ گئے
اللہ اللہ کر کے 27 اگست بھی آ گئی ،اُدھر سورج نکل رہا تھا اِدھر ہم ہسپتال جا پہنچے
آج پھر ہم اُسی ڈاکٹر کے دروازے پر کھڑے تھے ،تقریبا 3 گھنٹے کے انتظار کے بعد شرف باریابی ہوا ، ہاتھ میں نمبر کی پرچی تھامے کھڑے لوگوں کو کوئی پوچھتا نہ تھا ، جب کے عملے کا کوئی آدمی نمبروں سے مستثنی لوگوں کو دھڑا دھڑ اندر لیکر جا رہا تھا ، جب بھی کوئی آدمی صدائے احتجاج بلند کرتا تو دربان کہتا جناب آپریشن والوں کی فہرست تیار ہورہی ہیں ،نہ جانے 8 آدمیوں کے آپریشن کی فہرست تیار کرنے میں 3 گھنٹےکیسے لگ گئے
3،4 گھنٹوں کی ذلت کے بعد ڈاکٹر صاحب نے یہ کہکر ہمیں چلتا کر دیا کہ ابھی تو بیڈ خالی نہیں آپ اگلی جمعرات کو تشریف لائیں
(جبکہ حقیقت یہ تھی کہ نمبر والے مریضوں کو ٹرخا کر ڈاکٹر صاحب نے اپنے تعلق داروں اور سفارشیوں کو ان کی جگہ ایڈمٹ کر لیا)
ہماری یہ حالت تھی کہ کاٹوں تو لہو نہیں
لیکن زخمی دل کو تسلی دی چلو جہاں اتنا انتظار کیا وہاں اک ہفتہ اور صحیح جب اس گزشتہ جمعرات کو گئے تو ڈاکٹر صاحب نے ارشاد فرمایہ یہ سب ٹیسٹ تو پرانے ہو چکے ہیں آپکو یہ سب ٹیسٹ ازسر نو کرانے ہونگے،سب ٹیسٹ دوبارہ کرائے ،مریضہ کو ایڈمٹ کرایا اگلے دن جمعہ آپریشن تھا صبح صبح گذشتہ روز کرائے گئے ٹیسٹوں کی رپورٹ لینی تھی ،جہاں سے وصول کرنی تھی ،،، وہ عملہ تقریبا 9 کے قریب قریب آیا ( نہ جانے اسکو کوئی پوچھنے والا نہ تھا)
جب یہ نوید سنائی گئی کہ آپکی ہمشیرہ کو آپریشن تھیٹڑ لے جایا گیا تو کچھ سکھ کا سانس لیا( نوید کا لفظ اس لیئے لکھا کیونکہ انتہائی ذلالت کے بعد رسائی ملنے پر جو خوشی ملی اس نے ہمشیرہ کی تکلیف بھلا دی)
ہم آپریشن تھیٹر کے باہر پوزیشنیں سنبھال کے کھڑے ہو گئے کہ ابھی آپریشن مکمل ہوگا تو ہم اسٹریچر پر ہمشیرہ کو وارڈ روم لیکر جائینگے
انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی گئیں ، 5 گھنٹے بعد کہا گیا اب ڈاکٹر ہڑتال پر جارہے ہیں ، آپکی مریضہ کو ہم واپس وارڈ میں بھیج رہے ہیں
شائید ہمیں زلیل کرنے کو مزید کوئی کسر باقی تھی 1:15 بجے سے لیکر رات 7 بجے تک وہ کسر بھی نکالنے کے بعد کہا گیا کہ اب آپ اگلی جمعرات کو زلیل ہونے کو اک بار پھر حاضر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب اگلئ جمعرات کو کیا ہوتا ھے خدا جانے
-----------------------------------------------------------------
ایسا سلوک صرف ہم سے نہیں ہوا۔راولپنڈی کی تمام بڑی ہسپتالوں میں ہر روز کسی نہ کسی سے یہی سلوک کیا جاتا ھے ،ہزاروں لوگ دھکے کھا رہے ہیں لیکن کو پرسان حال نھیں
سینکڑوں افراد پر مشتمل عملہ اپنے فرائض میں انتہا درجے کی خیانت کر کے اپنے بچوں کو حرام کھلا رہا ہے ، پورے ہسپتال میں صفائی کا کوئی انتظام نھیں ، لال بیگیں ،چڑیں اور بھی عجیب غریب حشرات الارض دندناتے پھرتے ہیں ،صفائی کا فنڈ وہاں کے مگر مچھوں کے پیٹ میں جاتا ہے
دور دراز سے آئے شفا کی تلاش میں آئے مریضوں کو شفا کیا ملتی بلکہ وہ مزید بیمار ہو کر جاتے
کاش میرے پاس کوئی ایسا آلہ ہوتا جس سے میں آپکو ہسپتال کے کچن سے آنے والئ بدبو سنگھا سکتا بے ہوش نہیں تو ابکائیاں ضرور آتیں آپکو
عالمي ادارہ صحت کے مطابق ايک ڈاکٹر کا 20 سے 25 مريضوں کا معائنہ کرنا عالمي معيار کے مطابق ہے ليکن ہمارے ہاں ڈاکٹر اک دن ميں 100 يا اس سے بھي زائد مريضوں کو نمٹا دیتا ہے
ڈاکٹر آئے روز اس لئے ہڑتالیں کر رہے ہیں کہ ان کا 45 ہزار ماہانہ ہیلتھ الاؤنس گورنمنٹ نے ختم کر دیا(سوچنے کی بات ہے کہ جب ان ڈاکٹروں کا علاج فری ہیں تو 45 ہزار ہیلتھ الاؤنس کس بات کا)
وہاں کی نرسوں کی عزتوں سے کھیلنے والے سوروں کی خبریں کئی دفعہ میڈیا پر آچکی ہیں لیکن کوئی نہیں جو قوم کی ان بیٹیوں کیلئے آواز بلند کرے
یہ حال ہےوزیر اعظم صاحب کی آنکھو ں کے نیچے واقع ہسپتال کا۔۔۔ تو بلوچستان سرحد سندھ کے دور دراز کے علاقوں کی ہسپتالوں کا کیا حال ہوگا
کوئی ہے جو ان ہسپتالوں کے اصلاح احوال کی کوشش کرے ،کوئی تو ہم جو تڑپتی بلکتی دھکے کھاتی عوام پر رحم کھائے