يہاں اردو لکھيں حاصل مطالعہ (سود)
ڈاکٹر وقار مسعود کے بعد جدہ سے آئے ہوئے ایک پاکستانی انجینئر عبدالودود خان نے اس دعویٰ کے ساتھ اپنی معروضات پیش کیں کہ اگر ان کے فارمولے پر عمل کیا جائے تو ایک رات میں سودی نظام کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور موجودہ بنکاری نظام میں بھی کسی انقلابی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی تحریر کردہ ایک کمپیوٹرائزڈ کتاب بھی عدالت کے حوالے کی۔ عبدالودود خان نے سود ختم کرنے کا جو فارمولا پیش کیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ اگر کوئی شخص ایک سال کے لئے بنک سے ایک لاکھ روپیہ قرض لینا چاہے تو وہ دس ہزار دس سال کے لئے بنک کے پاس جمع کروا دے۔ اس کے عوض بنک شخص موصوف کو ایک سال کے لئے ایک لاکھ روپیہ ادا کردے۔ ان دونوں کھاتوں کا ایک دوسرے سے نہ تو کوئی تعلق ہو اور نہ ہی ایک دوسرے سے مشروط ہوں۔ معزز عدالت نے اس تجویز پر کہاکہ اوّل تو یہ تجویز کوئی نئی نہیں ہے۔ شیخ محمود احمد مرحوم عرصہ تک اس سکیم کے داعی کی حیثیت سے سرگرم رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ سکیم سودی نظام کے ایک بہت معمولی حصے پر لاگو کی جاسکتی ہے وہ بھی بہت محدود پیمانے پر... لہٰذا اس تجویز کو پورے سودی نظام کا اسلامی متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
(نوٹ اس بارے میں مفتی ریاض صاحب سے فتوٰی لینا ہے)
ڈاکٹر وقار مسعود کے بعد جدہ سے آئے ہوئے ایک پاکستانی انجینئر عبدالودود خان نے اس دعویٰ کے ساتھ اپنی معروضات پیش کیں کہ اگر ان کے فارمولے پر عمل کیا جائے تو ایک رات میں سودی نظام کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور موجودہ بنکاری نظام میں بھی کسی انقلابی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی تحریر کردہ ایک کمپیوٹرائزڈ کتاب بھی عدالت کے حوالے کی۔ عبدالودود خان نے سود ختم کرنے کا جو فارمولا پیش کیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ اگر کوئی شخص ایک سال کے لئے بنک سے ایک لاکھ روپیہ قرض لینا چاہے تو وہ دس ہزار دس سال کے لئے بنک کے پاس جمع کروا دے۔ اس کے عوض بنک شخص موصوف کو ایک سال کے لئے ایک لاکھ روپیہ ادا کردے۔ ان دونوں کھاتوں کا ایک دوسرے سے نہ تو کوئی تعلق ہو اور نہ ہی ایک دوسرے سے مشروط ہوں۔ معزز عدالت نے اس تجویز پر کہاکہ اوّل تو یہ تجویز کوئی نئی نہیں ہے۔ شیخ محمود احمد مرحوم عرصہ تک اس سکیم کے داعی کی حیثیت سے سرگرم رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ سکیم سودی نظام کے ایک بہت معمولی حصے پر لاگو کی جاسکتی ہے وہ بھی بہت محدود پیمانے پر... لہٰذا اس تجویز کو پورے سودی نظام کا اسلامی متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
(نوٹ اس بارے میں مفتی ریاض صاحب سے فتوٰی لینا ہے)
2:ممتاز قانو ن دان خالد اسحق نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ قرآن و سنت سودی لین دین کو حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس امر کا فیصلہ کرنا اشد ضروری ہے کہ دراصل سود کی تعریف کیا ہے ؟ مزید یہ کہ اس حکمت کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے جس کی وجہ سے سود کو ناپسندیدہ اور حرام قرار دیا گیا ہے۔ خالد اسحق نے ظلم اور ضرر کے فلسفے کو تفصیل سے بیان کیا اور موقف اختیار کیا کہ سودی لین دین میں مقرر مدت اور رقم میں اضافے کے ساتھ ساتھ ظلم اور زیادتی کا عنصر شامل ہونا بھی ضروری ہے جبکہ موجودہ بنکاری نظام میں یہ عنصر عام طور پر موجود نہیں ہوتا۔ اس لئے سارے بنکاری نظام کو سودی قرار دے کر بیک قلم ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا۔
3:معاشیاتِ اسلامی کے پروفیسر خورشید احمد صاحب سود کے مقدمے کی سماعت کے دوران لندن سے پاکستان تشریف لائے اور نہایت مختصر نوٹس پر انہوں نے معزز عدالت کے سامنے اپنی معروضات پیش کیں۔ پروفیسر صاحب نے عالمی معاشیات کے جدید ترین تجزیہ جات کا حوالہ دیتے ہوئے تازہ ترین معاشی کتب سے ثابت کیا کہ پوری دنیا میں سودی نظامِ زر کا جہاز آہستہ آہستہ غرقاب ہو رہا ہے اور خود سودی نظام چلانے والے ایک نئے عالمی معاشی نظام کو متعارف کروانے کے بارے میں سنجیدگی سے سو چ رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی رائے یہ تھی کہ موجودہ سودی نظامِ زر آئندہ نصف صدی کے اندر اندر پوری دنیا میں ناکام ہوجائے گا۔ لہٰذا ماہرین ابھی سے ایک نئے معاشی اور مالیاتی سسٹم کا خاکہ وضع کرنے کے کام پر لگ گئے ہیں اور اس سلسلے میں خاصی پیش رفت ہوچکی ہے۔ پروفیسر صاحب نے یہ خوش کن انکشاف کیا کہ عالمی ماہرین جس نئے مالیاتی نظام پر متفق ہو رہے ہیںوہ اسلامی نظامِ زر سے بہت قریبی اور حیرت انگیز مماثلت رکھتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ وہ غیر سودی بنیاد پر کام کرنے والے ایک مکمل اور جدید بنک کا خاکہ تیار کرکے حکومت ِپاکستان کو پہلے ہی پیش کرچکے ہیں۔ لہٰذا یہ مو قف کہ سود کے بغیر کسی بنک کا کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں، بالکل غلط ہے۔ معزز عدالت کے ایک سوال کے جواب میں پروفیسر خورشید احمد نے رائے دی کہ جہاں تک سود کی بنیاد پر حاصل کئے جانے بیرونی قرضہ جات کا سوال ہے تو حکومت ان کی ادائیگی کی پابند ہے۔ جس کے لئے حکومت کو دس سال تک کا یا کوئی بھی مناسب وقت دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پروفیسر صاحب نے رائے ظاہر کی کہ ملک کے اندر بھی سودی نظام کے بیک جنبش قلم خاتمے کے بجائے تدریج کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور ایک سے تین سال کے اندر ملکی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