Pages

اتوار، 7 فروری، 2016

وقت کی تنظیم ابو محمد مصعب

حصہ سوم
پچھلی قسط میں ہماری گفتگو چار خانوں پر مشتمل ایکquadrant سے متعلق تھی۔ ان چاروں خانوں میں جو دو نمبر خانہ یا ربع ہے جس کا نام ہے : اہم لیکن فوری نہیں (Quadrant of Focus) ۔ دراصل یہی مطلوب ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام مصروفیات اور کاموں کو اسی ایک خانہ کے اندر رکھے۔ اس کے لیے اچھی منصوبہ بندی اور کنٹرول درکار ہوگا، جس کو بتدریج مشق کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ معاملہ تب خراب ہوتا ہے جب اس خانہ کی کچھ چیزیں کسی دوسرے ربع Quadrant کے اندرگھس جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انسان یا تو پریشان ہوجاتا ہے، یا پھر دھوکہ کھاکر وقت جیسی قیمتی چیز گنوا رہا ہوتا ہے یا پھر چوتھے ربع میں لکھی سرگرمیوں میں ملوث ہوکر اپنا وقت ناس کر رہا ہوتا ہے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے انسان عام طور پر اپنا قیمتی وقت ضایع کرتاہے۔

وقت کو برباد کرنے والے اہم عوامل پانچ ہیں:

۱۔ نفس
۲۔ عادات یا مزاج
۳۔ ماحول
۴۔ معلومات کی کمی
۵۔ منصوبہ بندی کا فقدان

مندرجہ بالا عوامل لاتعداد عناصر کا مرکب ہیں لیکن ان میں سے چند ایک کا ذکر باری باری نیچے کیا جاتا ہے۔

۱۔ نفس یا خواہش: 

وقت کی تضیع میں سب سے زیادہ حصہ اسی چیز کا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے نفس پر قابو پالے تو آدھا مسئلہ یہیں حل ہوجاتا ہے۔ عدل کا لفظ تو سب نے سنا ہی ہوگا۔ عدل کس کو کہتے ہیں؟ عدل کہتے ہیں چیزوں کو ان کی اصل جگہ پر رکھنا، ان کو ان کا حق دینا، ان کی جو حیثیت مقرر کردی گئی ہے انہیں وہ حیثیت دینا۔ اگر عدل کو مزید سمجھنا چاہتے ہیں تو پھر‘‘ ظلم’’ کو سمجھنا پڑے گا۔ ظلم ، عدل کی نفی اور اسکا ضد ہے۔ ظلم کے معنی ہیں چیزوں کو ان کی اصل جگہ سے ہٹا دینا، ان سے ان کا اصل مقام اور حیثیت چھین لینا۔ اسی لیے قرآن نے شرک کو ‘‘ظلم عظیم’’ کہا ہے۔ اس لیے کہ انسان اپنے مالک اور رب سے اس کی اصل حیثیت چھین کر اسی کی مخلوق میں سے کسی کو دے دیتا ہے۔ جو کہ ظاہر ہےکہ ایک زیادتی اور ظلم والا رویہ ہے اور اسی چیز کی اسے سزا دی جائے گی۔

اب بات سمجھانا زیادہ آسان ہوگیا۔ ایک کامیاب انسان کو اورکچھ نہیں کرنا بس اپنی زندگی میں عدل کو نافذ کرنا ہے۔ عدل کے معنی توازن کے بھی ہوتے ہیں ۔ یہ عدل ہی ہے جس سے انسانی معاشروں میں رعنائی و خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ وہ فرد، گھر، معاشرہ یا ملک جس میں عدل نہ ہو ایک اکھاڑا نظرآتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جب عدل نہیں ہوگا تو لازما وہاں ظلم ہوگا۔ عدل اور ظلم دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ جہاں ایک آئے گا وہاں سے دوسرا غائب ہو جائیگا۔ یہ چیز سمجھنے کے بعد ہم ایک مثال سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فرض کریں کہ آپ نے دن میں دس کام کرنے ہیں۔ اب یوں کریں کہ ہر کام کو ایک انسان سمجھ لیں۔ مثلا: آپ نے آفس جانا ہے، اس کا نام میڈم ڈیوٹی رکھ لیں۔ آپ نے کھانا کھانا ہے اس کا نام شکم شریف رکھ لیں، آپ نے نماز پڑھنی ہے اس کا نام محترمہ عبادت رکھ لیں، آپ نے آرام کرنا ہے اس کا نام مسٹر خواب رکھ لیں، آپ نے بچوں کو سیر کے لیے لے کر جانا ہے اس کا نام مس تفریح رکھ لیں وغیرہ وغیرہ

اب یکھیں، اوپر جتنے بھی کام ہیں وہ اب کام نہیں رہے بلکہ انسان ہیں۔ آپ نے کیا کرنا ہے کہ ان تمام انسانوں کے ساتھ انصاف اور عدل والا معاملہ کرنا ہے اور تمام امور اس طرح بجا لانے ہیں کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔ زیادتی تب ہوتی ہے جب آپ میڈم ڈیوٹی کا حق لے کر برادر خواب کو دے دیتے ہیں اور محترمہ عبادت کا وقت لے مس تفریح کو الاٹ کردیتے ہیں۔ اس سے معاملات بگڑتے ہیں اور انسان پریشان ہوتا ہے۔

یہ تو ہوگئی عدل کی بات۔ اب بات کرتے ہیں نفس اور خواہشات پر کنٹرول کی۔ دو طرح کے کام ہوتے ہیں جن سے ایک کامیاب انسان کو بچنا چاہیے۔ ایک وہ کام جو برے ہیں جن سے اللہ نے رکنے کا کہا ہے دوسرے وہ کام، جو ہیں تو جائز لیکن ایک خاص وقت تک ان سے دور رہنے میں انسان کی کامیابی ہے۔ 

وہ کام جن سے اللہ نے بچنے کا کہا ہے لیکن انسان اس کی حکم عدولی کرکے، نفس کی بات مان کر اپنا وقت ضایع کررہا ہوتا ہے کون سے ہیں؟ اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

مثلا، ایک شخص ہے جس کو نامحرم عورتوں کا پیچھا کرنے اور ان پر ڈورے ڈالنے کی بیماری ہے۔ وہ دن کے کئی کئی گھنٹے اس کام پر صرف کرتا ہے۔ بازاروں کے چکر لگاتا ہے، گلی کے نکڑ پر کھڑا رہتا ہے تاکہ ہر آنے جانے والی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں سیکے ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ شوق اتنا بڑھتا چلا جاتا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر کئی کئی گھنٹے صرف کرتا ہے، نئے نئے چہرے تلاش کرتا ہے، ان سے دوستیوں کی کوشش کرتا ہے، ان سے چیٹ کرتا ہے ، ان سے ملاقات کی کوشش کرتا ہے۔اس طرح دن کے اختتام پر ایسا شخص اپنی حیات مستعار کے کئی قیمتی گھنٹے خرچ کرکے، نڈھال ہوکر بستر پر گرتا ہے۔ ایسا شخص اگر اپنے اس طرح ضایع ہونے والے گھنٹوں کا شمار کرے تو حیران ہوجائے۔ یہی وہ غلطی ہے جس کا ادراک انسان کو دنیا کی زندگی کے اختتام کے بعد ہوگا۔ اور وہ اللہ کو پکار پکار کر کہے گا کہ اے میرے مولا اب میں نے سب کچھ دیکھا لیا۔ جنت بھی جھنم بھی فرشتے بھی حشر بھی، لہٰذا اب مجھے ایک بار۔۔۔ بس ایک بار۔۔ واپس دنیا میں بھیج دے تاکہ میں نیک اور صالح عمل کرکے لوٹوں۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہاں پشیمان ہونا کسی کام کا نہ ہوگا اور اسے آگ میں ڈالتے وقت ملائکہ پوچھیں گے کہ: الم یاتکم نذیر (کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟)

