Pages

بدھ، 2 ستمبر، 2015

اردو بلاگ بہتر بنائیے

اکثر لوگ اپنے مشاہدے اور اپنی قدرتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر بلاگنگ میں بہت جلد بہت اچھی پہچان بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن بہت سارے بلاگران کو شروعات میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس پر وہ پرانے بلاگران سے مدد اور رہنمائی چاہتے ہیں۔ میں اگرچہ اتنا پرانا بلاگر نہیں ہوں لیکن پھر بھی اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کو سب تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ امید ہے یہ مشورے آپ کے لیے مدد گار ثابت ہوں گے۔
بلاگنگ سافٹ وئریا پلیٹ فارم کا چناؤ۔

بلاگنگ سافٹ وئر یا پلیٹ فارم کا چناؤ بھی سوچ سمجھ کر کیجیے۔ ہر پلیٹ فارم جیسے “بلاگر” ، “ورڈ پریس ڈاٹ کام” اور “ورڈپریس ڈاٹ پی کے” کی اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ جیسے “ورڈ پریس ڈاٹ کام ” کے بلاگ پر گوگل ایڈ سینس نہیں کام کرتی ۔ اسی طرح اردو سانچہ جات، سرچ انجن فرینڈلینس، پلگ انز کی شمولیت، ڈسک سپیس سائز وغیرہ ایسی اشیا ہیں جن کے متعلق جان کر ہی پلیٹ فارم کا انتخاب کرنا مناسب ہے۔ورڈ پریس ڈاٹ کام پر تحاریر شائع کرنے کے فورا بعد ہی سرچ انجن میں شامل ہوتی ہیں۔جبکہ ورڈ پریس ڈاٹ پی کے پر اردو کے لیے زیادہ اختیارات موجود ہیں۔
بلاگ کے عنوان اور یو آر ایل میں مطابقت۔

بلاگ کا یو آر ایل یعنی ڈومین نیم ایک ہی دفعہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اسے سوچ وچار کے بعد منتخب کیجیے۔ اکثر بلاگران حضرات اپنے نام کا یو آریل اختیار کرتے ہیں۔ اور بعد میں اپنے بلاگ کا عنوان تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہ بھی ایک غلط عمل ہے۔ اگر آپ بلاگ کا عنوان مکمل طور پر یو آر ایل کے مطابق نہیں رکھ سکتے تو کوشش کیجیے کہ یو آر ایل کا کچھ حصہ عنوان میں ضرور شامل ہو، جیسے یو آر ایل www.bavajee.com ہو تو بلاگ کا عنوان “باوا جی کا بلاگ “، “باوا جی کی بیاض” ، “باوا جی کے قلم سے” ، “باوا بلاگ” یا فقط “باوا جی” رکھیے۔ بہتر تجویز یہی ہو سکتی ہے کہ یو آرایل سوچ سمجھ کر منتخب کیجیے۔
پرما لنکس

پرما لنکس سے مراد آپ کے بلاگ پر تحاریر اور صفحوں کے یو آرایل ہیں۔ یہ سبھی یو آر ایل آپ کے بلاگ کی مرکزی ڈومین میں کچھ اضافہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جیسے آپ کے بلاگ کا یو آر ایل www.bavajee.com ہے تو رابطہ کے صفحہ کا یو آر ایل مندرجہ ذیل میں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے۔
www.bavajee.com/about
www.bavajee.com/archive/12
www.bavajee.com/?page_id=1
بلاگسپاٹ یا بلاگر کے پلیٹ فارم پر یہ مشکل نہیں ہوتی کیوں کہ ابھی تک بلاگر میں نہ تو پرما لنک تبدیل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور نہ ہی اس میں خامی ہے۔ جب کہ ورڈ پریس ڈاٹ پی کے اور ذاتی ہوسٹنگ والے بلاگ پر یہ اختیار بھی موجود ہے اور اسے بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے۔کوشش کیجیے کہ پرما لنکس پہلی دو اقسام میں سے کوئی ایک ہو۔ کیوں کہ یہ دونوں اقسام ہی سرچ انجن کے لیے زیادہ آسانی پیدا کرتی ہیں۔ورڈ پریس کی سیٹنگ کے شعبہ میں جا کر permalinks منتخب کیجیے اور اسے کسی ایسے اختیار پر منتخب کر لیجیے جس میں سوالیہ نشان “؟” موجود نہ ہو۔یہ تبدیلی محفوظ کرنے کے بعد آپکو نیچے کوڈ کی چار پانچ لائنیں دی جائیں گی انہیں آپکو .htaccess نامی فائل بنا کر ورڈ پریس انسٹالیشن کی مرکزی ڈائریکٹری میں محفوظ کر نی ہو گی۔
اس تبدیلی کے علاوہ ورڈ پریس پر اپنی ہر پوسٹ کا پرما لنک اپنی مرضی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پوسٹ کو شائع کرنے سے پہلے ٹیکسٹ ایڈیٹر کے اوپر ہر پوسٹ کا ممکنہ پرما لنک دیا گیا ہوتا ہے اس کے ساتھ ایک چھوٹا سے Edit کا بٹن بھی موجود ہوتا ہے۔ بٹن کو دبائیے اور رومن اردو میں پوسٹ کا عنوان لکھ دیجیے۔ یاد رہے اس پرما لنک میں اسپیس نہیں ہوتی۔
ورڈ پریس ڈاٹ کام کی زبان۔

ورڈ پریس ڈاٹ کام پر زبان اخیتار کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر آپ بیک وقت انگریزی اور اردو بلاگنگ کرنا چاہتے ہیں تو زیادہ موزوں زبان انگریزی رہتی ہے۔ اگر صرف اردو تحاریر پر مشتمل بلاگ بنانا چاہتے ہیں تو اردو زبان منتخب کیجیے۔ ویسے زیادہ مناسب یہی رہے گا آپ انگریزی اور اردو کے لیے الگ الگ بلاگ تشکیل دیجیے۔
مرکزی صفحہ کو خوبصورت اور ہلکا پھلکا رکھیے۔

اکثر بلاگر خواتین و حضرات کا بلاگ مرکزی صفحہ اوپر سے نیچے بہت ہی لمبا ہوتا ہے۔ تمام تحاریر مکمل طور پر مرکزی صفحہ پر ظاہر ہو رہی ہوتی ہیں۔ اور صارف کو ایک لمبا سکرول کر کے بلاگ کے فوٹر تک پہنچنا پڑتا ہے۔ یہ بھی ایک غلط طریقہ کار ہے۔ مرکزی صفحہ پر صرف عنوان اور تحریر کا کچھ حصہ ہونا چاہیے۔ جیسے اکثر خبروں کی ویب سائٹس پر کیا گیا ہوتا ہے۔ایسا کرنے کے لیے ورڈ پریس اور بلاگر دونوں کے اندر مور ٹیگ More .. دیا گیا ہوتا ہے۔ اپنی ہر تحریر میں اس کا استعمال کیجیے۔ م بلال م صاحب کی تیار کردہ ورڈ پریس تھیمز میں اس بات کا بہت اچھی طرح خیال رکھا گیا ہے۔ جس میں پہلی تین چار تحاریر کے بعد کی تحاریر کو بہت مختصر کر دیا گیا ہے۔ تاکہ صارف کو ایک مناسب سا مرکزی صفحہ نظر آئے۔ تاہم اگر آپ کے بلاگ پر تحاریر کی تعداد کم ہے تو ایسا مت کیجیے۔
سٹاک فوٹو گرافی اور کلپ آرٹ۔

