Pages

پیر، 14 ستمبر، 2015

مدارس بار ے اعلی سطحی اجلاس کی تفصیلی روداد

مدارس بار ے اعلی سطحی اجلاس کی تفصیلی روداد
(مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان )
7ستمبر بروز پیر وزیراعظم ہاوس اسلام آباد میں دینی مدارس کے بارے میں ایک اہم ،منفردا ورتاریخی اجلاس ہوا ۔اس اجلاس اور اس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں اندرون وبیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں غیر معمولی دلچسپی دیکھنے میں آئی ۔ مسلسل فون کالوں کا تانتا بندھا ہوا ہے اور ہر کوئی اس اجلاس کی تفصیلات جاننے کے لیے بے تاب ہے ۔آج 8ستمبر کے اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں اس اجلاس کی جس انداز سے رپورٹنگ ہوئی اس میں بعض چیزیں حقائق کے منافی ہیں اور ان کی وجہ سے کچھ منفی تاثر سامنے آیا ہے جس نے پاکستان اور دینی مدارس سے محبت رکھنے والوں کی بے چینی اور سوالات میں اضافہ کر دیاہے اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اجلا س کی مکمل تفصیلات من وعن پیش کردی جائیں تاکہ ریکارڈ درست رہے اور لوگوں کے ابہام وتذبذب اور سوالات کا بھی خاتمہ ہو سکے۔
آج کے اخبارات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اجلاس کے بارے میں کیا کچھ گھڑا اور چھاپا گیااور کتنی ہی ایسی چیزیں رپورٹ ہوئیں جن کا اجلاس میں سرے سے تذکرہ تک نہیں ہوا۔مثال کے طور پر اس بات کی رپورٹنگ کی گئی کہ مدارس کا نصاب تبدیل کیا جائے گا اور مدارس میں اے لیول اور او لیول کی تعلیم لازمی طورپردی جائے گی یادرہے کہ مدارس عصری تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے سے انکاری نہیں لیکن اس طرح کی کوئی بات اجلاس میں سرے سے ہوئی ہی نہیں ۔اسی طرح کسی کو بلاوجہ کافر کہنے ،قتل پر اکسانے اور شرانگیز تقاریروغیرہ سب قابل مذمت ہیں لیکن اجلاس میں ان کا اس طرح ذکرنہیں آیاجس طرح اخبارات اور میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے ۔اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ مدارس کے لین دین کے تمام معاملات آئندہ بینکوں کے ذریعے ہوں گے حالانکہ صرف یہ ذکر آیا کہ بعض علاقوں میں بینک جملہ ضروری دستاویزات جمع کروانے کے باوجود مدارس کے اکاو نٹ کھولنے میں لیت ولعل سے کام لیتے ہیں ، تنگ کرتے ہیں اور بلاجواز رکاوٹ ڈالتے ہیں ۔اسی طرح یہ بات چھپی کہ بیرونی امداد کے لیے قانون سازی ہوگی اجلاس میں اس بات کا ذکر تک نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ مدارس کسی قسم کی بیرونی امداد لیتے ہی نہیں اس لیے اگر حکومت اس بارے میں قانون سازی کرے تو ہمیں اعتراض نہ ہوگا تاہم حکومت قانون سازی سب کے لیے یکساں طورپر کرے وہ قانون سازی مدارس کے بارے میں امتیازی نہ ہو۔ان چند مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح اپنی خواہش کو خبر بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور کس طرح ”میزکہانیاں“ تخلیق کرکے معاملات کو بگاڑا جاتا ہے ۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ جب بھی معاملات صحیح رخ پر چلنے لگتے ہیں ،پاکستان کے بہتر مستقبل کے کسی سفر کا آغاز ہوتا ہے ،کوئی کامیاب اجلاس ہوتا ہے تو کئی منفی قوتیں اور سازشی عناصر کامیاب اجلاس کو ناکام بنانے کی کوشش میں جُت جاتے ہیں اس لیے حکومت اور ارباب مدارس کو ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔ 