دوسری مثال ان کاموں کی ہے جو ہیں تو جائز لیکن ایک کامیاب انسان کو آگے بڑھنے اور وقت بچانے کے لیے ان سے بچنا پڑے گا۔ جیسے کرکٹ ورلڈ کپ ہو اور کسی نوجوان کے امتحانات بھی انہی دنوں میں ہوں۔ نوجوان کرکٹ کا بیحد شوقین بھی ہو۔ لیکن اس وقت اگر نفس پر تھوڑا سا کنٹرول کرکے وہ پے درپے میچز سے دور رہے اور اپنی تعلیم اور امتحانات کی تیاری پر توجہ مرکوز رکھے تو اسی کے لیے اچھا ہوگا۔ ورنہ اگر اس نے سوچا کہ میچ دیکھ لیتا ہوں اور بعد میں تیاری کرلوں گا، تھوڑا کم سو لوں گا۔ تو اسی کو ظلم کہتے ہیں کہ اس نے مسٹر خواب کا حق چھین کر مس تفریح کو الاٹ کردیا ۔ اب اس کی زندگی میں سکون اور آرام ناپید ہونے اور معمولات درہم برہم ہونے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگے گا
حصہ چہارم


پچھلی قسط میں ہم نے وقت برباد کرنےوالے عوامل میں سے ایک چیز پر بات کی تھی۔ اب اس سلسلے کی دوسری کڑی پر بات ہوگی جو ہے: انسانی عادات یا مزاج کی وجہ سے تضیعِ وقت۔

۲۔ عادات یا مزاج

کتنے ہی کام ایسے ہیں کہ جو انسان عادتا کرتا ہے اور جن کے نتیجے میں وقت کا ضایع ہوتا ہے۔ اس تضیع کا احساس اسے اس لیے بھی نہیں ہوپاتا کہ وہ اس کی عادت یا مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ ان چیزوں پر بات کرنے سے پہلے ہم یہ دیکھ لیں کہ عادت کہتے کس کو ہیں۔ 

انسان کے ذہن میں ایک خیال یا تصور آتا ہے، پھر وہ خیال پختہ ہو کر ارادے کی صورت دھار لیتا ہے، پھر وہ ارادہ انسان کو کسی نہ کسی کام پر ابھارتا ہے، پھر وہ کام اگر انسان غیرارادی طور پر مقررہ وقت یا مقام یا موقعہ پر بار بار کرے تو اس کو عادت کہتے ہیں۔ عادت کوئی ایسی چیز نہیں کہ چھڑائی نہ جاسکےبلکہ اس کو تبدیل کرنا یا بلکل چھوڑ دینا عین ممکن ہے۔ لیکن اس کے لیے مضبوط قوت ارادی درکا ہوتی ہے۔ کئی عادات اچھی اور مطلوب ہوتی ہیں لیکن کئی عادات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان اپنا بہت نقصان کرتا ہے۔ وقت کا ضیاع بھی انھی نقصانات میں سے ایک ہے۔ ان بری عادات میں سے کچھ کا نیچے ذکر کیا جاتا ہے۔

ضروری چیزیں، خاص کر لین دین کے معاملات نوٹ نہ کرنا:

مثلا: یہ ایک اچھی بات ہوتی ہے کہ انسان جو بھی لین دین کرے لکھ لے۔ کچھ لوگوں میں یہ عادت بڑی پختہ ہوتی ہے اور ان کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے تو لازمی ہے جو اکاؤنٹس کا کام کرتے ہیں یا روانی سے لین دین کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز لکھ لیتے ہیں۔ ایک جگہ میں جاب کرتا تھا۔ وہاں اسٹاف میں ایک صاحب تھے وہ اپنی جیب میں ایک چھوٹی سی پرچی رکھتے تھے ۔ اگر کسی نے ان سے پچاس روپے قرض مانگ لیا تو وہ پرچی نکالتے تھے اور اس پر نوٹ کرلیتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس پرچی کا کیا کریں گے، اس طرح تو آپ کے پاس کافی پرچیاں جمع ہوجائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں۔ میں نے گھر پر ایک ڈائری رکھی ہوئی ہے جس میں لوگوں سے لین دین کو نوٹ کرتا ہوں، جب اس میں رقم درج کر لیتا ہوں تو پھر یہ پرچی پھاڑ دیتا ہوں۔

اسی کمپنی میں جو اکاؤنٹنٹ تھے ان کی بھی یہ عادت بڑی پختہ تھی کہ وہ چیزوں کو نوٹ کرلیتے تھے۔ بڑا اسٹاف تھا۔ آئے دن لیبر یا اسٹاف کے لوگوں کو مہینے کے دوران ایڈوانس کی ضرورت پڑتی تو وہ سیدھا اکاؤنٹنٹ کے پاس جاتا اور اپنا تقاضا بیان کرتا۔ اکاؤنٹنٹ صاحب کی یہ پختہ عادت بنی ہوئی تھی کہ وہ پہلے الماری کھولتے، اس میں سے ایک ڈائری نکالتے، اس پر مانگی گئی رقم نوٹ کرتے، ڈائری واپس رکھتے اور پھر کیش والا خانہ کھول کر مطلوبہ رقم نکال کر سائل کو دیتے۔ میں بھی چوں کہ اکاؤنٹس میں ان ہی کے تحت کام کر رہا تھا۔ میں نے ان سے اس بات کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا ہمیشہ یہ اصول ذہن میں رکھو کہ جب کسی کو رقم دینی ہو تو پہلے لکھو پھر دو۔ اور جب کسی سے رقم لینی ہو تو پہلے لو پھر لکھو۔ مجھے ان کا یہ اصول بڑا اچھا لگا۔ کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہوگیا اور ایک اور سینیئر کلرک کے پاس کیش کی ذمہ داری آگئی۔ لیکن وہ اس معاملہ میں سستی کرجاتے تھے۔ اسٹاف میں سے کوئی اچانک آگیا اور سرپرسوار ہوگیا کہ مجھے ہزار یا پانچ سو چاہئیں۔ تو وہ جان چھڑانے کے لیے فورا نکال کر دے دیتے تھے، اس خیال سے کہ ابھی نوٹ کرلیتا ہوں لیکن اکثر بھول جاتےتھے۔ پھر جب کیش شارٹ ہوتا تھا تو دماغ پر زور دینا شروع کردیتے تھے کہ کیش کیوں شارٹ ہورہا ہے۔ اب دیکھیں اکاؤنٹنٹ صاحب اپنی ایک عادت کی وجہ سے کتنا وقت بچاتے تھے اور وہ کلرک نوٹ نہ کرکے کتنا وقت بعد میں ضایع کرتے تھے۔ کبھی مجھ سے معلوم کرتے کہ میں نے کسی کو پیسے تو نہیں دیے تھے تو کبھی کسی اور سے۔

