09 اپریل 2015
اِس ڈیجیٹل دور میں صحافت کی تخلیق اور تقسیم کے طریقے یکسر بدل گئے ہیں۔ موبائل فون اور دیگر موبائل آلات جنہیں انٹرنیٹ سے [جوڑا] یا کنیکٹ کیا جا سکتا ہے، اب ہر لمحے اور ہر جگہ موجود ہیں۔ اس لیے اطلاعات و معلومات کے صارف اور خالق کے درمیان فرق دھندلا پڑ گیا ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو بالکل ہی ختم ہو گیا ہے۔ جیسے جیسے اطلاعات اور معلومات کے ذرائع میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، یہ خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ شہریوں کو ملنے والی معلومات جن کی روشنی میں وہ عمل کر رہے ہیں، ممکن ہیں مسخ شدہ یا غلط ہوں۔
اس ماحول میں، شہریوں کو قابلِ اعتبار اور صحیح معلومات فراہم کرنے والی صحافت کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنی بستی کو اور وسیع تر دنیا کو سمجھ سکیں اور اپنے معاشرے کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلے کر سکیں۔ صحافی ایسے اخلاقی معیار اپناتے اور اُن پر کاربند رہتے ہیں جن سے اُنہیں اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے کہ ان کے کام سے سچائی، شفافیت اور کمیونٹی کی اقدار کا بول بالا ہو رہا ہے۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو صحافی انفرادی طور پر اور وہ تنظیمیں جو ان کے کام کو شائع کرتی ہیں، اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور دیانتداری میں عوام کا اعتماد حاصل کر لیتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک صحافی اعلیٰ ترین اخلاقی معیاروں کی کس طرح پاسداری کرسکتا ہے؟
صحافی ان اصولوں کے اظہار سے جو صحافت کی بنیادی اقدار کا نچوڑ ہیں، اخلاقی معیاروں کا ہر جگہ بول بالا کرتے ہیں۔ عام طور پر ان میں یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں:
• سچائی کا کھوج لگائیں اور ممکنہ حد تک اسے پوری طرح سامنے لائیں۔
• طاقتور افراد کو جوابدہ ٹھہرائیں۔
• کمزور اور بے سہارا لوگوں کی آواز بنیں۔
• اپنے صحافیانہ طریقوں کے بارے میں شفاف رہیں۔
• واقعات کے بارے میں اپنی سوچ منصفانہ اور جامع رکھیں۔
• جب ممکن ہو، مفادات کے ٹکراؤ سے بچیں اور مسابقاتی وفاداریوں کو ظاہر کریں۔
• نقصان کو جتنا کم کر سکیں، کریں۔ خاص طور سے کمزور اور بے سہارا لوگوں کے سلسلے میں۔
• اُن سے دور رہیں جو اپنے مفاد کے فروغ کی خاطر اور سچائی کو مسخ کرنے کی غرض سے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں۔
• تمام دوسرے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر، اپنی وفاداریاں ان شہریوں کے لیے وقف کر دیں جن کی آپ خدمت کرتے ہیں۔
• اطلاعات کی تصدیق کی کوششوں میں چوکنے اور منظم رہیں۔
• عوامی بحث وتمحیص اور تنقید کے لیے ایک فورم قائم کریں۔
اس فہرست کا مقصد بنیادی اصولوں کی ایک مثال دینا ہے، لیکن یہ کوئی حتمی فہرست نہیں ہے۔ ہر نیوز روم اور صحافیوں کی انجمن کو اپنے اصولوں کی نشاندہی کرنا چاہیئے جس سے انہیں اپنے مشن اور صحافت کے طریقوں کے لیے رہنمائی مل سکے۔ جب کوئی صحافی ایک بار اپنے بنیادی اصولوں کی وضاحت کر لیتا/لیتی ہے، تو پھر اچھے اخلاقی فیصلے کرنے کے لیے قیادت، ناقدانہ اندازِ فکر، سوالات پوچھنے، کسی مخصوص صورتِ حال کے لیے متبادل راستوں کی نشاندہی کرنے، اور بالآخر ایسا متبادل راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے صحافیانہ مقصد کو بہترین انداز سے پورا کر سکے۔
مثال کے طور پر، بہت سے صحافی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ سرکاری لین دین میں کیا ہو رہا ہے، گمنام ذرائع سے اطلاعات حاصل کرنے پر انحصار کرتے ہیں۔ فرض کریں، کوئی شخص آپ سے رابطہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک منتخب سیاست دان کسی مقامی کاروباری ادارے سے رشوت لے رہا ہے، اور اس کے عوض وہ منافع بخش سرکاری ٹھیکے، اس کاروباری ادارے کو دلوا رہا ہے۔ صحافی اور اس کے ساتھی اپنے کام کا آغاز ان سوالات سے کریں گے:
• اس اطلاع کی چھان بین کرنے میں ہمارا صحافیانہ مقصد کیا ہے؟ اِس سے شہریوں کو کیا فائدہ ہوگا؟