یہ اجلاس پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم اور منفرد اجلاس تھا ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی اور عسکری قیادت نے کھلے دل سے مدارس سے متعلق جملہ امور کو سنا ، پانچوں وفاقوں اور تمام مکاتبِ فکر کے قائدین نے کھل کر دینی مدار س کے بارے میں جملہ امور پر اظہارِ خیال کیا ۔اجلاس انتہائی خوشگوار اور افہام وتفہیم کے ماحول میں ہوا ۔ اجلاس کے بعد دونوں طرف کے ذمہ داران ن مکمل تسلی اور اعتماد واطمینان کا اظہار کیا،بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا۔اجلاس میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ،چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر ،وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ، وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف ، وزیر تعلیم میاں بلیغ الرحمن شریک ہوئے جبکہ دینی مدار س کی طرف سے راقم الحروف کے علاوہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی،مولانا مفتی منیب الرحمن ،پروفیسر ساجد میر ،مولانا عبدالمالک ،علامہ ریاض حسین نقوی ،مولانا ڈاکٹر یاسین ظفر ،صاحبزادہ عبدالمصطفے ٰ ہزاروی ،مولانا ڈاکٹر عطاءالرحمن اورعلامہ محمد نجفی شریک ہوئے ۔
اجلاس کی دونشستیں ہوئیں پہلی نشست وفاقی وزیرداخلہ کی صدارت میں ہوئی جس میں دینی مدارس کی قیادت کے علاوہ وزارت داخلہ ،وزارت تعلیم اور وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری صاحبان شریک ہوئے یہ نشست دو گھنٹے جاری رہی پھر مختصر وقفے کے بعد دوسری نشست وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی صدارت میں ہوئی جو دوگھنٹے تک جاری رہی یوں مجموعی طور پراجلاس چار گھنٹے جاری رہا ۔وزیر اعظم ،چیف آف آرمی اسٹاف اور دیگر تمام ذمہ داران نے اجلاس کو خصوصی اہمیت دی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک موقع پر جب یہ کہا گیا کہ اجلاس کو مختصر کیا جائے کیوں چیف آف آرمی اسٹاف کی کوئی اور مصروفیت ہے تو چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا اجلاس جب تک جاری رہے گا میں اس وقت تک موجود رہوں گا اجلاس کو ہرگز مختصر نہ کیا جائے۔
اجلاس کے موقع پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ وطنِ عزیز پاکستان کے استحکام کے لیے ،پاکستان میں امن وامان کے قیام کے لیے ،پاکستان سے دہشت گردی،انتہاپسندی اور تشدد کے خاتمے کے لیے حکومتی ،عسکری اور دینی قیادت مل کر کردار اداکرے گی ۔اس موقع پر اس عز م کا اعادہ کیا گیا کہ ملک وملت کی تعمیر وترقی کے لیے کسی قسم کی سیاسی وابستگی ،کسی قسم کی مفادپرستی یا دباوکو آڑے نہیں آنے دیا جائے گا ۔اسی طرح یہ بھی طے پایا کہ مدارس کے بارے میں جملہ امور بات چیت اور افہام وتفہیم سے طے کیے جائیں گے اورمدارس دینیہ حکومتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین رابطوں کو مزید بڑھایاجائے گا۔دینی مدارس سے متعلقہ جملہ طے شدہ معاہدوں پر عملدرآمد کے لیے چودھری نثار علی خان کی سربراہی میں رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ 
اس اہم ترین اجلاس کے انعقاد کے لیے سب سے اہم اور فعال کردار وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی ذاتی دلچسپی اور سنجیدگی کا تھا جس پر وہ بجا طورپر شکریہ کے مستحق ہیں۔اجلاس کے آغاز میں وفاقی وزیر داخلہ نے اجلاس کے انعقاد کا پس منظر ،اس کے مقاصد اور ایجنڈے کا تفصیل سے تذکرہ کیا ۔ اس کے بعد اجلاس میں درج ذیل امور زیرِ غور آئے ۔