تجسس یا دوسروں کی ٹوہ لگانا:

اسی طرح دوسری عادت ہے تجسس۔ لوگوں کے اندر یہ بری عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں ۔ اس بری عادت کی تسکین کےلیے وہ بعض اوقات اپنے ضروری کام چھوڑ کر دوسروں کی جاسوسی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے کئی کئی گھنٹے ضایع کرتے ہیں۔ مجھے ایک ایسے صاحب سے بھی واسطہ پڑا جو اپنا کاروبار چھوڑ کار سارا دن اپنی بیوی کی جاسوسی کرتے رہتے تھے۔، جب آفس آتے اور اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو سیکریٹری کی جاسوسی کرتی کہ کس سے اور کیا بات کر رہی ہے۔ کیوں کہ ان کا اور سیکریٹری کا فون ایک ہی لائن پر لگا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے آفس سے باہر جاتے تو واپس آکر ایک ایک چیز کو پر نظر ڈالتے کہ اپنی جگہ پر رکھی ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو فورا اسٹاف سے پوچھتے، فلاں چیزوہاں رکھی تھی اب یہاں کیوں رکھی ہے۔ مقصد یہ کہ اس طرح کے بندے کو کسی جاسوسی ادارے میں جاب تو کرلینی چاہیے لیکن کاروبار ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔

سستی یا ٹال مٹول:

اسی طرح سستی اور ٹال مٹول والا مزاج ہے۔ اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ سر پہ آئے کام کو ٹالتے رہتے ہیں کہ بعد میں کریں گے۔ اس عادت کی وجہ سے نہ صرف وقت ضایع ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹال مٹول کا یہ رویہ اب ہماری قومی شناخت بن چکا ہے۔ اگر بال بنوانے ہیں تو چاند رات کو۔ اگر خریداری کرنی ہے تو عید سے ایک دن پہلے۔ اگر بل ادا کرنا ہے تو آخٰری تاریخ پہ۔ اگر بچوں کی اسکول فیس دینی ہے تو انتظامیہ کی جانب سے نوٹس ملنے پر۔ اگر ڈاکٹر کے پاس جانا ہے تو بلکل آخری مرحلے پر۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

کہتے ہیں کہ ایک شخص صرف اس لیے پھانسی چڑھ گیا کہ بادشاہ نے جس شخص کو معافی کا پروانہ لکھ کر دیا تھا، وہ راستہ ہی میں کہیں تماشہ دیکھنے لگ گیا اور جلاد کے پاس تاخیر سے پنہچا۔ آپ کے من کے اندر بھی ایک بادشاہ ہے، جس کو ضمیر کہتے ہیں۔ وہ مختلف احکام لکھ کر آپ کو ہر دم دے رہا ہوتا ہے لیکن آپ کی سستی اور ٹال مٹول کی وجہ سے کئی کام‘‘ پھانسی’’ چڑھ جاتے ہیں۔ اسی چیز کا ذکر کرتے ہوئے قرآن نے مومنین کی ایک خوبی یہ بھی بتائی ہے کہ جب ان کا گذر کسی لغو(فضول) چیز پر سے ہوتا ہے تو شریف آدمیوں کی طرح گذر جاتے ہیں۔ یعنی وہاں کھڑے ہوکر تماشہ دیکھنا شروع نہیں کردیتے۔

بدسلیقگی اور پھوہڑپن:

کچھ لوگ محض بدسلیقگی کی بناء پر اپنا بہت سارا وقت ضایع کرتے ہیں۔ چیزوں کو اپنی مقررہ جگہ پر نہیں رکھتے بلکہ ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں پھر وقت پڑنے پر جب ڈھونڈنا شروع کرتے ہیں تو کئی منٹ یا گھنٹے ضایع کرتے ہیں۔ اس چیز کا بھی تعلق انسانی عادات سے ہے۔ تھوڑی سی مشق سے آدمی اس کمزوری پر قابو پاسکتا ہے۔ ایک صاحب کو میں جانتا ہوں جن کا آدھا وقت صرف چیزیں ڈھونڈنے میں صرف ہوجاتا ہے۔ کہیں سفر پر جانا ہے تو پاسپورٹ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، کوئی بل ادا کرنا ہو تو پرانے بل تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک دن تو اپنی گاڑی کہیں پارک کرکے بھول گئے، پھر دوسرے دن اپنے بیٹے کو بھیجا جس نے بڑی مشکل سے گاڑی تلاش کی۔ کسی جگہ ان کو کسی موضوع پر تقریر کرنی تھی، اپنے نوٹس گھر بھول کر آگے۔ اب لوگوں کو دوڑا رہے ہیں کہ جاؤ میرے نوٹس لے کر آؤ۔

بے توجہی:

کسی کی بات توجہ سے نہ سننے یا چیزوں کو غور سے نہ دیکھنے کی وجہ سے بھی بہت سارا وقت ضایع ہوتا ہے۔ مجھ سے کئی بار ایک صاحب نے فون کرکے کسی مشترکہ دوست کا نمبر مانگا۔ میں نے دے دیا، پھر کچھ دن بعد فون کرکے انہی صاحب کا نمبر مانگا۔ میں نے کہا کہ بھئی ابھی کچھ دن پہلے تو میں نے آپ کو ان کا نمبر دیا تھا، جواب ہوتا کہ میں نے محفوظ نہیں کیا تھا۔ اس طرح طرفین کا وقت ضایع ہوتا رہتا ہے۔ یا آپ نے بازار سے دو کلو آم خریدے لیکن جس وقت آم تولے جا رہے تھے، آپ اپنے موبائل سے کھیل رہے تھے لہٰذا جو آم آپ کو دیے گئے ان میں سے آدھے خراب نکلے۔ اب اگر واپس جائیں تو وقت کی بربادی اور نہ جائیں تو پیسے کا ضیاع۔

انٹرنیٹ یا فلموں اور ڈراموں کا چسکا:

آج کل کے نوجوانوں اور گھر پر رہنے والی خواتین کا بہت زیادہ وقت انٹرنیٹ یا پھر ٹی وی پروگراموں کی نظر ہوجاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے تو گویا کہ ہمارے اوقات کار میں سب سے بڑا نقب لگایا ہے۔ ڈراموں کی تمام قسطیں دیکھنا، سیاسی مباحث پر مشتمل ٹاک شوز اس امید پر دیکھنا کہ ہوسکتا ہے کہ آخر میں کوئی کام کی بات مل جاے، دن میں کئی کئی بار سوشل میڈیا پر لاگ ان رہنا، فروعی، مذہبی، سیاسی، مسلکی بحث و مباحثے کرنا۔ پھر ہر ہر کمنٹ کا جواب دینا اور ہر ہر لائک کو دیکھنا ایسا رویہ ہے کہ جو ہمارے وقت کی صراحی کا سارا پانی پی جاتا ہے۔ دن کے اختتام پر اگر آدمی دیکھے کہ اس کے اس طرزعمل سے اس نے کیا کچھ پایا تو جواب صفر ہو گا
وقت کی تنظیم(5)