کوشش کیجیے ہر تحریر سے متعلقہ کوئی تصویر یا آرٹ ورک تحریر میں شامل کیجیے۔ یہاں پر میں آپ کو ایک ویب سائٹ بھی بتانا چاہوں گا ۔ جس پر مفت سٹاک فوٹو گرافی دستیاب ہے۔ صرف آپ کو ایک عدد اکاؤنٹ بنانا پڑے گا۔ بجائے گوگل سے تصاویر تلاش کر کے لگانے کے اس ویب سائٹ کو استعمال کیجیے۔گوگل تلاش سے لی ہوئی تصاویر اپنے بلاگ پر لگانے سے مستقبل میں اس تصویر کے کاپی رائٹ کا مالک آپ کی بلاگ کی شکایت لگا کر آپ کا بلاگ بند کروا سکتا ہے۔ اس لیے www.sxc.hu سے مفت تصاویر استعمال کیجیے۔
بلاگ کی تشہیر کیجیے۔

بلاگ کی تشہیر کا ذکر ایک پچھلی پوسٹ میں بھی کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں  کچھ دوسرے طریقوں سے تشہیر کے متعلق بتایا جائے گا۔ بلاگ ایگریگیٹر اور ڈائریکٹریز بلاگ کی تشہیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ چند مشہور ڈائریکٹریز جیسے بلاگ کیٹلاگ، پاک رینکس، بلاگڈ اور ٹیکنوراٹی میں بلاگ ضرور شامل کیجیے۔یہ سبھی ویب سروسز میری آزمودہ اور بہترین کار کردگی کی حامل ہیں۔ بھارت سے بلاگ کرنے والوں کے لیے انڈی بلاگر ایک زبردست بلاگ ڈائریکٹری ہے۔  اس کے علاوہ سوشل کمیونٹی ویب سائٹس جیسے ڈگ، ڈیلیشیس، مکس، سٹمبل اپان پر اپنے بلاگ کے ایک سے زیادہ روابط بار بار شامل کرتے رہیے۔ ان سبھی ویب سروسز کو تشہیر کرنے کے لیے میں دس میں سے دس نمبر دیتا ہوں۔ فیس بک پر نیٹ ورکڈ بلاگز کے نام سے ایک بہت ہی مفید چیز موجود ہے۔ اس میں رجسٹریشن بہت ہی آسان ہے۔ اور خود کار طریقے سے آپ کی شائع کردہ تمام تحاریر آپکی فیس بک وال پر شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح ہر شائع ہونے والی تحریر خودکار طریقے سے ٹویٹر شامل کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح  فرینڈ فیڈز میں بھی اپنے تمام بلاگز کی فیڈز شامل کر دیجیے۔  بلاگ کی تشہیر کے لیے یہ سب سروسز بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وزیٹرز خود چل کر آپ کے بلاگ پر آئیں۔ آپ کو اپنا بلاگ بہت ساری سروسز میں شامل کرنا ہو گا تا کہ زیادہ سے زیادہ صارفین آپ کے بلاگ تک رسائی حاصل کر سکیں۔
حوالہ دیجیے۔

جب کسی دوسرے بلاگ ، فورم یا خبروں کی ویب سائٹ کی تحریر سے اقتباس اپنی تحریر میں شامل کریں اسکا حوالہ ایک لنک کی صورت میں دیں۔یہ ایک مناسب اور خوبصورت رویہ ہو گا۔
تبصرہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کیجیے۔

بلاگ پرآنے والے صارفین اور تبصرہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ انہیں خوش آمدید کہیے اور ہر تبصرہ کا چاہے چھوٹا سا ہی سہی ضرور جواب دیں۔اگر آپ ذاتی ہوسٹنگ پر ورڈ پریس بلاگ چلا رہے ہیں تو کمنٹ لو نامی پلگ ان نصب کریں ، یوں ہر تبصرہ نگارکے تبصرہ کرنے پر اس کےبلاگ کی آخری تحریر کا ربط نیچے ظاہر ہو جائے گا۔ اس سے تبصرہ نگار کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ بہت سارے بلاگران یہی طریقہ کار اختیار کرتے ہیں لیکن مجھے جعفر صاحب کا انداز پسند ہے۔ ان کے بلاگ پر تبصروں کے جوابات کا انداز ضرور ملاحظہ کیجیے۔
Admin اور uncategorized

ورڈ پریس 3 کے آنے سے پہلے ورڈ پریس کی نئی انسٹالیشن میں مرکزی یوزر نیم Admin ہوا کرتا تھا۔ عموما نئے بلاگران اس چیز پر دھیان نہیں دیتے اور اسی نام سے تحاریر شائع کرتے رہتے ہیں۔ اس کی بجائے مصنف کا نام اپنے نام سے رکھیے۔ یہ آپ ورڈ پریس کے Users کے شعبہ میں جا کر انجام دے سکتے ہیں۔ ورڈ پریس میں تحاریر کا ڈیفالٹ ذمرہ uncategorized ہے۔ کئی اردو بلاگران اسی ذمرہ میں تحاریر شائع کرتے ہیں جو کے ایک غیر مناسب قدم ہے۔ اپنے بلاگ میں ذمرہ جات پر خصوصی دھیان دیجیے اور چند بنیادی ذمرہ جات ضرور بنائیے اور انہی کے اندر تحاریر شائع کیجیے۔ ذمرہ جات کیا ہونے چاہیں، یہ مکمل طور پر آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ جیسے سیاست، خبریں، تعلیم، مذہب، شعروشاعری وغیرہ۔
مناسب ٹیگ لگائیے۔

فی الوقت بلاگر یا بلاگسپاٹ پر ٹیگز کی سہولت موجود نہیں، صرف ذمرہ جات موجود ہیں جنہیں Lables کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم ورڈ پریس پر ذمرہ جات کے ساتھ ساتھ ٹیگز لگانے کی سہولت بھی موجود ہے۔ایک پوسٹ کے لیے ٹیگز کی کوئی معین تعداد نہیں۔ پوسٹ کے متن کو دیکھ کر اندازہ لگائیے کہ اس کے لیے کیا کیا ٹیگز ممکن ہیں۔میری ذاتی رائے کے مطابق ٹیگز پانچ سے زیادہ اور بیس سے کم ہی ہونے چاہیے۔ اردو تحاریر کے لیے بیک وقت انگریزی اور اردو ٹیگز ممکن ہیں۔ لیکن یہ کوئی اچھی ترکیب نہیں ہے۔ ٹیگز کسی تحریر یا بلاگ کے لیے کی ورڈ کا کردار ادا کرتے ہیں اسلیے موزوں ترین اور تحریر کے قریب ترین ٹیگز استعمال کیجیے۔
ورڈ پریس ڈیفالٹ متن۔