اجلاس کی ابتداءمیں شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ دہشت گردی کے ساتھ مدرسہ کا تذکرہ کرنا ،ہر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد دینی مدارس کو ہدف بنا لینا انتہائی افسوسناک امر ہے۔ خاص طور پر نیشل ایکشن پلان جو بنیادی طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا اس میں مدارس کے تذکرے نے دینی مدارس کے بارے میں عمومی تاثر پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ۔دہشت گردی کے ساتھ مدارس کے تذکرے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے ڈانڈے مدارس سے ملتے ہیں اور دینی مدارس دہشت گردی کا منبع ہیں حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے ۔اس پر تمام حکومتی اور عسکری ذمہ داران نے فرداً فردا ًکہا کہ ہم دینی مدارس کے کردار وخدمات کی دل سے قدر کرتے ہیں اور دینی مدارس کو اپنا ملی اثاثہ او رقومی سرمایہ تصور کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ۔اس موقع پر یہ با ت بھی آئی کہ جس طرح نیشنل ایکشن پلان میں دینی مدارس کا تذکرہ بے محل ہوا اس سے کہیں بڑھ کر اکیسویں آئینی ترمیم میں دہشت گردی کو مذہب کے ساتھ نتھی کر کے اس قانون کو امتیازی اور متنازعہ بنایا گیا ۔ہماری نظر میں دہشت گردی کو مذہب سے نتھی کرنا ناانصافی ہے دہشت گردی دہشت گردی ہے وہ لسانی ،علاقائی یا سیاسی کسی بھی بنیاد پر ہو اس کی روک تھام ہونی چاہیے اس لیے اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ اکیسویں ترمیم کے بعدبائیسویں ترمیم لا کر اس تاریخ غلطی کا ازالہ کیا جائے ۔اس پر اصولی اتفاق کیا گیا لیکن اس پر عملد رآمد کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا ۔
چونکہ راقم الحروف کو مدارس کا مقدمہ پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اس لیے میں نے دینی مدارس سے متعلقہ معاملات کو ترتیب وار پیش کیا اور اجلاس کو بتایا کہ 
٭دینی مدارس کے بارے میں اس وقت عمومی تاثر یہ ہے کہ مدارس رجسٹریشن سے انکاری ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔مدارس نے کبھی بھی رجسٹریشن سے انکار نہیں کیالیکن رجسٹریشن کے عمل کی پیچیدگی اور حکومتی اہلکاروں کا طرز عمل رجسٹریشن کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور حال ہی میں جو پیچیدہ اور طویل رجسٹریشن فارم تیار کیا گیا وہ بھی رجسٹریشن کے عمل کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث ہے ۔اس لیے یہ بات طے کی گئی کہ مدارس کی رجسٹریشن کا عمل سہل اور آسان بنایا جائے گا ۔2005ءکے معاہدے اور طریقہ کارکی روشنی میں رجسٹریشن کا طریقہ کار اور رجسٹریشن فارم تیار کیا جائے گا ۔
٭....دینی مدارس کے کوائف کے بارے میں اجلاس کو بتایا کہ دینی مدارس حکومتی اداروں کو کوائف فراہم کرنے سے نہ تو انکاری ہیں اور نہ ہی کبھی بھی لیت ولعل سے کام لیتے ہیں لیکن کوائف طلبی کا طریقہ کار انتہائی افسوسناک اور توہین آمیز ہے ۔اس وقت ملک بھر میں بیسیوں قسم کے سروے فارم گردش کر رہے ہیں ۔ہر ایس ایچ او اور ڈی پی او نے اپنا الگ فارم تیار کر رکھا ہے ،بعض جگہوں پر مدارس کے اساتذہ وطلباءکی بہنوں اور بیٹیوں کے نام اور فون نمبر تک طلب کیے گئے“ اس بات پر چیف آف آرمی اسٹاف نے برہمی کا اظہار کیا اور اپنے اسٹاف کو ہدایات جاری کیں کہ اس بات کا سراغ لگایا جائے کہ اس قسم کی نادانی کا مظاہرہ کس کی طرف سے اور کیوں کیا گیا ؟”