ایک کام ادھورا .... دوسرا شروع [desultory]

کچھ لوگوں کا مزاج ہوتا ہے کہ ان کی توجہ کسی ایک کام پر نہیں ٹکتی اور وہ ہر لمحہ ایک کام چھوڑ کار دوسرا پکڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس چیز کو انگریزی میں desultory کہتے ہیں۔ ڈیزلٹری کو ایک مثال کے ذریعے تو ہم بعد میں سمجھتے ہیں لیکن یہ لفظ آیا کہاں سے اور اس کے کیا معنی ہیں پہلے اس پر بات کرلیتے ہیں۔

اندازہ ہے کہ یہ لفظ سولوھیں صدی عیسوی میں پہلی بار لاطینی یورپ میں اس وقت استعمال ہوا جب سرکس میں گھوڑے پر بیٹھ کر کرتب دکھانے والے ایک شعبدہ باز نے ایک گھوڑے سے دوسرے پر ، دوسرے سے تیسرے پر جمپ کرکے لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اسی طرح وہ شخص جو ایک کام سے دوسرے کی طرف اور پھر دوسرے سے تیسرے کی طرف جمپ کرتا ہے اس کو desultory شخصیت کا حامل فرد کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسا فردجس کا دل چند منٹ کے لیے بھی کسی ایک کام پر نہیں ٹکتا اور وہ ہر لمحے ایک کام چھوڑ کر دوسرے میں لگ جاتا ہے۔ نتیجتا تمام کے تمام کام ادھورے اور بے نتیجہ رہتے ہیں اور وقت کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔

یہ چیز بعض انسانوں کے مزاج میں ہوتی ہے کہ وہ دو منٹ بھی توجہ اور دلچسپی سے ایک کام نہیں کرپاتے۔ اگر وہ کوئی نیک نمازی آدمی ہے تو اسے آپ دیکھیں گے کہ مسجد میں تھوڑی دیر کے لیے قرآن کھول کر بیٹھے گا، ابھی ایک یا دو صفحات بھی نہیں پڑھے ہونگے کہ طبیعت اچاٹ ہوجائے گی، قرآن بند کرکے نوافل شروع کردے گا۔ اس کو بھی زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکے گا، پھر تسبیح لے کر بیٹھ جائے گا۔ ابھی ایک یا دو تسبیحات بھی پوری نہیں ہوئی ہونگی کہ اسے اپنا موبائل یاد آجائے گا۔ جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل نکالے گا اور وال چیک کرے گا۔ پھر تسبیح کی جگہ اس کے ہاتھ میں موبائل آجائے گا، اٹھ کر باہر نکلے گا اور اس طرح ایک کام سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کی طرف جمپ کرتا رہے گا۔

طبیعتوں کے اچاٹ ہوجانے والا یہ رویہ انسانوں کے اندر بارہا دیکھا گیا ہے۔ اب اس کو ایک مختصر اسٹوری کی صورت میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جاوید صاحب ایک جگہ جاب کرتے ہیں آج ان کی چھٹی ہے اور وہ اپنے گھر پر ہیں ۔ ان کے ہاتھ میں اپنا موبائل ہے جس پر کچھ لکھتے لکھتے جاوید صاحب کو احساس ہوا کہ موبائل کی بیٹری ختم ہونے کے قریب ہے۔ لہٰذا وہ وہ اپنا سیٹ ٹیبل پر ہی چھوڑ کر کمرے میں گئے۔ انہوں نے ٹیبل کا خانہ کھولا تاکہ اس میں سے موبائل کا چارجر نکالیں۔ خانہ کھولنے پر ان کی نظر تصویروں کے ایک البم پر پڑی۔ انہوں نے وہ اٹھا لیا اور تصویریں دیکھنا شروع کردیں۔ یہ تصویریں دراصل ان کے پچھلے سال دورہ مری کی تھیں۔ جب تیسری تصویر کو انہوں نے غور سے دیکھا تو ان کا دہیان اس شرٹ کی طرف گیا جو انہوں نے تصویر میں پہن رکھی تھی۔ البم کو ایک طرف رکھ کر وہ شرٹ ڈھونڈنے کی نیت سے الماری کی طرف بڑھے۔ جیسے ہی الماری کا دروازہ کھولا ان کی نظر الماری کے نچلے خانے میں رکھے اپنے جوتوں پر پڑی۔ سوچنے لگے کہ جوتوں کی حالت کافی خراب ہوگئی ہے کیوں نہ ان کو پالش کرلیا جائے۔ لہٰذا انہوں نے پالش کی ڈبیا اٹھائی اور برش لے کر اپنے جوتے پالش کرنا شروع کردے۔ ابھی ایک ہی جوتا پالش ہوا تھا کہ باہر ٹیبل پر رکھے موبائل کی رنگ بجی۔ وہ اپنے جوتے وہیں چھوڑ کرموبائل کی طرف لپکے لیکن ان کے پنہچنے تک بیل بند ہوچکی تھی۔ انہوں نے دیکھنا چاہا کہ کس کی کال تھی مگر اس سے پہلے انہوں نے فیس بک کھول لیا اور اپنے اسٹیٹس پر کیے گئے دوستوں کے کمنٹس پڑھنا شروع کردیے۔ ایک دو کمنٹس کا جواب بھی دیا۔ سامے ہی میلے کپڑوں کی ٹوکری تھی جن میں ان کے بنیان وغیرہ رکھے تھے اور دھلنے کے منتظر تھے۔ سوچا کہ آج چھٹی کا دن ہے کیوں نہ یہ کام بھی کرلیا جائے۔ لیکن دھلائی کا پاؤڈر اسٹور میں کہیں رکھ تھا۔ جب وہ اسٹور کی طرف بڑھے تو پاؤڈر نہیں مل رہا تھا۔ پاؤڈر تلاش کرتے کرتے ان کی نظر کتب کی الماری پر پڑی۔ کتب میں سامنے ہی سامنے صدیق سالک کا لکھا ہوا ناول ‘‘پریشرککر’’ نظر آیا۔ یہ ناول انہوں نے بہت پہلے پڑھا تھا۔ سوچا کہ کیوں نہ اسے دوبارہ پڑھ لیا جائے، سو ناول لے کر باہر آگے اور پڑھنا شروع کردیا۔

یہ ایک مثال تھی بات کو سمجھنے کے لیے ورنہ آپ جتنا چاہیں اس کہانی کولمبا کرتے چلے جائیں ، جاوید صاحب کی ایک گھوڑے سے دوسرے گھوڑے تک چھلانگیں ختم نہیں ہونگی۔ آپ نے دیکھا کہ انہوں نے کتنے کاموں میں ہاتھ ڈالا لیکن کوئی ایک بھی مکمل نہیں کیا ۔ اور تسلی رکھیں، یہ ناول بھی وہ دو چار صفحات سے زیادہ نہیں پڑھ پائیں گے کتاب رکھ کر کوئی نیا کام شروع کردیں گے۔