• ایسی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے پیچھے اس ذریعے کا کون سا مقصد کار فرما ہے؟
• کیا ایسی دستاویزات عام طور سے دستیاب ہیں جن سے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہو؟
• کیا اطلاع دینے والا ذریعہ، کسی قسم کی دستاویزت یا دوسرے ثبوت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟
• ہمیں اس ذریعے کی نوعیت اور اِس کی معلومات کو کیسے بیان کرنا چاہئِے، اور ہم اس کی شناخت کو اپنے قارئین/ناظرین سے خفیہ کیوں رکھ رہے ہیں؟
• ہمیں اس اطلاع کی تصدیق کرنے کے لیے دوسرے ذرائع کہاں سے مل سکتے ہیں؟ کیا ان کا نام لیا جائے گا؟
• اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہماری کہانی مکمل ہے، ہمیں دوسری کس قسم کی رپورٹنگ کرنا چاہیئے؟
• اگر ہم اس ذریعے پر اعتماد کرتے ہیں، تو ہمیں اسے نقصان سے بچانے کے لیے کیا کرنا چاہیئے؟
یہ سوالات گمنام ذرائع کے بارے میں بہترین طریقوں کے قائم کرنے کی ضرورت ختم نہیں کرتے۔ بعض نیوز روم ایسے رہنما اصول مقرر کر دیتے ہیں جن سے بااخلاق صحافت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر:
• عام طور سے ذرائع کی نشاندہی، ان کے ناموں سے ہونا چاہیے۔
• کہانی کے ذریعے کو گمنام رکھنا ہماری ساکھ کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے شاذونادر ہی خفیہ رکھنا چاہیے اور ایسا صرف بہت اہم واقعات میں کرنا چاہیئے۔
• اگر ہم کسی گمنام ذریعے سے کوئی اطلاع شائع کرتے ہیں، تو اس کی تائید دو دوسرے ذرائع سے کی جانی ضروری ہے۔
اس قسم کے رہنما اصول بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہر ممکن صورتِ حال کے لیے رہنما اصول فراہم نہیں کیے جا سکتے، اس لیے ان سے ٹھوس اخلاقی فیصلہ سازی میں تو مدد لی جا سکتی ہے، لیکن وہ ناقدانہ اندازِ فکر کا متبادل نہیں ہو سکتے۔
جدید دور کے صحافیوں کو اکثر اِس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ایسی اطلاعات اور معلومات کا کیا کیا جائے جو خیالات و تصورات کی مارکیٹ میں، شاید سوشل میڈیا کے ذریعے متعارف تو کرا دی گئی ہیں، لیکن یہ مصدقہ نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ موبائل فون پر کوئی متنازعہ ویڈیو یا فوٹو ہو، کوئی دستاویز ہو جس میں بدعنوانی کا الزام لگایا گیا ہو، یا کوئی ایسا بیانیہ ہو جو مقبول ہو گیا ہو۔ جب کسی کمیونٹی میں شہری ایسی اطلاعات پر بڑے پیمانے پر تبادلۂ خیال کر رہے ہوں جس کی جانچ پڑتال یا تصدیق نہ کی گئی ہو، تو صحافیوں کو صحیح صورتِ حال بتانے کے لیے اقدام کرنے چاہئیں۔ آپ اس قسم کے سوالات پوچھ سکتے ہیں:
• ہم اس اطلاع کی تصدیق یا تردید کے لیے، کیا کر سکتے ہیں؟
• عام لوگوں میں سمجھ بوجھ میں اضافے کی خاطر، ہم حقائق کو کس طرح بے نقاب کر سکتے ہیں یا سیاق وسباق فراہم کر سکتے ہیں؟
• دوسرے لوگوں کی فراہم کردہ ناقص معلومات کو درست کرنے کے لیے، ہم پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
• اس اطلاع کی وصولی کی اطلاع دیتے ہوئے، ہم اپنی اعتمادی اور بے اعتمادی کی کس طرح وضاحت کر سکتے ہیں؟
کسی صحافی میں اعتماد اور مہارت اس احساس سے پیدا نہیں ہوتے کہ اس کے پاس تمام سوالات کے جواب موجود ہیں، بلکہ اس کے لیے صحافیانہ اور اخلاقی اقدار کے بارے میں واضح سمجھ بوجھ کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایسے اچھے سوالات پوچھنے کا شعور ہونا چاہیے جو متبادل حل اور سچائی کے نئے راستے سامنے لا سکیں۔
کیلی میک برائیڈ، پوائنٹر انسٹیٹیوٹ کے اخلاقیات کے شعبے میں تدریسی عملے کی ایک اعلٰی رکن ہیں۔ یہ اسکول ایسا میڈیا اسٹریٹجی سینٹر ہے جو صحافیوں اور لیڈروں کی تدریس اور ہمت افزائی کے لیے وقف ہے۔ یہ انسٹیٹیوٹ اپنی ای لرننگ سائٹwww.newsu.org کے ذریعے تربیت اور www.poynter.orgپر میڈیا کے بارے میں خبریں فراہم کرتا ہے۔http://iipdigital.usembassy.gov/st/urdu/pamphlet/2015/02/20150225313775.html
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