اسی طرح کوائف کے معاملے میں سب سے ناقابل فہم عمل یہ ہے کہ ہر دوسرے دن کسی الگ ادارے کے اہلکار کوائف کے حصول کے لیے دینی مدارس میں آتے ہیں اور مدارس کی انتظامیہ کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں“ اس لیے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کوائف کے لیے ایک ہی ڈیٹا فارم تیار کیا جائے گااور سال میں ایک یا دو دفعہ کوائف حاصل کرلیے جائیں گے اور بار بار مدارس کو پریشان نہیں کیا جائے گا بلکہ جس ادارے کو مدارس کے کوائف مطلوب ہو ں گے وہ براہِ راست اہل مدارس کو پریشان کرنے کی بجائے متعلقہ ادارے سے رجوع کرے گا ۔
٭....اس موقع پر دینی مدار س کے خلاف جاری کریک ڈاون ،چھاپوں اور مدارس کے طلباءکو ہراساں کرنے کے حوالے سے صورت حال سے اجلاس کو تفصیل سے آگاہ کیا ۔شرکائِ اجلاس کو بتایاکہ کس طرح رات کی تاریکی میں مدارس پر لشکر کشی کی جاتی ہے ،بیسیوں گاڑیوں اورسینکڑوں اہلکاروں کے ساتھ مدارس پر اس طرح یلغار ہوتی ہے جیسے شاید کشمیر میں انڈین آرمی کی طرف سے بھی نہ ہوتی ہو ۔مدارس کے کمسن بچے سہم جاتے ہیں ،اساتذہ کی اپنے طلباءکے سامنے بے توقیری کی جاتی ہے ،مدارس کی اپنے علاقے میں جو ساکھ ہوتی ہے اسے لمحوں میں تہس نہس کر دیا جاتا ہے ۔گزشتہ دس ماہ سے یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید ہی کوئی چھوٹا بڑا مدرسہ ایسا ہو جس پر چھاپہ نہ مارا گیا ہو ان مدارس سے نہ کوئی مشکوک شخص برآمد ہوا اور نہ ہی کسی قسم کا اسلحہ یا کوئی اور ممنوعہ چیز پکڑی گئی لیکن اس کے باوجود چھاپے مارے جارہے ہیں اس بارے میں پہلے سے یہ بات طے چلی آرہی ہے کہ مدارس کے بارے میں اگر ٹھوس ثبوت ہوں گے تو متعلقہ وفاق کو اعتماد میں لے کر ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی لیکن اب ثبوت تو کجا بلاجواز چھاپے مارے جارہے ہیں ،جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں ،علماءِ کرام کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال دئیے جاتے ہیں اس کی فوری تلافی ہونی چاہیے ۔ خاص طور پر بعض مقامی پولیس اہلکارمسلکی یا ذاتی تعصب یا شخصی مفاد کی بنیاد پر کارروائیاں کرتے ہیں ان کی روک تھام کی جانی چاہیے۔اس پر فیصلہ ہواکہ آئندہ کسی مدرسہ پر بلاجواز چھاپہ نہیں مارا جائے گا اگر کسی ادارے کے خلاف ٹھوس ثبوت ہوئے تو متعلقہ وفاق کو اعتماد میں لے کر اس کے خلاف کارروائی ہو گی ۔اسی طرح ایسے مدار س جن پر بلاجواز چھاپے مارے گئے یا جن علماءکرام کو بلاوجہ گرفتار کیا گیا ۔ جن کے نام کسی عناد کی وجہ سے فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ان معاملات کا کیس ٹو کیس جائزہ لیا جائے گا اور کسی قسم کی زیادتی کے مرتکب اہلکاروں اور افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی ۔
٭....یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ مدارس کے بارے میںامتیازی طور پر بار بار اصلاحات اور ریفارمز کی بات کی جاتی ہے حالانکہ ہمارے ہاں تو ہر شعبہ زندگی میں اصلاحات کی ضرورت ہے اس لیے صرف مدارس کو ہدف بنانا درست نہیں۔ اس پر اجلاس میں شریک ایک اہم ذمہ دار کی تجویز پر یہ طے پایا کہ مدرسہ ریفارمز کے بجائے ایجوکیشن ریفارمز کی بات کی جائے گی اور عمومی طورپر ایجوکیشن ریفارمز پر کام کیا جائے گا ۔