ورڈ پریس کی تنصیب کے ساتھ ہی ایک About نامی صفحہ اور Mr.Wordpress کے نام سے ایک تبصرہ بلاگ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ابتدائی تحریر بھی شائع ہو جاتی ہے۔ یہ صفحہ، تبصرہ اور ابتدائی پوسٹ ختم کر دیجیے۔ About نامی صفحے میں اپنے متعلق لکھیے۔
بدگمانی سے بچیے اور مثبت سوچ کے ساتھ لکھیے۔

دنیا میں اچھے برے ہر کسی طرح کے لوگ موجود ہیں، اسی طرح بلاگستان میں بھی ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔ لیکن اگر آپ خوش گمانی سے اور مثبت سوچ کے ساتھ لکھیں گے تو سبھی آپ کا خیر مقدم کریں گے۔ ذاتیات پر تنقید سے پرہیز کیجیے۔ بلاگستان میں پہلے ہی اکثر اوقات بے شمار لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ لڑائی کے اس کیچڑ میں کودنے سے آپ خود بھی کیچڑ آلودہ ہو جائیں گے۔ اپنی مثبت شناخت قائم کیجیے۔ دوسروں کی عزت کیجیے آپکو بھی عزت ملے گی۔
موضوعاتی بلاگنگ

موضوعاتی بلاگ سے مراد ایسا بلاگ ہے جس میں مختلف موضوعات پر لکھنے کی بجائے کسی مخصوص موضوع پر لکھا جائے۔ اردو بلاگنگ میں موضوعاتی بلاگنگ کا رحجان بہت کم ہے۔ ایک موضوعاتی بلاگ انٹرنیٹ صارفین کو بہت جلد اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے جب کہ مختلف موضوعات پر مبنی بلاگ کی پسندیدگی لکھنے والے کے انداز پر منحصر ہے۔ اس سلسلے میں کچھ بلاگران نے موضوعاتی بلاگ شروع کر رکھے ہیں ، ان پر یہاں اور یہاں نظر ڈالیے اور سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ سرچ انجن پر مقبولیت اور بہترکارکردگی کے لیے بھی موضوعاتی بلاگ زیادہ مفید ہیں۔
پیسہ کمانے کے آپشن کو مت بھولیے۔

پیسہ زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے اورآپکے لکھنے کے عوض اگر آپ کو کچھ پیسہ بھی ملے تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ اس آپشن کو بند مت کیجیے۔ ورڈ پریس ڈاٹ کام پر گوگل ایڈ سینس کے اشتہار نہیں لگائے جا سکتے، جبکہ بلاگر اور ورڈ پریس کی ذاتی ہوسٹنگ انسٹالیشن پر ایڈسینس اشتہارات لگائے جا سکتے ہیں بلاگ بنانے سے قبل اس چیز کو ذہن میں رکھیں اور اچھی طرح سوچ سمجھ کر بلاگ پلیٹ فارم منتخب کیجیے۔
بشکریہ پاکستان بلا
مکمل تحریر >>

بلاگ کیا ہوتا ہے ؟

بلاگنگ کا تاریخی پس منظر
بلاگ انگریزی کے دو لفظوں web and log سے مل کر بنا ہے جو ایسی ویب سائٹس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں معلومات کو تاریخ وار رکھا جاتا ہے۔
ویب لاگ (weblog) کا لفظ جان بارگر (Jorn Barger) نے پہلی دفعہ 1997ء میں استعمال کیا تھا جو robotwisdom.com نامی ویب لاگ سائٹ چلا رہے ہیں۔ اس کے بعد لفظ بلاگ کو پیٹر مرہولز(Peter Merholz) نے مزاحیہ انداز میں لفظ ’’ویب لاگ‘‘ کو توڑ کر we blog کے طور پر استعمال کیا اور یہیں سے پھر لفظ ’’بلاگ‘‘ مشہور ہوگیا۔
Xanga نامی سائٹ، جو بلاگنگ میں ایک بڑا نام ہے، پر 1998 ء تک صرف 100 بلاگ تھے مگر 2005ء تک 20 ملین سے تجاوز کر چکے تھے۔ اس کے بعد لاتعداد دوسرے بلاگ ہوسٹنگ ٹولز میدان میں آئے اور بلاگنگ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اوپن ڈائری بلاگنگ نے سب سے پہلے صارفین کو کسی بھی بلاگ پر تبصرہ کرنے کی سہولت فراہم کی جو بہت کامیاب رہی۔
لائیو جرنل ایک اور مفت اور مشہور بلاگنگ سروس ہے جو پرائیوٹ جرنل ، بلاگ ، ڈسکشن فورمز اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ بنانے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ 1999ء سے اب تک ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زائد بلاگز اور کمیونٹیز بن چکی ہیں۔ لائیو جرنل پر آپ کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ آپ اپنے موبائل فون سے بھی بلاگ پوسٹ کر سکتے ہیں۔
ایک دو سال پہلے تک بلاگز صرف تحاریر پر مشتمل ہوتے تھے، مگر اب بلاگنگ صرف تحریروں تک محدود نہیں رہی بلکہ فوٹو بلا گ ، اسکیچ بلاگ، ویڈیو بلاگ ، میوزک بلاگ، آڈیو (پوڈ کاسٹ) کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہوچکا ہے اور یہ سب اب انٹرنیٹ کا ایک بڑا حصہ بن چکے ہیں۔