مزاج کی یہ بے چینی اور طبیعت کا جلد کسی کام سے اچاٹ ہوجانا وقت کی تضیع کا ایک اہم سبب ہوتا ہے۔ اس لیےاگر آدمی نے کوئی کام کرنا ہے تو سوچ سمجھ کرکرے اور یہ سوچ کر کرے کہ جس کام میں ہاتھ ڈالا ہے، مکمل کرکے ہی چھوڑنا ہے۔ چار ادھورے کاموں سے بہتر ہے کہ آدمی ایک ہی کام کرے لیکن مکمل کرے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مزاج کو کیسے بدلا جائے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اس مزاج کو تبدیل کرنے کے کئی سائنسی طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک اسپورٹس بھی ہے۔ ایسے آدمی کو ضرور کوئی نہ کوئی ایسا کھیل کھیلنا چاہیے جس میں اسے خوب محنت کرنا پڑے، پسینے نکلیں اور بدن تھک جائے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کھیل کو جاری رکھے۔ یہ چیز اس کے اندر آہستہ آہستہ وہ قوت اور شکتی پیدا کرے گی کہ اس کا اسٹمنا بڑھ جائے گا اور وہ چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے کا ہنر پا لے گا۔

دوسری بات یہ کہ جب بھی کسی کام کے دوران اس کا دل اچاٹ ہو اور چاہے کہ اسے ادھورا چھوڑکر کوئی دوسرا کام شروع کرے تو اس کو اپنی اس خواہش کو سختی سے کچل دینا چاہیے۔ یہ وہ سانپ ہے جس کے کئی سر ہیں۔ باری باری کچھ دن تک ان سروں کو کچلتا رہے، انشاء اللہ ایک دن وہ اس عادت سے بلکل ہی نجات پا لے گا۔
مکمل تحریر >>

عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات

میری آج کی گفتگو کا محور تین اُمور ہیں:-
ایک موجودہ معاشی عالمی بحران، دوسرا اسلامی معیشت اور اُس کا کردار، اور تیسرا اس پس منظر میں علمائے کرام کی ذمہ داری۔ 
موضوع بہت وسیع ہے، میں صرف ضروری اشارات ہی کرسکوں گا، اسلامک ڈویلپمنٹ بنک جدہ میں جو Annual Prize Lecture ہوتا ہے، اپریل ۲۰۱۲ء میں مجھے یہ خطاب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، اور اُس میں میں نے تقریباً اسی موضوع کو لیا، میں اُس کے بنیادی نکات آپ کے سامنے آج کی اس محفل میں چاہتا ہوں کہ پیش کروں۔
عالمی معاشی بحران
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ابھی چند روز پہلے ہی ایک اور بھونچال مغرب کی مالیاتی دنیا میں آیا ہے، اور ایک بہت بڑے بنک--برکلے بنک--کے بہت ہی تکلیف دہ اسکنڈلز (scandals) سامنے آئے ہیں، جس سے معلوم ہوا کہ بنکوں کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ بڑے قانون اور ضابطے کے پابند اور اپنی روایات کے مطابق کام کرتے ہیں،درست نہیں ہے۔ بلکہ اس سطح پر بھی کرپشن، گٹھ جوڑ، ہوس، ذاتی منافع اور ہیر پھیر (under hand)، ان سب کا رواج ہے۔ 
اور بنک آف انگلینڈ کے گورنر نے پرسوں ہی ایک بہت اہم تقریر کی ہے، جس میں اُس نے یہ کہا ہے کہ ہمارا بنکاری نظام پانچ سال سے شدید بحران کا شکار ہے، لیکن ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔یعنی ۲۰۰۷ء سے یہ بحران شروع ہوا ہے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے پورے بنکاری طور طریقوں (banking culture)کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم بحران سے نہیں نکل سکتے۔
اور پھر سب سے اہم نکتہ جو آخر میں اُس نے کہا ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ محض مالی اور معاشی نہیں ہے، بلکہ اخلاقی ہے، اور جب تک اخلاقی اصلاح کا کام نہ ہو، جب تک ان تمام معاملات کے لیے اخلاقی اصول اور ضابطے بنانے اور اُن کو متحرک اور مؤثر کرنے کا کام نہ کیا جائے اُس وقت تک اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔ 
یہ وہ چیز ہے جو اس وقت مغرب کی سوچ کو سمجھنے والے اہلِ دانش کہنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ بلاشبہ ہمیشہ کچھ لوگ ایسے رہے ہیں جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے۔ اور اسلامی مفکرین تو علامہ اقبال سے لے کر آج تک اپنے اپنے انداز میں اس نکتے کو پیش کرتے رہے ہیں۔ اسلامی معاشیات کے باب میں پچھلے چالیس سال میں جو بھی تھوڑی بہت خدمات ہم نے انجام دی ہیں، اس کا بھی ایک مرکزی نکتہ یہی تھا۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ وہ جو اس بات کے منکر تھے کہ اخلاق اور معیشت کا کوئی تعلق ہے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ اخلاق کے بغیر معیشت کی اصلاح ممکن نہیں ۔ 
وقت کی کمی کے باعث میں بے شمار حوالے اپنے پاس ہوتے ہوئے بھی اُن کو پیش کرنے کی زحمت نہیں کررہا ہوں۔ صرف آپ کو بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ پچھلے ایک سال میں اور خاص طور سے پچھلے تین مہینے میں ایک درجن سے زیادہ چوٹی کے معاشی لکھنے والوں نے کھل کر یہ بات کہی ہے کہ جو معاشیات ہم نے آج تک پڑھی اور پڑھائی ہے، اور جس پر بنیاد ہے ہمارے پورے نظام کی، اس کی چولیں ہل گئی ہیں۔ جن بنیادوں پر وہ قائم تھی وہ متزلزل ہیں، اور اس کی بہترین عکاسیLondon Economist نے اپنے ایک سرورق پر کی ہے، جس کا عنوان ہی یہ ہے کہ What is wrong with Economics?، اور جو تصویر انہوں نے دی ہے وہ ایک معاشیات کی کتاب ہے جو ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر رہی ہے۔ تو ایک نئی معیشت کی ضرورت، معاشی معاملات کو ایک نئے اپروچ کی ضرورت، یہ اس وقت ایک ایسی طلب ہے جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ بڑا سانحہ ہوگا کہ مسلمان، جن کے پاس اﷲ کی کتاب ہے اور اس کی بنیاد پر ایک دوسرے متبادل نظام کا پورا نقشہ موجود ہے، وہ اپنی کوتاہی یا بدعملی کی بناء پر دنیا کے سامنے اُس نظام کو پیش نہ کرسکیں۔