٭....اجلاس کے دوران دینی مدارس کے تعلیمی مسائل بھی زیر بحث آئے ۔ہم نے شرکاءاجلاس کو بتایا کہ دینی مدارس کے بارے میں یہ جو تاثر کہ مدارس میں عصری تعلیم کی کوئی گنجائش نہیں اور مدارس عصری مضامین کی تعلیم وتدریس کی مخالفت کرتے ہیں یہ تاثر بالکل درست نہیں مدارس نے از خود عصری تعلیم کو شامل نصاب کر رکھا ہے ۔دینی مدارس اگرچہ بنیادی طور پر دینی تعلیم کے ادارے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک حد تک عصری مضامین کو ہم دینی ضرورت سمجھتے ہیں البتہ ہمیں مشکل یہ پیش آتی ہے کہ طلباءکو امتحان کیسے دلوایا جائے اور ہماری اسناد کی حیثیت کیا ہو ؟ اس سے بھی زیادہ عجیب امر یہ ہے کہ ہماری عالمیہ کی سند کو تو ایم اے کے مساوی تسلیم کیا گیا ہے لیکن تحتانی اسناد کو میٹرک ،ایف اے اور بی اے کے برابر تسلیم نہیں کیا گیا اس حوالے سے 2010ءمیں اس وقت کی حکومت سے ہمارا یہ معاہدہ طے پاگیا تھا کہ دینی مدارس کی پانچوں نمائندہ تنظیمات کو خود مختار امتحانی بورڈ کا درجہ دیا جائے گا لیکن تاحال اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ہم نے یہ بھی تجویز کیا کہ اگر پانچوں وفاقوں کو خود مختار امتحانی بورڈ کا درجہ دینا ممکن نہ ہو تو کم از کم اتنا تو کر لیا جائے کہ جس طرح مدارس کی عالمیہ کی سندایم اے کے مساوی ہے اسی طرح تحتانی اسناد کو میٹرک ،ایف اے اور بی اے کے مساوی تسلیم کیا جائے ۔اس پر وزیر تعلیم میاں بلیغ الرحمن کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل پائی جو مدارس کو خود مختار امتحانی بورڈ یا مدارس کی اسناد کی مساوی حیثیت اور اس سے متعلق دیگر امور اور جملہ تجاویز کا جائزہ لے کر اپنی تجاویز پیش کرے گی بعد ازاں اس حوالے سے مزید پیش رفت ہو گی ۔
اسی طرح غیر ملکی طلباءکا مسئلہ بھی زیر بحث آیاکہ دینی مدارس میں اس وقت اگرچہ غیرملکی طلبہ بہت تھوڑی تعداد میں ہیں لیکن انہیں بھی کافی مشکلات کا سامنا ہے ان کے ویزوں میں توسیع نہیں کی جاتی ،حالانکہ انہوں نے قانون کے مطابق درخواستیں جمع کروا رکھی ہیں لیکن انہیں بلاوجہ پریشان کیا جاتا ہے اور ان کے بارے میں ان کے اداروں کی انتظامیہ سے کہا جاتا ہے کہ انہیں ڈی پورٹ کردیا جائے گا ان کے بارے میں ہماری درخواست یہ ہے کہ ان کے ویزوں میں توسیع کی جائے اور انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے دی جائے۔ اسی طرح دنیا بھر کے ایسے طلباءجو پاکستان دینی تعلیم کے حصول کے لیے آنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کے سفیر کا کردار اداکرتے ہیں لیکن ہم نے ان کے لیے اپنے دروازے بند کررکھے ہیں اور انہیں انڈیاسمیت دیگر ممالک اپنے ویزے دے کر پاکستان کی بدنامی کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ہمیں تو اس بات کو اپنا اعزاز سمجھنا چاہیے کہ دنیا بھر سے محض دینی تعلیم کے لیے تشنگان علوم پاکستان کا رخ کرتے ہیں ورنہ تو پاکستانی طلباءغیر ملکی یونیورسٹیز میں ڈگریوں اور عصری تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں لیکن کوئی غیر ملکی طالبعلم ہماری یونیورسٹیز کی طرف رخ بھی نہیں کرتا ۔
اسی طرح شرکاءاجلاس کی توجہ مدارس کے بینک اکاونٹس کی طرف بھی مبذول کروائی گئی کہ مدارس کے نئے اکاونٹ کھلوانے کے حوالے سے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تدارک کیا جائے اور مدارس کی قیادت کی گورنر اسٹیٹ بینک سے ملاقات کروا کر مدارس کے اکاو ¿نٹس کھولنے کا طریقہ کار،مطلوبہ دستاویزات اور ٹائم فریم طے کیا جا ئے تاکہ مدارس کا بروقت آڈٹ بھی ہو سکے اور مدارس بارے پروپیگنڈہ بھی بند ہو ۔
علامہ پروفیسر ساجد میر نے بطور خاص اس بات کا تذکرہ کیا کہ ہمارے ہاں جو لوگوں کو بلاجواز لاپتہ کر دیا جاتا ہے یہ پاکستان کی بدنامی اور ان کے خاندانوں کے لیے اذیت کا باعث ہے اس لیے تفتیش کو مہینوں اور سالوں تک نہ پھیلایا جائے بلکہ فی الفور تفتیش مکمل کر کے ان کے خلاف قانونی اور عدالتی کارروائی کی جائے ۔