بلاگنگ کیوں؟
بلاگنگ بلاشبہ اس وقت انٹرنیٹ کی اہم ترین سرگرمی شمار کی جاتی ہے۔ لاکھوں لوگ اپنے بلاگز لکھتے یا دوسروں کے بلاگ پڑھتے ہیں اور یہ ایک جنون کی طرح انٹرنیٹ پر پھیلاتا ہی چلا جارہا ہے۔ سینکڑوں بلاگنگ ٹولز کی بدولت یہ کام ازحد آسان ہوچکا ہے۔ مزید براں، مختلف ڈیوائسس کے استعمال سے بلاگنگ کو بھی بڑے پیمانے پر فروغ حاصل ہورہا ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر بلاگنگ کی ہی کیوں جاتی ہے؟
اس سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں کہ بلاگز کے بارے میں مختلف آراء کیا ہیں۔
’’گوگل بلاگر‘‘ جو اس وقت شاید بلاگنگ کا سب سے بڑا مرکز ہے کہ مطابق ’’ بلاگ آپ کی ذاتی ڈائری ہے، آپ کے دن بھر کی مصروفیت کی ڈائری، ایک جگہ جہاں آپ رابطے پیدا کرتے ہیں، ایک ماخذجہاں سے اہم ترین خبریں نکلتی ہیں، روابط کا ذخیرہ اور آپ کے ذاتی خیالات ۔‘‘
یہ انسانی فطر ت ہے کہ وہ اپنی دریافت، ایجاد اور خیالات دوسروں بتانا چاہتا ہے۔ وہ اپنی سوچ سے دوسرے کو سوچتے دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وہ جستجو ہے جو لوگوں کو بلاگز لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ کیوں کہ بلاگ ہی وہ جگہ ہے جہاں وہ اپنے خیالات، اپنی دریافتیں، اپنے منصوبے کُھل کر بیان کرسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انہیں بلاگ کی صورت میں ایک دنیا مل جاتی ہے جہاں وہ حکومت کرتے ہیں۔
بہت سی کمپنیاں اپنے ملازمین کو بلاگز لکھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ مائیکروسافٹ کے سیکڑوں ملازمین باقاعدگی سے بلاگ لکھتے ہیں۔ یہی حال دیگر اہم کمپنیوں کا ہے جن کے ملازمین اپنے بلاگز میں اپنے اہم تجربات اور مشاہدات بیان کرکے اپنے قارئین کی رہنمائی کرتے ہیں۔
بلاگز کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ سیاست کا ایک اہم اوزار بن چکے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ترقی یافتہ اقوام کی بہت سی سیاسی شخصیتیں اپنے بلاگز لکھتی ہیں۔ بلاگز کی سیاسی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں بھی ایک مشہور بلاگنگ سروس ـ ’’بلاگر‘‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اسی طرح دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی یہ صورتِ حال دیکھنے میں آتی رہتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ عہدیدران ہوں یا کسی یونی ورسٹی کے محققین، فلمی ستارے ہوں یا ذرائع ابلاغ سے منسلک لوگ، بلاگز سب کی ضرورت بن چکے ہیں۔
بلاگز اتنے مشہور ہوچکے ہیں کہ اب یہ پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بھی بن چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا مشہور بلاگ ہو جسے آپ اشتہارات سے پاک دیکھیں۔ لوگوں میں دوسروں کے بلاگ پڑھنے کا رجحان، اپنے بلاگ لکھنے سے بھی زیادہ ہے۔ اس لئے بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پوری ویب سائٹ کے مقابلے میں اسی سائٹ پر موجود کسی مخصوص بلاگ کے ملاحظہ کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے ایسے بلاگز پر اشتہارات لگا کر ان کی شہرت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ جبکہ گوگل ایڈسنس کے اشتہارات تو آپ کو تقریباً ہر چھوٹے بڑے بلاگ پر نظر آتے ہی رہتے ہیں۔

بلاگ کیسے بنائے جاتے ہیں؟
بلاگ دو طرح سے بنائے جاسکتے ہیں۔ اول یا تو آپ کسی بلاگ ہوسٹنگ فراہم کرنے والے ویب سائٹ پر رجسٹریشن کروا کر اپنا بلاگ لکھیں۔ جبکہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنا ڈومین نیم اور ویب ہوسٹنگ خریدیں اور پھر کسی بلاگنگ ٹول کو ویب سائٹ پر انسٹال کرکے اپنا بلاگ بنا لیں۔
مشہور بلاگ ہوسٹنگ پرووائیڈرز میں سب سے آگے گوگل کا بلاگر (Blogger) یا بلاگ سپاٹ (Blogspot) نظر آتا ہے۔ یہ بات بھی یقیناً دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ گوگل نے بلاگز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر بلاگر کو خرید لیا تھا۔ بلاگر بہت مقبول سروس ہے۔ یہ بلاگز کے لئے بہت سے مفت ٹیمپلیٹس فراہم کرتی ہے جنھیں اپنی ضرورت کے حساب سے تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ بھی بلاگر پر اپنا مفت بلاگ بنانا چاہتے ہیں تو بلاگر کی ویب سائٹ وزٹ کریں:
www.blogger.com

مووایبل ٹائپ (Movable Type)
موو ایبل ٹائپ بھی ایک مشہور بلاگنگ سروس ہے۔ شروع میں مووایبل ٹائپ کی سروس مفت تھی لیکن بعد میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد اس کی فیس مقرر دی گئی۔ موو ایبل دو طرح کی بلاگنگ کا انتخاب دیتی ہے۔ اول آپ اپنا بلاگ موو ایبل ٹائپ کی سائٹ پر بنا لیں، دوم ان کا سافٹ ویئر لے کر اپنی سائٹ پر نصب کر دیں۔ شروع میں مووایبل ٹائپ کی سروس مفت تھی لیکن بعد میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد اس کی فیس مقرر کر دی گئی۔ تاہم حال ہی میں انہوں نے اپنا سافٹ ویئر آزاد مصدر کر دیا ہے۔ اب آپ مفت میں مووایبل ٹائپ ڈاؤن لوڈ کرکے اپنی سائٹ پر نصب کر سکتے ہیں۔ تاہم مووایبل ٹائپ کی سائٹ پر بلاگ بنانے کی صورت میں آپ کو فیس ادا کرنی ہوگی۔ مووایبل ٹائپ 2002ء تک سب سے مشہور بلاگنگ سروس تھی لیکن فیس مقرر کرنے کے بعد یہ میدان ورڈپریس نے مار لیا۔ بی بی سی اُردو بلاگز اسی سروس پر مشتمل ہیں۔
http://www.movabletype.org

ورڈپریس(WordPress)
ورڈ پریس ایک اور بہت مشہور سروس ہے اور بلاشبہ اس وقت بلاگنگ کی دنیا میں مقبول ترین بلاگنگ سروسز میں شمار کی جاتی ہے۔  اپنے بے شمار دلکش تھیمز اور پلگ اِنز کی مدد سے آپ اپنی سائٹ کو بلاگ سے لے کر کسی خبروں کی ویب سائٹ یا پھر کوئی اور شکل دے سکتے ہیں۔ مووایبل ٹائپ کی طرح ورڈپریس بھی دو طرح کی بلاگنگ کا انتخاب دیتی ہے۔ ورڈپریس کی سب سے بڑی خوبی اس کی لچکدار ساخت ہے۔
ورڈپریس کو دنیا کی ہر تحریری زبان میں باآسانی ڈھالا جا سکتا ہے۔ آزاد مصدر ہونے کے سبب اس کے مسائل کے لیے مناسب سپورٹ بالکل مفت ورڈپریس کی سائٹ پر دستیاب ہے، جہاں دنیا بھر سے ورڈپریس کے صارفین باہمی تعاون سے منٹوں میں آپ کے مسائل حل کر دیتے ہیں۔
ورڈ پریس کا بلاگنگ ٹول جو پی ایچ پی میں بنایا گیا ہے، ایک آزاد مصدر پروگرام ہے، جسے باآسانی کسی بھی ویب سائٹ پر انسٹال کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ اپنی ویب سائٹ بلاگ بنانا چاہتے ہیں تو ورڈ پریس ہی آپ کا اولین انتخاب ہونا چاہئے۔ پی ایچ پی میں بنائے جانے کی وجہ سے یہ ونڈوز اور لینکس دونوں طرح کی ہوسٹنگ پر چلایا جاسکتاہے۔
http://wordpress.com