دیکھیے، جدید سرمایہ داری کا بظاہر تو آغاز۱۸ویں صدی کے وسط میں ہوا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی سوچ اس سے پہلے سے موجود ہے، وہ فکری میدان میں بھی، عملی میدان میں بھی ترقی کررہی تھی، لیکن صنعتی انقلاب نے ایک ایسی کیفیت پیدا کردی جس کی بناء پر معیشت کا یہ تصور اور معاشی نظام کا یہ خاکہ ایک غالب قوت کی حیثیت سے سامنے آیا۔ جس نے دنیا کے نقشے کو بدل ڈالا اور معاشی ترقی کے ایسے نئے تصورات کو جنم دیا جنہوں نے معاشی قوت کے توازن کو مغربی اقوام کی طرف منتقل کردیا۔ اُس وقت سے اب تک یہی نظام ایک غالب معاشی نظام رہا ہے۔ اندرونی طور پر اس میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس کا آغاز صنعتی سرمایہ داری یعنی Industrial Capitalism سے ہوا تھا۔
جس کے معنی یہ ہیں کہ معاشی وسائل کو نجی ملکیت اور نجی سرمایہ کاری اور سود اور بنکنگ کے ذریعے منظم اور مرتب کرکے پیداوار کو بڑھانے کا کام انجام دیا جائے۔ اور یہ سوچ کہ ہر چیز جس کسوٹی پر پرکھی جائے وہ یہ ہے کہ پیداوار بڑھے، جس چیز کی طلب ہو، اسے فراہم کیا جائے، بلالحاظ اِس کے کہ وہ طلب جائز ہو یا ناجائز ہو۔ اگر اُس طلب کو پورا کرنے کے لیے قوتِ خرید (purchasing power)موجود ہے تو اس کی رسد کے لیے یہ وجہ کافی ہے۔ اورطلب اور رسد کے یہ تمام فیصلے منڈی کے ذریعے سے انجام دیے جائیں۔ یہی ترقی کا مؤثر ترین راستہ ہے، اور یہی وہ صورت ہے جس میں سرمایہ دار باقی تمام وسائل کو اپنے نقشے کے مطابق استعمال کرکے بہترین معاشی نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
اس طرح صنعتی سرمایہ داری(Industrial Capitalism )سے اس کاآغاز ہوا اور مالیات اُس کا ایک بڑا ہی اہم ستون اور ذریعہ تھا۔پھر آہستہ آہستہ بیسویں صدی میں ، اور خاص طور پر پچھلے پچاس برسوں میں یہ صنعتی سرمایہ داری نظام ایک مالیاتی سرمایہ داری نظام یا Financial Capitalism میں تبدیل ہوگیا۔
آغاز میں مالیات کا کام یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ حقیقی معاشی قوتوں کو متحرک کرے۔ اُس کے ذریعے سے محنت بھی، مشینری بھی، ٹیکنالوجی بھی اور دوسرے وسائلِ پیداوار بھی استعمال میں لائے جاسکیں۔ لیکن آہستہ آہستہ مالیات کو ایسا غلبہ حاصل ہوگیا کہ محض قرضوں اور مالیات کا تبادلہ یعنی credit اور financesکا تبادلہ پورے معاشی نظام پر چھا گیا، بلالحاظ اس سے کہ ان سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں۔ اب عملاً صورت یہ ہے کہ جو معاشی پیداوار اورمادی وسائل(physical resources) ہیں، اُن کے مقابلے میں مالیاتی نظام پچاس گنا زیادہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بنک اور سرمایہ کاری ادارے( investment houses)اور وہ لوگ جو مالیات کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں، وہ ہر چیز پرچھائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف دولت میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن دوسری طرف غربت ، بے روزگاری اور عدم مساوات میں اضافہ ہورہا ہے۔
آج دنیا کی آبادی سات ارب ہے، اس میں سے ۲ء ۱ ارب خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔ اور یہ معاملہ صرف ترقی پذیر اور ایشیا اور افریقہ کے ممالک کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر حصے میں، حتیٰ کہ امیر ترین ممالک میں بھی غربت موجودہے۔ امریکہ میں اس وقت غربت ۱۵ فیصد سے بڑھ چکی ہے، بے روزگاری ۱۰ فیصد ہے۔ لیکن اگر آپ معاشی اُمور طور پر سفید اور سیاہ فام لوگوں میں مقابلہ کریں تو سیاہ فام لوگوں میں۲۸ فیصدی بے روزگار ہیں۔ اسی طرح عدمِ مساوات کا پہلو ہے کہ دنیا کی ایک فیصدی آبادی دولت کے۳۷ فیصدی پر قابض ہے۔ ۱۰ فیصدی ۸۰ فیصدی پر قابض ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں عوامی سطح پر ایک تحریک چل رہی ہے جسےWall Street Occupationکہتے ہیں، یعنی Wall Street پر جو وہاں مالیاتی منڈی کا مرکز ہے، اُس پر قبضہ کرو۔ یعنی۹۹ فیصدی ایک فیصدی کے خلاف اُٹھ رہے ہیں۔ تو یہ ہے وہ کیفیت ۔ 
میں آپ کو بہت سے اعداد و شمار دینے کی کوشش نہیں کروں گا، صرف اصولی بات آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وسائل کی فراوانی کے باوجود وسائل کا غلط استعمال، دولت کا ارتکاز اور احتکار، ایک طبقے کا غلبہ اور معیشت،سیاست، تہذیب و تمدن، میڈیا، ان سب پر اُن کا قابض ہوجانا، اور ان کی قوت میں برابر اضافہ، یہ ہے بنیادی مسئلہ۔
بگاڑ کے اسباب
اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خواہ آپ علمِ معاشیات کودیکھیں یا معاشی نظام کو، جب اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو نظامِ سرمایہ داری اور موجودہ معاشی اور مالیاتی نظام کے بگاڑکے پانچ بنیادی اسباب ہیں۔ ان کو اچھی طرح سمجھ لیجیے اور اسی کے تقابل میں پھر ہم دیکھیں گے کہ اسلامی معاشیات اور اسلام کے سوچنے کا رویہ کیا ہے۔ 
اخلاقیات کا انکار: بگاڑ اور ناکامی کا پہلا سبب زندگی کی تقسیم ہے یعنی مذہبی اور غیر مذہبی، اخلاقی اور اخلاق سے عاری، دنیاوی اور اُخروی کی تقسیم۔ جس کے نتیجے کے طورپر، خواہ وہ علمِ معیشت ہو، خواہ وہ معاشی معاملات ہوں، خواہ وہ حکومت کی کارکردگی ہو، خواہ وہ معاشی پالیسیوں کا بنانا ہو، ان کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے سامنے صر ف مادی فلاح اور مادی فلاح کا پیمانہ بھی پیداوار کی اضافت، دولت میں اضافہ، بلالحاظ اس کے کہ اس کی تقسیم منصفانہ ہے یا نہیں، اور یہ سارا کام بس فراہمی اور طلب کے قوانین کے تحت ہونا چاہیے، اس کے لیے کوئی اخلاقی حدود، کوئی الہامی ہدایت، کوئی بالاتر ضابطہ، نہیں۔ یہ سب سے پہلی خرابی ہے۔