مولانا مفتی منیب الرحمن نے بڑی تاکید کے ساتھ یہ نکتہ اٹھایا کہ دینی قیادت کی میڈیا مالکان سے جلد از جلد ایک ملاقات کروائی جائے ۔جس میں یہ بات طے کی جائے کہ میڈیا پر مذہب کے بارے میں کیا بات زیر بحث لانی ہے اور کیا نہیں لانی ؟ اور اسی طرح ہماری مذہبی اور مشرقی روایات کا کس قدر پاس رکھنے کی ضرورت ہے ؟مولانا مفتی منیب الرحمن نے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے وزیر اعظم سے گلہ کیا کہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا مدارس بارے جو بیان سامنے آیا اس پر ہمیں دلی دکھ ہوا اور اس سے زیادہ اس بات کا افسوس ہوا کہ وزیر اعظم نے اس بیان اور اس پر آنے والے شدید رعمل کانوٹس نہیں لیا اس پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اس بیان کا کوئی جواز نہیں تھا اور اس کا ہمارے پاس کوئی جواب بھی نہیں ہے اس لیے ہم اس پر معذرت کرتے ہیں ۔
آخر میں ہم سب نے یہ بات زور دے کر کہی کہ حکومت آج کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے کیوں کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ عملدرآمد کا ہے ۔اسی طرح دونوں طرف سے ان خواہشات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ پاکستان کے مفاد کے لیے ہمیں مل جل کر کوشش کرنا ہوگی اور پاکستان کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنانا ہوگا خاص طورپر ان قوتوں کو ناکام بنانا ہو گا جو کبھی لسانیت ،کبھی سیاست اور کبھی مذہب کی آڑ لے کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔
دینی مدارس کے بارے میں ہونے والا یہ اجلاس میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے علی الرغم انتہائی مفید ،موثر ،مثبت اور نتیجہ خیز رہا اللہ کرے کہ اس سے وابستہ امید یں حقیقت میں تبدیل ہوں ۔
💎جاری کردہ :مرکزی میڈیاسنٹر وفاق المدارس العربیہ پاکستان

مکمل تحریر >>

سود

يہاں اردو لکھيں حاصل مطالعہ (سود)
ڈاکٹر وقار مسعود کے بعد جدہ سے آئے ہوئے ایک پاکستانی انجینئر عبدالودود خان نے اس دعویٰ کے ساتھ اپنی معروضات پیش کیں کہ اگر ان کے فارمولے پر عمل کیا جائے تو ایک رات میں سودی نظام کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور موجودہ بنکاری نظام میں بھی کسی انقلابی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی تحریر کردہ ایک کمپیوٹرائزڈ کتاب بھی عدالت کے حوالے کی۔ عبدالودود خان نے سود ختم کرنے کا جو فارمولا پیش کیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ اگر کوئی شخص ایک سال کے لئے بنک سے ایک لاکھ روپیہ قرض لینا چاہے تو وہ دس ہزار دس سال کے لئے بنک کے پاس جمع کروا دے۔ اس کے عوض بنک شخص موصوف کو ایک سال کے لئے ایک لاکھ روپیہ ادا کردے۔ ان دونوں کھاتوں کا ایک دوسرے سے نہ تو کوئی تعلق ہو اور نہ ہی ایک دوسرے سے مشروط ہوں۔ معزز عدالت نے اس تجویز پر کہاکہ اوّل تو یہ تجویز کوئی نئی نہیں ہے۔ شیخ محمود احمد مرحوم عرصہ تک اس سکیم کے داعی کی حیثیت سے سرگرم رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ سکیم سودی نظام کے ایک بہت معمولی حصے پر لاگو کی جاسکتی ہے وہ بھی بہت محدود پیمانے پر... لہٰذا اس تجویز کو پورے سودی نظام کا اسلامی متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
(نوٹ اس بارے میں مفتی ریاض صاحب سے فتوٰی لینا ہے)