 اُردو بلاگنگ
بلاگنگ کی اس تیز رفتار ترقی نے اُردو کو بھی متاثر کیا، دیر سے سہی مگر اُردو کمیونٹی نے اس بات کا ادراک کیا کہ بلاگنگ کی دنیا میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سال 2005ء میں اُردو بلاگرز سامنے آنا شروع ہوئے اور پھر انہی اُردو بلاگرز کی بدولت انٹرنیٹ پر تحریری اُردو کی مکمل ویب سائٹس منظرِ عام پر آئیں۔ آج اردو بلاگرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

بشکریہ ماہنامہ کمپیوٹنگ
مکمل تحریر >>

عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات


میری آج کی گفتگو کا محور تین اُمور ہیں:-
ایک موجودہ معاشی عالمی بحران، دوسرا اسلامی معیشت اور اُس کا کردار، اور تیسرا اس پس منظر میں علمائے کرام کی ذمہ داری۔ 
موضوع بہت وسیع ہے، میں صرف ضروری اشارات ہی کرسکوں گا، اسلامک ڈویلپمنٹ بنک جدہ میں جو Annual Prize Lecture ہوتا ہے، اپریل ۲۰۱۲ء میں مجھے یہ خطاب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، اور اُس میں میں نے تقریباً اسی موضوع کو لیا، میں اُس کے بنیادی نکات آپ کے سامنے آج کی اس محفل میں چاہتا ہوں کہ پیش کروں۔
عالمی معاشی بحران
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ابھی چند روز پہلے ہی ایک اور بھونچال مغرب کی مالیاتی دنیا میں آیا ہے، اور ایک بہت بڑے بنک--برکلے بنک--کے بہت ہی تکلیف دہ اسکنڈلز (scandals) سامنے آئے ہیں، جس سے معلوم ہوا کہ بنکوں کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ بڑے قانون اور ضابطے کے پابند اور اپنی روایات کے مطابق کام کرتے ہیں،درست نہیں ہے۔ بلکہ اس سطح پر بھی کرپشن، گٹھ جوڑ، ہوس، ذاتی منافع اور ہیر پھیر (under hand)، ان سب کا رواج ہے۔ 
اور بنک آف انگلینڈ کے گورنر نے پرسوں ہی ایک بہت اہم تقریر کی ہے، جس میں اُس نے یہ کہا ہے کہ ہمارا بنکاری نظام پانچ سال سے شدید بحران کا شکار ہے، لیکن ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔یعنی ۲۰۰۷ء سے یہ بحران شروع ہوا ہے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے پورے بنکاری طور طریقوں (banking culture)کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم بحران سے نہیں نکل سکتے۔
اور پھر سب سے اہم نکتہ جو آخر میں اُس نے کہا ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ محض مالی اور معاشی نہیں ہے، بلکہ اخلاقی ہے، اور جب تک اخلاقی اصلاح کا کام نہ ہو، جب تک ان تمام معاملات کے لیے اخلاقی اصول اور ضابطے بنانے اور اُن کو متحرک اور مؤثر کرنے کا کام نہ کیا جائے اُس وقت تک اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔ 
یہ وہ چیز ہے جو اس وقت مغرب کی سوچ کو سمجھنے والے اہلِ دانش کہنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ بلاشبہ ہمیشہ کچھ لوگ ایسے رہے ہیں جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے۔ اور اسلامی مفکرین تو علامہ اقبال سے لے کر آج تک اپنے اپنے انداز میں اس نکتے کو پیش کرتے رہے ہیں۔ اسلامی معاشیات کے باب میں پچھلے چالیس سال میں جو بھی تھوڑی بہت خدمات ہم نے انجام دی ہیں، اس کا بھی ایک مرکزی نکتہ یہی تھا۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ وہ جو اس بات کے منکر تھے کہ اخلاق اور معیشت کا کوئی تعلق ہے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ اخلاق کے بغیر معیشت کی اصلاح ممکن نہیں ۔ 
وقت کی کمی کے باعث میں بے شمار حوالے اپنے پاس ہوتے ہوئے بھی اُن کو پیش کرنے کی زحمت نہیں کررہا ہوں۔ صرف آپ کو بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ پچھلے ایک سال میں اور خاص طور سے پچھلے تین مہینے میں ایک درجن سے زیادہ چوٹی کے معاشی لکھنے والوں نے کھل کر یہ بات کہی ہے کہ جو معاشیات ہم نے آج تک پڑھی اور پڑھائی ہے، اور جس پر بنیاد ہے ہمارے پورے نظام کی، اس کی چولیں ہل گئی ہیں۔ جن بنیادوں پر وہ قائم تھی وہ متزلزل ہیں، اور اس کی بہترین عکاسیLondon Economist نے اپنے ایک سرورق پر کی ہے، جس کا عنوان ہی یہ ہے کہ What is wrong with Economics?، اور جو تصویر انہوں نے دی ہے وہ ایک معاشیات کی کتاب ہے جو ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر رہی ہے۔ تو ایک نئی معیشت کی ضرورت، معاشی معاملات کو ایک نئے اپروچ کی ضرورت، یہ اس وقت ایک ایسی طلب ہے جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ بڑا سانحہ ہوگا کہ مسلمان، جن کے پاس اﷲ کی کتاب ہے اور اس کی بنیاد پر ایک دوسرے متبادل نظام کا پورا نقشہ موجود ہے، وہ اپنی کوتاہی یا بدعملی کی بناء پر دنیا کے سامنے اُس نظام کو پیش نہ کرسکیں۔