زندگی کی وحدت کو نظر انداز کرنا: دوسری خامی یہ ہے کہ انسانی زندگی کی وحدت کا تصور نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دراصل انسانی زندگی مجموعہ ہے بے شمار پہلووں کا: روحانی، جسمانی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، سیاسی، قانونی، نفسیاتی۔ یہاں بھی specialization کے نام پر زندگی کی اس وحدت کو پارہ پارہ کردیا گیا ہے اور ہر علم نے کوشش کی ہے کہ زندگی کی پوری اکائی کو صرف اپنے محدود نقطہ نظر سے دیکھے، اُس کی تعبیر کرے اور اُس کو بدلنے کی کوشش کرے۔معاشیات میں بھی زندگی کے باقی تمام پہلو، خواہ اُن کا تعلق نفسیات سے ہو، اخلاقیات سے ہو جس کی بات تو ہم نے پہلے ہی کی ہے سیاست سے ہو، معاشرت سے ہو، ادارات سے ہو،نظر انداز کیے گئے تو اس کے نتیجے کے طور پر ایک غیر فطری نظام بنا اور محض و ہ لوگ جن کے ہاتھ میں مالی قوت تھی، جو ٹیکنالوجی پر حاوی تھے، وہ اس پورے نظام کے کرتا دھرتا ہوگئے ۔ یہ دوسری خرابی ہے۔
منڈی کی غیر منصفانہ اہمیت: تیسری خرابی یہ ہے کہ منڈی اور مارکیٹ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ انسانی زندگی میں کیا آپ چاہیں، کیا آپ نہ چاہیں، کیا پسندیدہ ہے کیا پسندیدہ نہیں ہے، اس کا فیصلہ قیمتوں پر نہیں ہوسکتا۔ اس کا فیصلہ محض اس چیز پر نہیں ہوسکتا کہ کس کے پاس قوتِ خرید ہے اوروہ چیزوں کو خرید سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مارکیٹ ایک اہم ادارہ ہے، اس سے انکار نہیں، مارکیٹ وسائل کو ترقی دینے اور distributeکرنے کے لیے ایک مؤثر چیز ہے، لیکن اگر ہم صرف مارکیٹ کو ہر معاملے کو طے کرنے کا کام سونپ دیں تو یہ زندگی کو بگاڑ دیتا ہے۔ تو تیسری بنیادی خرابی یہ ہے کہ سوسائٹی کو محض معیشت اور معیشت کو محض مارکیٹ تک محدود کردیا گیا ہے، اور پھر ساری پالیسی سازی، انفرادی اور سرکاری سطح پر، اسی پر ہورہی ہے۔ 
صلاحیت اور عدل میں عدم توازنچوتھی خرابی یہ ہے صلاحیت اور عدل میں توازن برقرار نہیں رکھاگیا۔بلاشبہ انسان کی معاشی زندگی میں کارکردگی، اہلیت، پیداآوری (productivity)اہم ہیں، جسے معاشیات کی اصطلاح میں efficiency کہتے ہیں۔ لیکن efficiencyسب کچھ نہیں ہے۔ efficiency کے ساتھ ساتھ عدل، انصاف، حقوق کی پاسداری اور اس اہلیت کا، اس صلاحیت کا ایسا استعمال جس کے نتیجے کے طور پر انسانی معاشرہ بہتر ہوسکے، ضروری ہے۔ محض دولت کی فراوانی مطلوب نہ ہو بلکہ تمام انسانوں کی خوشحالی مطلوب ہو۔ تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ efficiency اور equity ایک دوسرے سے کٹ گئے، عدل کو بھی ٹکسال باہر کردیا گیا۔ 
پیسے سے پیسا بنانا: اس سلسلے میں پانچویں اور آخری چیز، جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا، وہ یہ تھی کہ مالیات کا اصل کام پیداوار کو، معاشی وسائل کو، وسائلِ حیات کو مناسب مقدار میں مرتب اور منظم کرکے مفید تر بنانا تھا۔ اب ترتیب اُلٹی ہوگئی ہے۔ اب اصل چیز دولت ہے۔ زیادہ سے زیادہ مال بنانا، جائز اور ناجائز ہی نہیں بلکہ بلالحاظ اس کے کہ ان مالی وسائل سے حقیقی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا کمی ہوتی ہے۔ توبگاڑ کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ یہاں پیسے سے پیسہ بنتا ہے۔ 
یہاں میں اشارتاً عرض کردوں کہ اسلام کا یہ ایک بڑا انقلابی تصور ہے کہ زر اور مالیات انسانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے، لیکن زر سے زر پیدا نہیں ہوتا، محض مالیات سے مزید مالیات پیدا نہیں ہوتیں، مالیات سے فوائد پیدا ہوتے ہیں اگر اس کو حقیقی پیداوا ریا خدمات کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے ۔ قرآن نے ایک چھوٹے سے جملے میں اس پورے انقلابی اصول کو بیان کردیا کہ
وَأَحَلَّ اللَّ۔ہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
’’حالانکہ اﷲ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ۔‘‘ (۲:۲۷۵)
رِبا یہ ہے کہ مالیات سے مالیات پیدا ہوں، بلالحاظ اس کے کہ یہ مالیات پیداواری عمل میں کوئی کردار ادا کریں۔ اور بیع یہ ہے کہ مالیات استعمال ہوں شے کو خریدنے، اسے پیدا کرنے، بنانے، اُسے فروخت کرنے میں۔ اس طرح گویا اشیاء اور خدمات کو جنم دینے سے مالیات اپنا اصل کردار ادا کرتی ہیں اور اس طرح سوسائٹی کے اندر value added ہوتا ہے۔ یہ ہے بنیادی نظام۔ مغربی معیشت اور معاشیات دونوں نے آہستہ آہستہ زر اور مالیات کا تعلق، حقیقی معیشت، حقیقی پیداوار اور معاشرے میں اشیائے صرف اور خدمات کے فروغ اور فراوانی سے توڑ دیا۔
یہ پانچ بنیادی خرابیاں ہیں۔ جب تک ان کی اصلاح نہ ہو۔ یہ چھوٹی موٹی چیزیں جو ہورہی ہیں کہ bail out کردو یعنی مزید قرض دے دو اور بنکوں کو کسی طرح بچالیا جائے، یہ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔حتیٰ کہ اب تو حکومتوں کو بچارہے ہیں، اور کھربوں ڈالر اس کے لیے خرچ ہوئے ہیں، عام انسانوں کے۔ اور ظلم یہ ہے کہ اُسی عمل میں امریکہ میں جو دو ملین گھرانے رہن (mortgage) کی بناء پر بے گھر ہوئے، انہیں کسی نے bail outنہیں کیا۔ لیکن بڑے بڑے بنک جن کے مینیجرز اور چیئرمین billions ڈالر بطور تنخواہ اور بونس کے وصول کرتے ہیں اُن بنکوں کو bail out کیا گیا ہے، ٹیکس دہندگان کے پیسے سے۔ اور اب یہ کام حکومتوں کے لیے ہورہا ہے۔ سب سے پہلے آئس لینڈ کو کیا، آئرلینڈ کو کیا۔ اس وقت یونان کو کیا جارہا ہے۔ پھر اسپین اور اٹلی ہیں۔ یعنی یہ بڑے بڑے ممالک ہیں جو اس وقت bail out ہورہے ہیں۔ اس سارے بحران کی بنیادی وجوہات وہ ہیں جو بیان کی گئیں۔ جب تک اصل جڑ تک نہیں پہنچیں گے معاملات درست نہیں ہوں گے۔
مکمل تحریر >>