2:
ممتاز قانو ن دان خالد اسحق نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ قرآن و سنت سودی لین دین کو حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس امر کا فیصلہ کرنا اشد ضروری ہے کہ دراصل سود کی تعریف کیا ہے ؟ مزید یہ کہ اس حکمت کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے جس کی وجہ سے سود کو ناپسندیدہ اور حرام قرار دیا گیا ہے۔ خالد اسحق نے ظلم اور ضرر کے فلسفے کو تفصیل سے بیان کیا اور موقف اختیار کیا کہ سودی لین دین میں مقرر مدت اور رقم میں اضافے کے ساتھ ساتھ ظلم اور زیادتی کا عنصر شامل ہونا بھی ضروری ہے جبکہ موجودہ بنکاری نظام میں یہ عنصر عام طور پر موجود نہیں ہوتا۔ اس لئے سارے بنکاری نظام کو سودی قرار دے کر بیک قلم ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا۔
3:
معاشیاتِ اسلامی کے پروفیسر خورشید احمد صاحب سود کے مقدمے کی سماعت کے دوران لندن سے پاکستان تشریف لائے اور نہایت مختصر نوٹس پر انہوں نے معزز عدالت کے سامنے اپنی معروضات پیش کیں۔ پروفیسر صاحب نے عالمی معاشیات کے جدید ترین تجزیہ جات کا حوالہ دیتے ہوئے تازہ ترین معاشی کتب سے ثابت کیا کہ پوری دنیا میں سودی نظامِ زر کا جہاز آہستہ آہستہ غرقاب ہو رہا ہے اور خود سودی نظام چلانے والے ایک نئے عالمی معاشی نظام کو متعارف کروانے کے بارے میں سنجیدگی سے سو چ رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی رائے یہ تھی کہ موجودہ سودی نظامِ زر آئندہ نصف صدی کے اندر اندر پوری دنیا میں ناکام ہوجائے گا۔ لہٰذا ماہرین ابھی سے ایک نئے معاشی اور مالیاتی سسٹم کا خاکہ وضع کرنے کے کام پر لگ گئے ہیں اور اس سلسلے میں خاصی پیش رفت ہوچکی ہے۔ پروفیسر صاحب نے یہ خوش کن انکشاف کیا کہ عالمی ماہرین جس نئے مالیاتی نظام پر متفق ہو رہے ہیںوہ اسلامی نظامِ زر سے بہت قریبی اور حیرت انگیز مماثلت رکھتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ وہ غیر سودی بنیاد پر کام کرنے والے ایک مکمل اور جدید بنک کا خاکہ تیار کرکے حکومت ِپاکستان کو پہلے ہی پیش کرچکے ہیں۔ لہٰذا یہ مو قف کہ سود کے بغیر کسی بنک کا کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں، بالکل غلط ہے۔ معزز عدالت کے ایک سوال کے جواب میں پروفیسر خورشید احمد نے رائے دی کہ جہاں تک سود کی بنیاد پر حاصل کئے جانے بیرونی قرضہ جات کا سوال ہے تو حکومت ان کی ادائیگی کی پابند ہے۔ جس کے لئے حکومت کو دس سال تک کا یا کوئی بھی مناسب وقت دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پروفیسر صاحب نے رائے ظاہر کی کہ ملک کے اندر بھی سودی نظام کے بیک جنبش قلم خاتمے کے بجائے تدریج کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور ایک سے تین سال کے اندر ملکی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔
مکمل تحریر >>

ادب السؤال

ادب السؤال
اگر ہم سوال کرنا یعنی بات پوچھنا سیکھ جائیں تو ہمیں بآسانی مختصر اورجامع جواب مل سکتے ہیں ۔
سوال کا تجزیہ کر کے اسے منقح کر لیں کہ اس کے کتنے اجزا ہیں جن کا آپ کو جواب در کار ھے 
انکے جوابات پہلے خود تلاش کریں اس طرح ممکن ھے تمام اجزا کے جوابات آپ کو مل جائیں اور آپ کی تجزیہ کاری کی صلاحیت کو جلا ملے 
اگر کسی جز و کا جواب نہ مل پائے تو اسی کے بارے میں سوال کریں اور دوسرے اجزا کے جوابات تائید یا رہنمائ کے لئے پیش کر دیں 
اس طرح خود کو Develop کریں تاکہ دست سوال کم از کم دراز کرنا پڑے ۔
مکمل تحریر >>