دیکھیے، جدید سرمایہ داری کا بظاہر تو آغاز۱۸ویں صدی کے وسط میں ہوا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی سوچ اس سے پہلے سے موجود ہے، وہ فکری میدان میں بھی، عملی میدان میں بھی ترقی کررہی تھی، لیکن صنعتی انقلاب نے ایک ایسی کیفیت پیدا کردی جس کی بناء پر معیشت کا یہ تصور اور معاشی نظام کا یہ خاکہ ایک غالب قوت کی حیثیت سے سامنے آیا۔ جس نے دنیا کے نقشے کو بدل ڈالا اور معاشی ترقی کے ایسے نئے تصورات کو جنم دیا جنہوں نے معاشی قوت کے توازن کو مغربی اقوام کی طرف منتقل کردیا۔ اُس وقت سے اب تک یہی نظام ایک غالب معاشی نظام رہا ہے۔ اندرونی طور پر اس میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس کا آغاز صنعتی سرمایہ داری یعنی Industrial Capitalism سے ہوا تھا۔
جس کے معنی یہ ہیں کہ معاشی وسائل کو نجی ملکیت اور نجی سرمایہ کاری اور سود اور بنکنگ کے ذریعے منظم اور مرتب کرکے پیداوار کو بڑھانے کا کام انجام دیا جائے۔ اور یہ سوچ کہ ہر چیز جس کسوٹی پر پرکھی جائے وہ یہ ہے کہ پیداوار بڑھے، جس چیز کی طلب ہو، اسے فراہم کیا جائے، بلالحاظ اِس کے کہ وہ طلب جائز ہو یا ناجائز ہو۔ اگر اُس طلب کو پورا کرنے کے لیے قوتِ خرید (purchasing power)موجود ہے تو اس کی رسد کے لیے یہ وجہ کافی ہے۔ اورطلب اور رسد کے یہ تمام فیصلے منڈی کے ذریعے سے انجام دیے جائیں۔ یہی ترقی کا مؤثر ترین راستہ ہے، اور یہی وہ صورت ہے جس میں سرمایہ دار باقی تمام وسائل کو اپنے نقشے کے مطابق استعمال کرکے بہترین معاشی نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
اس طرح صنعتی سرمایہ داری(Industrial Capitalism )سے اس کاآغاز ہوا اور مالیات اُس کا ایک بڑا ہی اہم ستون اور ذریعہ تھا۔پھر آہستہ آہستہ بیسویں صدی میں ، اور خاص طور پر پچھلے پچاس برسوں میں یہ صنعتی سرمایہ داری نظام ایک مالیاتی سرمایہ داری نظام یا Financial Capitalism میں تبدیل ہوگیا۔
آغاز میں مالیات کا کام یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ حقیقی معاشی قوتوں کو متحرک کرے۔ اُس کے ذریعے سے محنت بھی، مشینری بھی، ٹیکنالوجی بھی اور دوسرے وسائلِ پیداوار بھی استعمال میں لائے جاسکیں۔ لیکن آہستہ آہستہ مالیات کو ایسا غلبہ حاصل ہوگیا کہ محض قرضوں اور مالیات کا تبادلہ یعنی credit اور financesکا تبادلہ پورے معاشی نظام پر چھا گیا، بلالحاظ اس سے کہ ان سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں۔ اب عملاً صورت یہ ہے کہ جو معاشی پیداوار اورمادی وسائل(physical resources) ہیں، اُن کے مقابلے میں مالیاتی نظام پچاس گنا زیادہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بنک اور سرمایہ کاری ادارے( investment houses)اور وہ لوگ جو مالیات کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں، وہ ہر چیز پرچھائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف دولت میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن دوسری طرف غربت ، بے روزگاری اور عدم مساوات میں اضافہ ہورہا ہے۔
آج دنیا کی آبادی سات ارب ہے، اس میں سے ۲ء ۱ ارب خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔ اور یہ معاملہ صرف ترقی پذیر اور ایشیا اور افریقہ کے ممالک کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر حصے میں، حتیٰ کہ امیر ترین ممالک میں بھی غربت موجودہے۔ امریکہ میں اس وقت غربت ۱۵ فیصد سے بڑھ چکی ہے، بے روزگاری ۱۰ فیصد ہے۔ لیکن اگر آپ معاشی اُمور طور پر سفید اور سیاہ فام لوگوں میں مقابلہ کریں تو سیاہ فام لوگوں میں۲۸ فیصدی بے روزگار ہیں۔ اسی طرح عدمِ مساوات کا پہلو ہے کہ دنیا کی ایک فیصدی آبادی دولت کے۳۷ فیصدی پر قابض ہے۔ ۱۰ فیصدی ۸۰ فیصدی پر قابض ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں عوامی سطح پر ایک تحریک چل رہی ہے جسےWall Street Occupationکہتے ہیں، یعنی Wall Street پر جو وہاں مالیاتی منڈی کا مرکز ہے، اُس پر قبضہ کرو۔ یعنی۹۹ فیصدی ایک فیصدی کے خلاف اُٹھ رہے ہیں۔ تو یہ ہے وہ کیفیت ۔ 
میں آپ کو بہت سے اعداد و شمار دینے کی کوشش نہیں کروں گا، صرف اصولی بات آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وسائل کی فراوانی کے باوجود وسائل کا غلط استعمال، دولت کا ارتکاز اور احتکار، ایک طبقے کا غلبہ اور معیشت،سیاست، تہذیب و تمدن، میڈیا، ان سب پر اُن کا قابض ہوجانا، اور ان کی قوت میں برابر اضافہ، یہ ہے بنیادی مسئلہ۔