بینکاری

بینک کا آغاز کب ہوا؟

دور حاضر میں بینک کی ضرورت کیا ہے؟
سودی بینکاری اور اسلامی بینکاری میں کیا فرق ہے؟

مکمل تحریر >>

عربی دعائیہ کلمات

حفظكم الله من كل سوء واستعملكم لدينه


سوف ياتي صباح فجر جديد
مکمل تحریر >>

حاصل مطالعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سود


سود آج سے نہیں بلکہ  اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی سود خوری کا طریقہ جاری تھا۔۔ زمانہ جاہلیت میں  صرف شخصی اور  صرفی ضرورتوں کیلئے نہیں بلکہ تجارتی مقاصد کیلئے سود ی لین دین کیا جاتا تھا
 یورپ کا اک محقق کہتا ھے کہ سود  معاشیات کیلئے ریڑھ کی ہڈی نھیں بلکہ اک ایسا کیڑا  ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں لگ گیا ھے جب تک اسے نکالا نھیں گیا دنیا کی معیشت اعتدال پر نھیں آسکتی
مکمل تحریر >>

عقیدہ توحید

عقیدہ توحید
1:عقیدہ کا لغوی معنیٰ کیا ہے
جواب:عقیدہ    لفظ "عقد" سے  بنا ہے جس کا معنی ہیں باندھنا اور گرہ لگانا۔۔۔تو عقیدہ کا معنی ہوئے کہ باندھی اور گرہ لگائی ہو ئی چیز
2:سوال:عقائد کی تعریف کیجئے
انسان کے پختہ اور اٹل نظریات کو عقائد کہا جاتا ہے
3:اسلام کے بنیادی عقائدکتنے ہیں اور ان کے نام لکھیں 
اسلام کے بنیادی عقائد 5 ہیں 
توحید، رسالت ،ملائکہ اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانا   ، آخرت پر ایمان لانا
4:اسلامی عقائد میں سے سب سے پہلا عقیدہ کون سا ہے
جواب: عقیدہ توحید
5:عقیدے کی مثال کس چیز سے دی گئی؟
جواب:عقیدے کی مثال بیج اور عمل کی مثال پودے سے دی گئی ہے
6:اسلام کے بنیادی عقائد میں سے کسی آیت کا ترجمہ
ترجمہ: لیکن بڑی نیکی تو یہ ہے جو کوئی ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور سب (الہامی)کتابوں اور پیغمبروں پر
7:توحید کے لغوی معنی بتائیں
جواب:ایک ماننا ،یکتا جاننا
8:توحید کی اصطلاحی تعریف
اللہ تعالیٰ کے واحد ویکتا ہونے پر ایمان لانا اور صرف اسی کو عبادت کے لائق سمجھنا
9:عقیدہ توحید کی اقسام بیان کریں
جواب:توحید کی اقسام                ۱۔توحید ربوبیت                ۲۔توحید الوہیت                ۳۔ توحید اسماء و صفات
10:توحید فی الذات کا مفہوم لکھیں
اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات میں واحد اور یکتا ماننا توحید فی الذات ہے
11:توحید فی الصفات کا مفہوم لکھیں
توحید فی الصفات کا مفہوم
اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں واحد اور بے مثل ہے ،جن میں اس کا کوئی ہمسر نہیں، اس عقیدے کو توحید الصفات کہتے ہیں۔
12: توحید فی العبادت کا مفہوم
جواب:ہر قسم کی عبادت مثلا رکوع   سجدہ اور اطاعت وغیرہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لائق ہے
13:اللہ تعالیٰ کی حکمت اور کاریگری کی نشانی کیا ہے
جواب:دن رات ،چاند ،سورج  اور زمیں آسمان کا نظم وضبط یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت و کاریگری کی نشانیاں ہیں
14:اگر کائنات میں 2 الہ ہوتے تو کیا ہوتا
جواب: اگر دو الہ ہوتے تو کائنات میں فساد برپا ہو جاتا
اگر ان دونوں (زمیں و آسمان) میں دو اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہوتا تو تو ان دونوں میں فساد ضرور برپا ہو جاتا
15:سورہ اخلاص کا موضوع
جواب:سورہ اخلاص کا موضوع توحید ہے
16:سب سے پہلے انسان کون تھے
جواب: سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے۔
17: شرک کا لغوی مفہوم کیا ہے؟ 
جواب:لفظِ ’’شرک‘‘ شرکت سے بنا ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات میں اوروں کو شریک مانا جائے
18:شرک کا اصطلاحی مفہوم لکھیں
جواب:اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات یا اس کی صفات کے تقاضوں میں کسی کو اس کا حصہ دار یا شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے
19:قرآن کریم میں کس چیز کو ظلم عظیم کہا گیا
جواب: قرآن کریم میں شرک کو ظلم عظیم کہا گیا
20:وہ کون سا گناہ ہے جو ناقابل معافی قرار دیا گیا 
جواب: شرک وہ گناہ ہے جو ناقابل معافی ہے
21:شرک کی اقسام بیان کریں
جواب: شرک کی 3 اقسام ہیں
1:شرک فی الذات 2: شرک فی الصفات 3: شرک فی العبادات
22:شرک فی الذات سے کیا مراد ہے
جواب: اللہ تعالیٰ کی ذات یا حقیقت میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا شرک فی الذات کہلاتا ہے
23: شرک فی الصفات سے کیا مراد ہے
جواب: اللہ تعالیٰ کی صفات مثلا علم قدرت یا ارادہ وغیرہ  کو کسی دوسرے میں قدیم وازلی غیر متناہی ،وغیر فانی تسلیم کرنا شرک فی الصفات کہلاتا ہے
24:دنیا کا سب سے قدیم مذہب کون سا ہے؟
جواب: اسلام دنیا کا سب سے قدیم مذہب ہے
25: شرک فی لعبادات والافعال کسے کہتے ہیں؟
جواب: جو کام اللہ نے اپنی عبادت کیلئے مقرر فرما دیئے  جیسا کہ سجدہ کرنا رکوع کرنا وغیرہ ان میں کسی دوسرے کو شریک کرنا شرک فی العبادت کہلاتا ہے
26:عقیدہ توحید کے انسانی زندگی پر 4 اثرات لکھیں
جواب: 1: عزت نفس 2: انکسار وعاجزی 3: وسعت نظر 4: رجائیت واطمینان قلب
27:شرک کے کوئی سے  4 نقصان لکھیں
جواب: شرک کے درج ذیل نقصانات ہیں
1: مشرک کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے ہیں
2:مشرک پر جنت حرام ہو جاتی ہے
3:حرم شریف میں داخلہ ممنوع ہو جاتا ہے
4:دعاء مغفرت کی ممانعت
28:عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تینوں خدا ہیں ، اس عقیدے کو عقیدہ تثیلث کہاجاتاہے
29:عیسائی کس کو خدا کا  بیٹا قرار دیتے ہیں
جواب: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو
30یہودی کس کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں
جواب:عزیر علیہ السلام کو
31:مجوسی کتنے خداؤں کو مانتے ہیں 
:مجوسی دو خدا مانتے ہیں، ایک خدا وہ جو خیر اور بھلائی کا پیدا کرنے والا ہے  اس کو یزدان کہتے ہیں، دوسرا خدا جو  ہر برائی اور شر کو پیدا کرتا ہے، اس کا نام اہرمن ہے
33: قرآن کریم میں کن لوگوں کو ناپاک کہاگیا ہے
قرآن کریم میں مشرکین کو ناپاک کہا گیا ہے

مکمل تحریر >>