بگاڑ کے اسباب
اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خواہ آپ علمِ معاشیات کودیکھیں یا معاشی نظام کو، جب اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو نظامِ سرمایہ داری اور موجودہ معاشی اور مالیاتی نظام کے بگاڑکے پانچ بنیادی اسباب ہیں۔ ان کو اچھی طرح سمجھ لیجیے اور اسی کے تقابل میں پھر ہم دیکھیں گے کہ اسلامی معاشیات اور اسلام کے سوچنے کا رویہ کیا ہے۔ 
اخلاقیات کا انکار: بگاڑ اور ناکامی کا پہلا سبب زندگی کی تقسیم ہے یعنی مذہبی اور غیر مذہبی، اخلاقی اور اخلاق سے عاری، دنیاوی اور اُخروی کی تقسیم۔ جس کے نتیجے کے طورپر، خواہ وہ علمِ معیشت ہو، خواہ وہ معاشی معاملات ہوں، خواہ وہ حکومت کی کارکردگی ہو، خواہ وہ معاشی پالیسیوں کا بنانا ہو، ان کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے سامنے صر ف مادی فلاح اور مادی فلاح کا پیمانہ بھی پیداوار کی اضافت، دولت میں اضافہ، بلالحاظ اس کے کہ اس کی تقسیم منصفانہ ہے یا نہیں، اور یہ سارا کام بس فراہمی اور طلب کے قوانین کے تحت ہونا چاہیے، اس کے لیے کوئی اخلاقی حدود، کوئی الہامی ہدایت، کوئی بالاتر ضابطہ، نہیں۔ یہ سب سے پہلی خرابی ہے۔
زندگی کی وحدت کو نظر انداز کرنا: دوسری خامی یہ ہے کہ انسانی زندگی کی وحدت کا تصور نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دراصل انسانی زندگی مجموعہ ہے بے شمار پہلووں کا: روحانی، جسمانی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، سیاسی، قانونی، نفسیاتی۔ یہاں بھی specialization کے نام پر زندگی کی اس وحدت کو پارہ پارہ کردیا گیا ہے اور ہر علم نے کوشش کی ہے کہ زندگی کی پوری اکائی کو صرف اپنے محدود نقطہ نظر سے دیکھے، اُس کی تعبیر کرے اور اُس کو بدلنے کی کوشش کرے۔معاشیات میں بھی زندگی کے باقی تمام پہلو، خواہ اُن کا تعلق نفسیات سے ہو، اخلاقیات سے ہو جس کی بات تو ہم نے پہلے ہی کی ہے سیاست سے ہو، معاشرت سے ہو، ادارات سے ہو،نظر انداز کیے گئے تو اس کے نتیجے کے طور پر ایک غیر فطری نظام بنا اور محض و ہ لوگ جن کے ہاتھ میں مالی قوت تھی، جو ٹیکنالوجی پر حاوی تھے، وہ اس پورے نظام کے کرتا دھرتا ہوگئے ۔ یہ دوسری خرابی ہے۔
منڈی کی غیر منصفانہ اہمیت: تیسری خرابی یہ ہے کہ منڈی اور مارکیٹ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ انسانی زندگی میں کیا آپ چاہیں، کیا آپ نہ چاہیں، کیا پسندیدہ ہے کیا پسندیدہ نہیں ہے، اس کا فیصلہ قیمتوں پر نہیں ہوسکتا۔ اس کا فیصلہ محض اس چیز پر نہیں ہوسکتا کہ کس کے پاس قوتِ خرید ہے اوروہ چیزوں کو خرید سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مارکیٹ ایک اہم ادارہ ہے، اس سے انکار نہیں، مارکیٹ وسائل کو ترقی دینے اور distributeکرنے کے لیے ایک مؤثر چیز ہے، لیکن اگر ہم صرف مارکیٹ کو ہر معاملے کو طے کرنے کا کام سونپ دیں تو یہ زندگی کو بگاڑ دیتا ہے۔ تو تیسری بنیادی خرابی یہ ہے کہ سوسائٹی کو محض معیشت اور معیشت کو محض مارکیٹ تک محدود کردیا گیا ہے، اور پھر ساری پالیسی سازی، انفرادی اور سرکاری سطح پر، اسی پر ہورہی ہے۔ 
صلاحیت اور عدل میں عدم توازنچوتھی خرابی یہ ہے صلاحیت اور عدل میں توازن برقرار نہیں رکھاگیا۔بلاشبہ انسان کی معاشی زندگی میں کارکردگی، اہلیت، پیداآوری (productivity)اہم ہیں، جسے معاشیات کی اصطلاح میں efficiency کہتے ہیں۔ لیکن efficiencyسب کچھ نہیں ہے۔ efficiency کے ساتھ ساتھ عدل، انصاف، حقوق کی پاسداری اور اس اہلیت کا، اس صلاحیت کا ایسا استعمال جس کے نتیجے کے طور پر انسانی معاشرہ بہتر ہوسکے، ضروری ہے۔ محض دولت کی فراوانی مطلوب نہ ہو بلکہ تمام انسانوں کی خوشحالی مطلوب ہو۔ تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ efficiency اور equity ایک دوسرے سے کٹ گئے، عدل کو بھی ٹکسال باہر کردیا گیا۔ 
پیسے سے پیسا بنانا: اس سلسلے میں پانچویں اور آخری چیز، جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا، وہ یہ تھی کہ مالیات کا اصل کام پیداوار کو، معاشی وسائل کو، وسائلِ حیات کو مناسب مقدار میں مرتب اور منظم کرکے مفید تر بنانا تھا۔ اب ترتیب اُلٹی ہوگئی ہے۔ اب اصل چیز دولت ہے۔ زیادہ سے زیادہ مال بنانا، جائز اور ناجائز ہی نہیں بلکہ بلالحاظ اس کے کہ ان مالی وسائل سے حقیقی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا کمی ہوتی ہے۔ توبگاڑ کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ یہاں پیسے سے پیسہ بنتا ہے۔ 
یہاں میں اشارتاً عرض کردوں کہ اسلام کا یہ ایک بڑا انقلابی تصور ہے کہ زر اور مالیات انسانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے، لیکن زر سے زر پیدا نہیں ہوتا، محض مالیات سے مزید مالیات پیدا نہیں ہوتیں، مالیات سے فوائد پیدا ہوتے ہیں اگر اس کو حقیقی پیداوا ریا خدمات کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے ۔ قرآن نے ایک چھوٹے سے جملے میں اس پورے انقلابی اصول کو بیان کردیا کہ
وَأَحَلَّ اللَّ۔ہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
’’حالانکہ اﷲ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ۔‘‘ (۲:۲۷۵)
رِبا یہ ہے کہ مالیات سے مالیات پیدا ہوں، بلالحاظ اس کے کہ یہ مالیات پیداواری عمل میں کوئی کردار ادا کریں۔ اور بیع یہ ہے کہ مالیات استعمال ہوں شے کو خریدنے، اسے پیدا کرنے، بنانے، اُسے فروخت کرنے میں۔ اس طرح گویا اشیاء اور خدمات کو جنم دینے سے مالیات اپنا اصل کردار ادا کرتی ہیں اور اس طرح سوسائٹی کے اندر value added ہوتا ہے۔ یہ ہے بنیادی نظام۔ مغربی معیشت اور معاشیات دونوں نے آہستہ آہستہ زر اور مالیات کا تعلق، حقیقی معیشت، حقیقی پیداوار اور معاشرے میں اشیائے صرف اور خدمات کے فروغ اور فراوانی سے توڑ دیا۔
یہ پانچ بنیادی خرابیاں ہیں۔ جب تک ان کی اصلاح نہ ہو۔ یہ چھوٹی موٹی چیزیں جو ہورہی ہیں کہ bail out کردو یعنی مزید قرض دے دو اور بنکوں کو کسی طرح بچالیا جائے، یہ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔حتیٰ کہ اب تو حکومتوں کو بچارہے ہیں، اور کھربوں ڈالر اس کے لیے خرچ ہوئے ہیں، عام انسانوں کے۔ اور ظلم یہ ہے کہ اُسی عمل میں امریکہ میں جو دو ملین گھرانے رہن (mortgage) کی بناء پر بے گھر ہوئے، انہیں کسی نے bail outنہیں کیا۔ لیکن بڑے بڑے بنک جن کے مینیجرز اور چیئرمین billions ڈالر بطور تنخواہ اور بونس کے وصول کرتے ہیں اُن بنکوں کو bail out کیا گیا ہے، ٹیکس دہندگان کے پیسے سے۔ اور اب یہ کام حکومتوں کے لیے ہورہا ہے۔ سب سے پہلے آئس لینڈ کو کیا، آئرلینڈ کو کیا۔ اس وقت یونان کو کیا جارہا ہے۔ پھر اسپین اور اٹلی ہیں۔ یعنی یہ بڑے بڑے ممالک ہیں جو اس وقت bail out ہورہے ہیں۔ اس سارے بحران کی بنیادی وجوہات وہ ہیں جو بیان کی گئیں۔ جب تک اصل جڑ تک نہیں پہنچیں گے معاملات درست نہیں ہوں گے۔
مکمل تحریر >>

انٹرنیشنل کمپنیاں پاکستان میں کاروبار سے کیوں کتراتی ہیں؟







راک فیلر سینٹر میں پیش آنے والا یہ واقعہ مجھے ایک دوست نے سنایا۔ راک فیلر سکوائر امریکہ کے شہر نیویارک کی سب سے مہنگی جگہ ہے۔ راک فیلر امریکہ کا امیر ترین شخص تھا۔ تاجر ٗ صنعتکار اور بینکر۔ یہ سنٹر اسی کے نام سے منسوب ہے۔ 
یہ واقعہ اس سنٹرکی پچاسویں منزل پر ایک دفتر میں رونما ہوا۔میرے دوست کا کہنا ہے کہ 2003 میں اسے کولمبیا یونیورسٹی کے ایک تربیتی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ اس پروگرام میں بیس کے قریب افراد شامل تھے۔ مختلف ممالک سے آنے والے ان افراد کو انتظامی امور کی تربیت دی جارہی تھی۔ علم ٗ سمجھ بوجھ اورتجربہ ۔ یہ آج کے نہیں مستقبل کے لیڈرز تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں چند ہفتے گذارنے کے بعد ان لوگوں کو امریکہ کے کاروباری اداروں کا وزٹ کروایا گیاتاکہ یہ لوگ دیکھ سکیں کہ عملی دنیا میں کیا ہوتا ہے۔ کاروبار کس طرح پھیلتا ہے۔ اس گروپ کی پہلی منزل راک فیلر سنٹر کی پچاسویں منزل پہ واقع جنرل الیکٹرک کمپنی GECکا دفتر تھا۔اس کمپنی کے کل اثاثہ جات 130بلین ڈالرز سے زیادہ ہیں۔ یہ اثاثے بہت سے ملکوں کی مجموعی آمدنی سے بھی  بڑھ کے ہیں۔ اس کمپنی کا کاروبار سو ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ امریکہ ٗ یورپ ٗ افریقہ ٗ ایشیا اور برِاعظم آسٹریلیا۔ دنیا بھر میں اس کمپنی کے پانچ لاکھ ملازمین ہیں۔ یہ کمپنی نہیں ایک دنیا ہے۔ سمندروں ٗ میدانوں اور صحراؤں تک پھیلی ہوئی۔ سوئی سے لے کر جہاز تک کوئی ایسی شے نہیں جو اس کمپنی کے کارخانوں میں نہ بنتی ہو۔ اس کمپنی کا پینتالیس سالہ چیف ایگزیکٹو سٹیورڈ لیوس دنیا کے اہم افراد میں شمار ہوتا ہے۔ یہ شخص امریکہ کے صدر سے کئی گنا زیادہ تنخواہ لیتا ے۔ پانچ گنا ٗ دس گنا ٗ بیس گنا۔ شاید اس سے بھی زیادہ۔ اس شخص کا ایک ایک لمحہ کئی کئی ہزار ڈالر کا ہے۔ اس سے ملنے کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سٹیورڈ لیوس نے کولمبیا یونیورسٹی سے آنے والے مہمانوں کو اپنی کمپنی سے متعارف کروایا۔ اس کی مصنوعات ٗ اس کے لوگ ٗ اس کی حکمتِ عملی اور اس کا مستقبل۔ اس نے جب ان سو ممالک کی فہرست ان کے سامنے رکھی جہاں اس کی کمپنی کام کرتی ہے تو میرے دوست کا تجسس بڑھنے لگا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ پاکستان میں اس کمپنی کاکاروبار کس قدر وسیع ہے لیکن اسے یہ دیکھ کر رنج ہوا کہ سٹیورڈ کی کمپنی پاکستان میں کام نہیں کرتی۔وہ خاموشی سے سٹیورڈ کی گفتگو سنتا رہا۔ رنجیدہ اور فکرمند۔ جب سٹیورڈ کی گفتگو ختم ہوئی تو سوال اور جواب کا موقعہ آیا۔میرا دوست اس موقعہ پرخاموش نہ رہ سکا۔ اس نے مائیک سنبھالا اور اپنا تعارف کروانے کے بعد اپنے ملک کا تعارف کروایا اور پھر صرف ایک سوال پوچھا:Mr. Steward! how can we make Pakistan an attractive place for you?میرے دوست کے سوال میں ہلکی سی شکایت بھی تھی۔ سٹیورڈ یہ سوال سن کر مسکرانے لگا۔ ’’مائی ڈیر! جب میں مہمانوں کی فہرست دیکھ رہا تھا تو اس فہرست میں ایک پاکستانی کا نام دیکھ کر میرے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھا تھا۔ پاکستان ہمارے لئے ایک اہم ملک ہے لیکن ہم پاکستان میں کاروبار کیوں نہیں کرتے۔ میری کمپنی کے نزدیک اس کی تین وجوہات ہیں۔کیا آپ سننا چاہیں گے‘‘۔ ’’کیوں نہیں‘‘۔ میرے دوست نے اشتیاق سے کہا۔’’ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آپ کے ہاں ہمارے معیار کے مطابق  Human Resourceموجود نہیں۔ وہ ذمہ دار اور دیانت دار لوگ جو کاروبار کو بامِ عروج پہ لے جائیں۔ محنتی ٗ ذہین اور باصلاحیت۔‘‘ سٹیورڈ نے کہنا شروع کیا۔ ’’ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ نہیں مانگتے لیکن وہ کم از کم اس معیار کے حامل تو ہوں جس معیار کے لوگ ہمیں دوسرے ممالک میں مل جاتے ہیں۔ کام نہ کرنے کی دوسری وجہ امنِ عامہ اور سیاسی عدم استحکام ہے ۔ امن اور سیاسی استحکام کے بغیر کاروبار نہیں ہوتا۔تیسری اور شاید سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میری کمپنی کی دولت اتنی فالتو نہیں کہ میں آپ کے ہاں کاروبار بھی کروں اور لوگوں کوکمیشن بھی دوں۔‘‘ میرے دوست کے بقول سٹیورڈ کے اصل الفاظ یوں تھے: I am accountable to share holders of my company. I have no extra money to bribe your leadership.میرا دوست سٹیورڈ لوئیس کا یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا۔ اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہ تھا۔ گیارہ سال پہلے جب اس نے یہ واقعہ مجھے سنایا تو میں بھی خاموش ہو گیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی کچھ کہنے کے قابل نہ ہوں گے۔ آئینہ مقابل ہو تو انسان کہہ بھی کیا سکتا ہے۔ انسانی وسائل ٗ سیاسی استحکام اور دیانتدارقوم۔ جنرل الیکٹرک کمپنی کو نجانے کب تک انتظار کرنا پڑے گا۔ میں تو پرامید ہوں۔ آپ کو بھی پرامید ہونا چاہیے۔-ڈاکٹرامجد ثاقب-
مکمل تحریر >>